پاکستان کی بنیادی کشمیر پالیسی!

متضاد اقدامات اور کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے آج یہ سوال تواتر سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے کیا؟ہر حکومت قائد اعظم کی کشمیر پالیسی پر قائم رہنے کے اعلانات تو کرتی ہے لیکن ہر حکومت پاکستان کی بنیادی کشمیر پالیسی کے برعکس اپنی حکومت کے مفادات کو پیش نظر رکھتے نظر آتی ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کی مدد و حمایت کے دعوے اس وقت گہنا جاتے ہیں کہ جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کشمیر کاز کے لئے نقصاندہ صورتحال نظر آّتی ہے۔پاکستان کی وہ بنیادی کشمیر پالیسی کیا ہے جس پر پاکستان کی ہر حکومت کو کاربند ررہتے ہوئے اپنے اولین مسئلے کے طور پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو غیر محسوس انداز میں جابرانہ طرز عمل کے ساتھ تحلیل کرنے کی سازشیں عریاں ہو چکی ہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے1950ء میں '' ریاست جموں و کشمیر کے انڈیا یا پاکستان سے الحاق سے متعلق تحریک '' پرپارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پیدا ہونے کے عوامل ،بھارتی طرز عمل،کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی اس کشمیر پالیسی کے خد و خال بیان کئے ہیںجو پاکستان کی بقاء اور سلامتی سے مربوط معاملہ ا و رمسئلہ ہے۔
متضاد اقدامات اور کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے آج یہ سوال تواتر سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے کیا؟ہر حکومت قائد اعظم کی کشمیر پالیسی پر قائم رہنے کے اعلانات تو کرتی ہے لیکن ہر حکومت پاکستان کی بنیادی کشمیر پالیسی کے برعکس اپنی حکومت کے مفادات کو پیش نظر رکھتے نظر آتی ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کی مدد و حمایت کے دعوے اس وقت گہنا جاتے ہیں کہ جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کشمیر کاز کے لئے نقصاندہ صورتحال نظر آّتی ہے۔پاکستان کی وہ بنیادی کشمیر پالیسی کیا ہے جس پر پاکستان کی ہر حکومت کو کاربند ررہتے ہوئے اپنے اولین مسئلے کے طور پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو غیر محسوس انداز میں جابرانہ طرز عمل کے ساتھ تحلیل کرنے کی سازشیں عریاں ہو چکی ہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے1950ء میں '' ریاست جموں و کشمیر کے انڈیا یا پاکستان سے الحاق سے متعلق تحریک '' پرپارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پیدا ہونے کے عوامل ،بھارتی طرز عمل،کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی اس کشمیر پالیسی کے خد و خال بیان کئے ہیںجو پاکستان کی بقاء اور سلامتی سے مربوط معاملہ ا و رمسئلہ ہے۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان (جو اس وقت زیر دفاع بھی تھے)مارچ1950ء کا قومی اسمبلی سے تاریخی خطاب پاکستان کی آج کی کشمیر سے متعلق پالیسی ،جسے ناقص حکمت عملی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، سے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔وزیر اعظم و وزیر دفاع لیاقت علی خان نے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کے مسئلے پر بحث کی تحریک کو ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ
'' میں اس معاملے پر بولنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے لئے بہت اہم ہے ، اور وہ ریاست جموں کشمیر کا مستقبل ہے ۔ یہ سوال تب سے ہمارے ساتھ ہے جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ۔ ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ، جب سے ریاست جموں و کشمیر کے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ اٹھا تھا ۔ دو سال تقریبا گذر چکے ہیں کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی لے جایا جا چکا ہے ۔ اس دوران پاکستان نے اس مسئلہ کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی تمام تر کوششیں کی ہیں ۔ اور اس دوران اس مسئلے کے باوقار حل کے لئے وقتا فوقتا مختلف مثبت تجاویز بھی دی ہیں۔ پر خلوص تعاون کا یقین دلانے کے لئے ، پاکستان کی حکومت نے سلامتی کونسل اور اس کے ثالثی کے کمیشن کومنصفانہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے، غیر مشروط تعاون کی بھی پیشکش کی ہے ۔ لیکن انڈیا کی حکومت ذرا بھی تعاون نہیں کر رہی ۔ اس مسئلہ کے شروع سے ہی ، ہم نے پر امن حل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو روکنے کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا سا منا کیا ہے ۔ یہ ڈیڈلاک کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ، نہ ہی انڈیا کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی واحد کوشش، پہلے دن سے ہی ، جس دن انڈیا کے پہلے فوجی نے کشمیر میں قدم رکھا ، مسئلہ کشمیر کی تاریخ ،انڈیا کی حکومت کی طرف سے موقف بدلنے اور ایک پوزیشن سے دوسری پر جانے کا ایک سلسلہ ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک اس کا کوئی حل عمل میں نہیں آ سکا ۔ اگرچہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ، جس نے حل کے لئے تجاویز دی تھیں ، طے پایا تھا اور دونوں حکومتوں نے اس کو تسلیم کیا تھا ۔

ریاست جموں و کشمیر کے متعلق بنیادی حقائق کا آپ کو علم ہے ۔ ریاست کی آبادی تقریبا چالیس لاکھ ہے ، جس کا بڑا حصہ مسلمان ہے ۔ ایک سرکاری مردم شماری کے مطابق ، کشمیر میں 80فیصد مسلمان اور جموں کے چھوٹے صوبے میں تقریبا ساٹھ فیصد مسلمان ہیں ۔ پوری ریاست کی قریبا اسی فیصد آبادی مسلمان ہے ۔ ایک غالب اکثریت والی مسلم ریاست پر ہندو مہاراجہ کی حکومت کا قیام تاریخ کا ایک حادثہ ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاست جموں و کشمیر کو آج کے ریاست کے حکمران کے پردادا کے ہاتھوں 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض بیچا تھا ۔ تب سے آبادی ریاست کی مسلم لیکن ، سول اور فوجی انتظامیہ تمام تر غیر مسلموں کے ہاتھ میں رہی ہے ۔ انتظامیہ بدنام زمانہ جابر رہی ہے ۔ کئی موقعوں پر مسلم آبادی نے ظالموں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اگرچہ اس کو مزید شدت سے کچلا گیا۔ ہندو حکمرانوں کی مستقل پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل غربت اور پسماندگی میں رکھا جائے ۔ پندرہ اگست 1947کو جب بر صغیر کی تقسیم عمل میں آئی ، جموں و کشمیر باقی ریاستوں کی طرح آزاد تھی کہ وہ پاکستان سے الحاق کرے یا انڈیا سے ۔ جغرافیائی اعتبار سے ریاست پاکستان کا حصہ تھی ، کیونکہ اس کی اور پاکستان کی کئی سو میل لمبی مشترکہ سرحد ہے اور اس کے دریا اور تجارتی راستے بھی پاکستان کی طرف جاتے ہیں ، اس کا انڈیا کے ساتھ واحد راستہ ایک تنگ پٹی ہے جو غیر منصفانہ طور پر ریڈکلف ایوارڈ نے انڈیا کو دے دی ، ریاست کے پاکستان کے ساتھ جغرافیائی، اقتصادی اور ثقافتی رشتے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا تقاضا کرتے ہیں ، فطری طور پر، ریاست کے عوام کی غالب اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ لیکن ہندو مہاراجہ کے مفادات انڈیا کے ساتھ وابستہ تھے ۔ اگرچہ وہ کچھ دیر کے لئے وہ اپنے عوام کی خواہشات کے ایک دم بر عکس کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہا ۔ کسی بھی فوری کشمکش سے بچنے اور وقت کے حصول کے لئے مہاراجہ نے اگست میں پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ کیا۔

برصغیر کی تقسیم ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے، کے ساتھ ساتھ ہولناک قتل عام شروع ہو گیا ، اور مسلمانوں کا بڑی تعداد میں انخلا پنجاب سے ، تشدد کے ذریعے اور انخلا کے خون جما دینے والے پروگرام کے تحت جو سکھوں ، ہندوئوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے اپنا یا ہے جس کو انڈیا کے عہدیداروں کی مدد اور تائید حاصل تھی ، مشرقی پنجاب میں اور اس کی ہمسایہ ریاستوں میں۔ مسلمانوں کے یہ المناک واقعات اور پریشان کن کہانیاں ، مشرقی پنجاب سے ملحقہ جموں و کشمیر آنے والے مہاجرین کے ذریعے پہنچیں ۔ جنہوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند کر دیا ، اور ان کے اس یقین کو پختہ کر دیا کہ ان کی حفاظت پاکستان کے ساتھ الحاق میں ہی ممکن ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کے ہندوئوں اور سکھوں کے مسلح جتھوں اور حکومت کی مسلح افواج کے ہاتھوں قتل عام کا منصوبہ عمل میں لایا گیا، اور پوری ریاست میں دہشت گردی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ ستمبر میں ، ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام اور مظلومیت کی اندوہناک خبریں پاکستان پہنچنے لگیں ان مسلمان مہاجرین کے ذریعے جنہوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ جلد ہی مہاجرین کی تعداد بڑھ گئی اور یہ واضح ہونے لگا کہ ریاست کا مقصد مسلمانوں کا قتل اور ریاست سے باہر دھکیلنا ہے ، اسی طریقے پر جس طرح باقی انڈیا میں ہو رہا ہے۔ مسلمانوں پر جبر مسلسل بڑھتا جا رہا تھا اور ہندو فوج بربریت کا ارتکاب کر رہی تھی ،۔ شدید مایوسی کے عالم میں ریاست کی مسلمان آبادی نے چند حصوں میں بغاوت کر دی اور مہاراجہ کے تسلط سے آزادی کا اعلان کر دیا ۔ ان واقعات نے پورے پاکستان میں مظلوم و مقہور کشمیریوں کے لئے شدید ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے تھے ۔ بالخصوص سرحدی علاقوں میں ، جہاں ہزاروں کے حساب سے زخمی مہاجرین نے پناہ لی تھی۔ سو یہ فطری امر تھا کہ ان زخمیوں کے لواحقین اور ان کے قبائلی ہمدرد قریبی سرحدی علاقوں سے سرحد کے دوسرے پار گئے اپنے تیس لاکھ سے زیادہ مسلم بھائیوں کو بچانے کے لئے ۔ اس مرحلے پر مہاراجہ نے اپنی مسلم رعایا کو دبانے کے لئے انڈیا سے الحاق کیا اور فوجی امداد کی اپیل کی ۔ اب مہاراجہ اور انڈیا کے درمیان کی گئی سازش کا پردہ فاش ہو گیا ۔ انڈیا کی حکومت نے اس نام نہاد الحاق کو قبول کرنے میں جلدی دکھائی ۔ اور ریاست کے بیرونی جارحیت سے تحفظ کے نام پر فورا اپنی فوجیں ریاست کے بڑے حصے پر قبضے کے لئے بھیجیں ۔ہمدردی اور غصے کی ایک شدید لہر نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، بے رحمی کے ساتھ دبے ہوئے لوگوں کی تحریکِ آزادی کے حق میں، پورے پاکستان میں ہمدردی اور غم و غصے کے اظہار کے لئے پاکستان سے الحاق کے ان کے ناقابلِ تردید حق،جہاں ان کے مذہبی،ثقافتی اور معاشی فوائد واضح طور پر متعین تھے، کی خاطر ایک لہر دوڑ گئی۔

ان حالات میں ، دھوکہ دہی سے کیا گیا ریاست کا انڈیا سے الحاق اور انڈیا کی افواج کا ریاست پر پر تشدد، قبضہ شدید اشتعال انگیز اقدام تھے جو کسی بھی جارحانہ قدم کے لئے کافی جواز ہیں ۔ لیکن ہم نے اشتعال انگیزی کا مقابلہ مصالحت سے کیا اور 27اکتوبر 1947کو انڈیاکی فوجوں کے ریاست میں داخلے کے فورا بعد انڈیا اور پاکستان کے گورنر جنرل اور وزیراعظم کی کانفرنس کی تجویز پیش کی ۔ انڈیا کے وزیر اعظم کانفرنس میں نہ آ سکے ۔ یکم نومبر کو قائد اعظم نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے سامنے مسئلے کے حل کے لئے تین تجاویز رکھیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوںگورنر جنرلز کو کشمیر میں لڑائی کو ختم کرنے کے لئے اپنے تمام اختیارات استعمال کرنے چاہئیں ، اگر ضرورت پڑے تو طاقت کا استعمال بھی کیا جائے ۔ دوئم ، انڈیا کی افواج اور پاکستانی شہری جو کشمیر میں لڑ رہے ہیں ان کو ہر ممکن طریقے سے جلداز جلد ریاستی حدود سے بے دخل کیا جائے،اور سوئم ، دونوں گورنرجنرلز کو امن و امان قائم کرنے کا، ریاست کی انتظامیہ کو سنبھالنے کا اور رائے شماری کے انتظامات کرنے کا مکمل اور فوری اختیار دیا جائے ، مشترکہ کنٹرول اور نگرانی میں ۔

ان تجاویز سے زیادہ شفاف کوئی تجویز ہو نہیں سکتی تھی ،کہ تمام لڑائیاں ختم کی جائیں ، افواج اور مسلح دستے دونوں طرف سے نکال دئے جایئں ، اور الحاق کے بارے میں لوگوں کی آزادانہ رائے جاننے کے لئے ایک غیر جانبدارانہ رائے شماری کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ وہ موقف ہے جو قائداعظم نے اختیار کیا نومبر میں اور یہی وہ موقف ہے جس پر ہم ہمیشہ قائم رہے ہیں ۔ اب اس پر انڈیا کا کیا ردعمل تھا؟ کئی دن تک قائداعظم کو ان تجاویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اور جب جواب ملا تو وہ قائداعظم کی تجاویز سے مکمل انکار کے مترادف تھا ۔ ایک جوابی تجویز دی گئی کہ انڈیا کی فوجوں کا انخلا تب ہوگا جب قبائلی علاقے سے نکل جائیں اور امن و امان بحال ہو جائے ۔ اور یہ تجویز بھی کہ انڈیا اور پاکستان ایک مشترکہ درخواست کریں اقوام متحدہ سے ، کہ قریب ترین ممکنہ وقت میں رائے شماری کروا دی جائے ۔اس اثنا میں 2 نومبر کوانڈیا کے وزیر اعظم کی ایک نشری تقریرنے واضح اشارہ دیا کہ انڈیا کی نیت یہ ہے کہ فوجی طاقت کے ذریعے ریاست کو تقسیم کر دیا جائے ۔ (مضحکہ خیز دکھاوے کو برقرار رکھتے ہوئے ، کہ بالاخر لوگوں کا فیصلہ حاصل کیا جائے گا ایک ریفرنڈم کے ذریعے ،ریاست پر طاقت کے ذریعے مکمل قبضہ ہو جانے کے بعد )۔ انڈیا کا ردعمل قطعی غیر اطمینان بخش تھا ۔ یہ واضح تھا کہ انڈیامسلم آبادی کو نکال کر ریاست پر مکمل قبضہ چاہتا ہے اور اس کا تمام رویہ 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس 'کے اصول پر مبنی تھا۔بہرحال، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم مذاکرات کے ذ ریعے سمجھوتے کے موقف پر قائم رہیں گے ۔ نومبر کے وسط میں ایک اخباری بیان میں ، میں نے مندرجہ ذیل الفاظ میں پاکستان کا موقف بیان کیا ،

اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے کہ طاقت کو سچ پر غالب آنے سے روکا جائے،پورے مسئلے کو عالمی رائے عامہ کے سامنے لایا جائے ۔ ہم اقوام متحدہ سے درخواست کرنے کو تیار ہیں کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں ، لڑائی کو روکنے اور مسلم آبادی پر مظالم کو بند کروانے کے لئے جلد از جلد اپنا نمائندہ مقرر کریں ، اور دونوں طرف سے فوجوں کے انخلا کے انتظامات کرنے کے لئے ، اور غیر جانبدار انتظامیہ کے تقرر کے لئے ، جب تک رائے شماری ہوتی ہے ۔ اور اپنی نگرانی میں رائے شماری کے انعقاد کے لئے ، تاکہ لوگوں کے آزادانہ رائے دہی کو یقینی بنایا جائے ۔ الحاق کے سوال پر ہم مناوادار اور جونا گڑھ کے لئے اسی حل کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس بیان میں میں نے یہ واضح کردیا تھا کہ حکومتِ پاکستان ، تما م تنازعے بشمول فوجی دستوں کے انخلا، عبوری حکومت کے معاہدے اور رائے شماری کے اہتمام کے لئے اقوام متحدہ کی طرف بھیجنے پر رضامند ہو گئی تھی۔ ہم نے انڈیا کی، اقوام متحدہ سے رائے شماری کروانے کے لئے مشترکہ درخواست دینے والی تجویز کو بھی دل سے قبول کیا تھا ۔ درحقیقت ہم ایک قدم آگے بڑھے اور تجویز کیا کہ تمام معاملے جن میں مسئلہ ہے ، کو اقوام متحدہ کی طرف بھیجا جائے ۔
انڈیا کا کیا جواب تھا ؟ جواب یہ تھا کہ انڈیا کی فوجوں کو کشمیر میں رہنا چاہئے لڑائی کو ختم کرنے کے لئے ۔ اور شیخ عبداللہ کی انتظامیہ لوگوں کی غیرجانبدارانہ رائے پر ہی بنی ہے ، اور یہ کہ اقوام متحدہ ان مسائل کے حل کے لئے تھوڑی سے مدد کر سکتا ہے ، بھارت اقوام متحدہ کے مبصر کو دعوت دینے کے لئے تیار تھا ۔ کہ وہ کشمیر آئے اور رائے شماری کی تجویز دے ۔ نئی تجویز یہ تھی کہ اقوام متحدہ کا مبصر یہ تجویز دے کہ رائے شماری اقوام متحدہ کے زیر انتظام کروائی جائے ، انڈیا کے پہلے والے موقف سے انحراف تھا ۔ جس میں یہ تجویز تھی کہ جتنا جلد ممکن ہو رائے شماری کروائی جائے ۔مسئلے کا اگلا دور تب سے شروع ہوا جب انڈیا نے مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ (پاکستان کے خلاف شکایت کی شکل میں ، کہ پاکستان نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے جو عالمی امن کے لئے خطرہ ہے )۔ انڈیا کے جارحیت والے الزام کا واضح جواب دیتے ہوئے پاکستان نے مسئلے میں اقوام متحدہ کی مداخلت کا خیر مقدم کیا ۔ اور 31 دسمبر کو انڈیا کے وزیر اعظم کے نام ایک مکتوب میں ، میں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی اس مداخلت سے پاکستان اور انڈیا کے تمام تصفیہ طلب مسائل جلد حل ہو جائیں گے ۔

کچھ ہفتوں کی تھکا دینے والی بحث و تمحیص کے بعد، سلامتی کونسل نے ہماری بنیادی تجویز کو اپنی تجاویز کا حصہ بناتے ہوئے ہمارے اصولی موقف کی تائید کی ۔ 6 فروری 1948کی جنرل میکناٹن کی تجویز میں،جب یہ واضح ہو گیا کہ انڈیا کو یہ حل قبول کرنا پڑے گا ، انڈیا کے نمائندے نے بحث روکنے کی درخواست کی اور واپس نئی دہلی چلا گیا ۔ سلامتی کونسل کے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے ۔ اس دوران کیا کچھ ہوا ، قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن مارچ میں جب بحث دوبارہ شروع ہوئی ، جنرل میکناٹن کی تجویز کو یکسر بھلا دیا گیا ، اور ایک نئی تجویز جو انڈیا کے حق میں تھی، کو 21اپریل کی بحث کے لئے سامنے لایا گیا ۔ انڈیا نے اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا ۔ اس تجویز کی شرائط بھی ہمارے لئے پوری طرح قابل قبول تھیں ۔ بہر حال ، ہم نے اس تجویز کے تحت بننے والے کمیشن کے ساتھ تعاون کی پیشکش پر بھی قائم رہے ۔

اسی اثنا میں ،برصغیر میں بہت ہی سنجیدہ اور قابل فکر اقدامات ہو رہے تھے ۔ جب کشمیر پر بحث سلامتی کونسل میں ہو رہی تھی ، انڈیا کشمیر میں اپنی مسلح افواج بڑھا رہا تھا ۔ اپریل، 1948 میں انڈین افواج کے ذریعے پوری ریاست کو زیرِ نگیں لانے اور دنیا بھر میں کاایک واضح تاثر دینے کے لئے ایک بھر پور حملے آغاز کردیا گیا۔ انڈیا کی ان حرکتوں کے اثرات پاکستان میں بھی فورا محسوس کئے جانے لگے ۔ جس کا پہلا نتیجہ ریاست سے ایک بہت بڑی تعداد میں مہاجرین کی پاکستان آمد تھا ۔ انڈیا کی فوجیں پاکستان کے لئے ظاہر و مخفی مستقل خطرہ تھیں اور پاکستان کی سرحدیں ایک مستقل عدم تحفظ کا شکار تھیں ۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اور پاکستان کی حفاظت کے لئے ہم نے مئی 1948میں ایک محدود تعداد میں ایک دفاعی پوزیشن پر اپنی فوج کشمیر کی سرحدوں پر بھیجی۔ اقوام متحدہ کمیشن برائے پاک و ہند جولائی کے آغاز میں بر صغیر پہنچا۔ کمیشن نے انڈیا اور پاکستان کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کئے اور13 اگست کو ایک قرارداد پاس کی ، جس نے جنگ بندی کی تجویز دی اور ایک جنگ بندی کے معاہدے کے لئے بنیادی اصول وضع کئے ۔ لیکن رائے شماری کے انعقاد کے لئے کوئی واضح اقدامات کئے بغیر ۔ہم نے اس قرارداد کو قبول کیا ،صرف ہم نے حصہ (3) میں ، 21اپریل کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی تجویز کردہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی تفصیلات شامل کرنے کو کہا ۔ ہماری اس قانونی اور دانشمندانہ درخواست کی قبولیت کو انڈیا کی ہٹ دھرمی نے نا ممکن بنا دیا۔ انڈیا کے ٹال مٹول والے حربوں کا ایک مقصد تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے متعلق لوگوں کی خواہش جاننے کے ذ رائع کا سد باب ہو سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمیشن مختلف نظریات کو ایک نکتہ پر لانے پر کامیاب نہ ہو سکا۔ کمیشن نے اپنے مذاکرات کو معطل کیا اور سلامتی کونسل کو رپورٹ کرنے کے لئے واپس یورپ گیا ۔

اس دوران کشمیر میں لڑائی جاری تھی اور انڈیا کی جارحیت ثابت قدمی اور زور پکڑتی جا رہی تھی ۔ بہر حال گفت و شنید (مذاکرات)نومبر میں بحال ہوئی ۔ اور ایک لمبی بحث کے بعد کمیشن نے دسمبر کو ایک قرارداد منظور کی۔ جس میں پاکستان یا انڈیا سے الحاق کے لئے تجویز شدہ رائے شماری کے لئے تنظیم اور ضابطہ کار وضع کیا گیا تھا ۔ اگر کوئی غیر جانبدار مبصراس کا بغور مطالعہ کرے تو یہ جنرل میکناٹن کی چھ فروری کی قرارداد سے انتہائی مشابہت رکھتی تھی۔ اور اس میں سلامتی کونسل کی 21اپریل کی قرارداد کو شامل نہ کیا گیا تھا ۔ تاہم پاکستان نے اس نئی تجویز کو بھی قبول کر لیا انڈیا نے بھی کیا ۔تاہم پاکستان نے ان نئی تجاویز کوقبول کرلیا۔ گرچہ انڈیا نے بھی ایسا ہی کیا لیکن ان ذہنی تحفظات کے ساتھ جن کا ذکر میں ابھی کرنے جا رہا ہوں۔ جنگ بندی کے احکامات یکم جنوری 1949کو جاری کئے گئے ۔ اور کمیشن کی تجاویز کو پانچ جنوری کو باضابطہ طور پر اپنایا گیا۔ لیکن اگلے سات مہینے اور ایک صبر آزما انتظار کے بعد کمیشن انڈیا کو ایک حد بندی کی ایک شفاف لائن کے لئے آمادہ کر پایا ۔ جب کمیشن کی کاروائی آگے بڑھی ، 13اگست 1948کی قرارداد کے دوسرے حصے ، جو کہ جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق تھا، کو عملی جامع پہنانے کی طرف، اس کو انڈیا کی طرف سے ایک حیران کن غیر مصالحت پسند رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈیا نے نہ صرف آزاد کشمیر سے فوجوں کے انخلا اور شمالی علاقہ جات کے کنٹرول کے متعلق غیر متعلقہ سوال اٹھائے بلکہ اس نے ریاست جموں و کشمیر سے اپنی فوجوں کو ہٹانے سے صاف انکار کر دیا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا نے اپنے وعدوں سے انکار کر دیا ۔ صرف یہی نہیں ، انڈیا ایک قدم آگے بڑھا اور اصرار کیا کہ کمیشن پاکستان سے انڈیا کی فوجوں کے انخلا کے لئے انکار کر دے ۔ انڈیا کا یہ نیا مطالبہ ، آزاد کشمیر سے فوجوں کے انخلا کے متعلق، جنگ بندی کے معاہدے کے لئے مذاکرت کرتے وقت کمیشن کی شرائط میں سامنے نہیں آیا تھا ۔ دوسرا سوال ، شمالی علاقہ جات کی سیکیورٹی ، (قرارداد میں کہیںذکر نہ تھا ، اورسو اس کا قرارداد سے کوئی تعلق نہ تھا، اور اسی طرح کمیشن کی مختلف یقین دہانیوں میں بھی )دوسرا سوال یہ کہ قرارداد میں شمالی علاقہ جات کے تحفظ کے لئے کچھ بھی شامل نہ کیا گیا تھا اور یہ نہ صرف قرارداد بلکہ کمیشن کی طرف سے کی گئی یقین دہانیوں کے برعکس تھا۔مزید برآں ، انڈیا کی افواج کی شمالی علاقہ جات میں تعیناتی ، امن و امان کی یقین دہانی سے بعیدہے ، اور بے چینی اور عدم تحفظ کی ایسی صورتحال پیدا کر سکتی ہے جو ایشیا میں سیاسی توازن کو بگاڑ دے۔ سلامتی کونسل کو کمیشن کی تیسری رپورٹ نے پاکستان کے موقف کی پوری طرح تائید کی ، اور انڈیا کی طرف پاکستان کی افواج کے جواب میں انڈیا کی فوجوں کے انخلا سے انکار کو قطعی غیر منصفانہ کہا ۔ اب یہ محترم ممبران پر مکمل طور پر واضح ہونا چاہئے کہ انڈیا کا اقوام متحدہ کو اپنی کارروائی مکمل کرنے دینے کا کوئی سنجیدہ ارادہ نہیں ہے ۔ اسی لئے انڈیا رائے شماری کو کسی بھی ممکنہ طریقے سے روکنا چاہتا ہے ۔ اور انڈیا کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کو اس حد تک کچلا اور دبایا جائے کہ اگر کبھی رائے شماری ہو بھی تو وہ اپنی آزادانہ رائے نہ دے سکیں ۔

سہولت کاری کی کوششوں کی ناکامی کے بعد کمیشن نے 29اگست 1949کو یہ تجویز کیا کہ جنگ بندی کی شرائط کے متعلق تمام اختلافی معاملات فیصلے کے لئے ایڈمرل نمٹز، رائے شماری کے نگران، کے حوالے کئے جائیں ، جن کے فیصلہ پر عمل کرنا دونوں حکومتوں پر لازم ہو گا ۔ عالمی امن کو برقرار رکھنے کی خاطر امریکی کے صدر ٹرومین اور برطانیہ کے وزیر اعظم مسر اٹیلی نے بھی انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے اپنی اپیل میں اس تجویز کی تائید کی ۔ ہم نے اس تجویز کو بھی قبول کیا ، جبکہ انڈیا نے رد کر دیا ۔ ہٹ دھرمی مزید نہیں چل سکتی تھی ۔ کمیشن کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ واپس جائے اور سلامتی کونسل کو رپورٹ کرے ۔ اپنی آخری رپورٹ میں کمیشن نے سفارش کی کہ اقوام متحدہ اپنا نمائندہ مقرر کرے ، 13اگست 1948اور 5 جنوری 1949کی قراردادوں سے متعلقہ تمام امور کو ایک متفقہ نکتہ پر لانے کے مکمل اختیارات کے ساتھ ۔ دسمبر کو سلامتی کونسل نے ایک بار پھر جنرل میکناٹن کو بھیجا، مخالف فریقین کے مابین سہولت کاری کے لئے۔ ان کی دسمبر کی سفارشات میں ،17 دسمبر کو سیکیورٹی کونسل نے جنرل میکناٹن کو متحارب فریقین کے درمیان نئے سرے سے ثالثی کا کام شروع کرنے کا اختیار دیا۔اس کی 22 دسمبر کی تجاویز میں دیگر باتوں کے علاوہ اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی فوجوں کے متوازن اور تیز تر انخلا اوراس پر اطمینان بخش عملدرآمد کے بعد کمشنر رائے شماری کے ذریعے، 5 جنوری کی کمیشن کی قراردا دکے مطابق رائے شماری کے انعقاد کی تجویز شامل تھی۔ ان تجاویز کوپاکستان نے قبول کر لیا لیکن انڈیا نے سرد مہری کے ساتھ رد کردیا۔

اب اگلا مرحلہ سلامتی کونسل کا ہے ۔ حکومت پاکستان نے اب تک انڈیا کی طرف سے کشمیر کو طاقت کے ذریعے ہتھیانے کی ہر حرکت کی بھر پور مزاحمت کی ہے ، اور اس مسئلہ کے پر امن منصفانہ حل کے لئے بہترین کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ اس بات پر متفق ہے کہ انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ۔ رائے شماری کی راہ ہموار کرنے والے اقدام اور شرائط جن پر رائے شماری ہو سکتی ہے ، کمیشن کی 13اگست 1948 اور 5جنوری 1949کی قراردا د میں منظور کئے گئے ہیں ۔ ان کی سیکیورٹی کونسل نے تائید کی ہے اور انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے ان کو تسلیم کیا ہے ۔ اب قرارداد کو عملی جامہ پہنانا انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا ۔ لیکن حکومت پاکستان کوقوی امید ہے کہ سلامتی کونسل بین الاقوامی معاہدے کی شرائط کی دوبارہ تصدیق کریگی اور ان شرائط کو فورا عملی جامع پہنانے پر زور دیتے ہوئے جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچے گی ۔میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ جغرافیائی، اقتصادی ، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔ اس کی آبادی کی غالب اکثریت، پاکستان کے لئے اس کی دفاعی پوزیشن ، اس کے دریائوں کا بہائو ، اسکی سڑکوں کا رخ، اس کے تجارتی رستے ، زمانہ قدیم سے اس کے لوگوں کا پاکستان سے قریبی اور مسلسل تعلق، کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ناقابلِ تنسیخ اور اٹوٹ رشتے سے منسلک کرتے ہیں۔ کوئی بھی غیر متعصب شخص جو نقشے کو غور سے دیکھے اور مسئلہ پر تھوڑی سی توجہ کرے ، وہ لازمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے ۔ اس سب کے باوجود ہماری عالمی امن کو برقرار رکھنے کی مخلص خواہش کی وجہ ے ہم یہ چاہتے ہیں عوام کی رائے اور خواہش کو یقینی بنایا جائے اس معاملہ میں ، کیونکہ یہ لوگوں کا پیدائشی حق ہے کہ وہ بغیر کسی مجبوری کے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں ۔ ہم کشمیر کے عوام کے فیصلے سے خوفزدہ نہیں ہیں ۔ لیکن انڈیا کشمیری لوگوں کو دبانا چاہتا ہے اور لوگوں کے آزادانہ انتخاب کو نا ممکن بنا رہا ہے ۔ حکومت پاکستان کشمیر کے عوام کے مصائب اور بے چینی سے واقف ہے ، اور ان سب مظالم اور آزمائشوں سے واقف ہے جو وہاں فوجی قبضے کی وجہ سے ہیں ۔ ہمیں کشمیر اور پاکستان کے لوگوں میں ایک پارٹی کی مصنوعی سردمہری کے حالیہ رویے کے خلاف بڑھتی ہوئی بے صبری کا بھی ادراک ہے۔ ہم پہ پاکستان اور کشمیر کے عوام کا قرض ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے ، پر امن طریقوں سے ، ریاست کے عوام کو اختیار کا حق دیتے ہوئے ، انڈیا یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا ۔ ہمارا موقف منصفانہ ہے اور مجھے ذرا بھی شک نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں میں کامیاب ہوں گے ۔

اس سیارے پر انسانوں کی ہزار سالہ زندگی کے دوران کئی تہذیبیں معرض وجود میں آئیں ، عروج پر پہنچیں اور پھر ختم ہو گئیں ۔ وہ تہذیبیں جن کی بنیاد سچائی اور انصاف کے اصولوں پر تھی ، لمبے عرصہ تک زندہ و تابندہ رہیں ۔ جو بھی تاریخ کا بغور مطالعہ کریگا اسے پتہ چلے گا کہ یہ قانون قدرت ہے جس کا تہذیبوں پر ، قوموں پر ، اور افراد پر برابر اطلاق ہے ۔ بہر حال ، کچھ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ تاریخ کے سبق کو نظرانداز کر سکتے ہیں ۔ وہ ان چیزوں کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں جو انکی نہیں ۔ لوگوں کو غلام بناتے ہیں ۔ وہ اپنے وعدے توڑتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں وہ خدا کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ آپ تاریخ کے اسباق کو فراموش کر سکتے ہیں ، لیکن آپ یہ اپنے لئے مصیبت مول لیں گے ۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے کہ خدا کے انصاف میںدیر تو ہوسکتی ہے مگر اندھیر نہیں۔تاریخ یہ سبق بھی دیتی ہے کہ جو لوگ اپنے حصے کی کوشش نہیں کرتے ، اور اپنے حق کی حفاظت نہیں کر سکتے ، زیر ہو جاتے ہیں ، کیونکہ زندگی مسلسل اور مضبوط جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے ، ہم جنگ نہیں چاہتے ، ہم کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں چاہتے ، ہم کسی کا برا نہیں چاہتے ، لیکن ہم طاقت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ، اور مسئلہ کشمیر کے کسی غیر منصفانہ حل کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ کتنی قربانیاں دینی پڑیں، نتائج خواہ کوئی بھی ہوں ، اور کوئی جو کہے یا کرے ، ہم کشمیر پر انڈیا کو طاقت کے ذریعہ قابض نہیں ہونے دیں گے اور ہم ان لاکھوں کشمیری مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے جن کی زندگیاں اسی دنیا میں ہندو ظالموں اور انڈیا کی فوجوں نے جہنم بنا دی ہیں ۔ لوگ اپنی آزادی کے لئے اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گذارنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ، وہ محنت کر رہے ہیں کہ ان کو اپنی محنت کا صلہ (مزدوری)پورا ملے ، وہ بے انصافی ، ظلم اور دہشت سے نجات پائیں ۔ ان کو وقتی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان کا مقصد خدا کی رضا سے آخر کار فتح یاب ہوگا ۔ اور ان کو غلام بنانے کے ناپاک عزائم اور ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی سازشیں ناکام ہوں گی ۔ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، بغیر نفرت کے اور بغیر کسی خوف کے ، ہم بڑھیں گے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے'' ۔
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699269 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More