پٹھانکوٹ ایئربیس کے ڈرامے کی حقیقت ہرآئے
دن کے ساتھ واضح ہوتی جارہی ہے اوراب خودبھارتی میڈیااورسنجیدہ سیاسی تجزیہ
نگاربی جے پی کے موجودہ رویہ کومشکوک قرار دے رہے ہیں۔بھارت کاایک
وزیرپٹھانکوٹ پرپاکستان کے ردّعمل کی ستائش کررہاتھا تودوسرا پیمانۂ
صبرلبریزہونے کی شکائت کررہا ہے بلکہ معاملات کو سلجھانے کی بجائے ''درد''
دینے کی ہمکی دے رہاتھااوربالآخرچارسدہ یونیورسٹی کے معصوم اوربے گناہ
طلباء اورایک روشن ستارہ استاد اس منظم دہشتگردی کے نتیجے میں جامِ شہادت
نوش کرگئے ۔ہندوبنئے کے روایتی اوربزدلانہ مکروہ کردارنے اپنااظہارایک
بارپھرپوری شدت سے شروع کردیاہے۔بھارتی وزیرخارجہ کی چکنی چپڑی باتیں سن
کریہ احساس ہواکہ پاکستانی اقدامات کو احسن قراردینے کے باوجودبھارت
مولانامسعوداظہرکی نظربندی پرمطمئن ہے نہ جیش محمدکے دفاتر کی بندش
اورکارکنوں کی گرفتاریوں سے خوش ،جس کاثبوت یہ ہے کہ اس نے ۱۵جنوری کے
سیکرٹری خارجہ مذاکرات ملتوی کردیئے۔
پاکستان میں کسی کومعلوم نہیں کہ مسعوداظہراورجیش محمدکے خلاف بھارت نے
کیاثبوت پیش کئے البتہ وزیراعظم ہاؤس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعدکہا
گیاکہ یہ ثبوت ناکافی ہیں،اس بناء پرایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل پائی جس نے
پٹھانکوٹ جاکرثبوت اکٹھے کرنے اوراس کی روشنی میں ملوث افراد کا تعین کرنا
تھا۔بھارتی دفترخارجہ اوربعض حکومتی عناصر نے اس عمل کاخیرمقدم کرتے ہوئے
اس کمیٹی سے تعاون کی یقین دہانی کروائی لیکن منوہر پاریکرکی دہمکی کے
بعدمعاملہ یکسرتبدیل ہوگیااورحسبِ معمول بھارت نےخودہی اپنے بیان سے منحرف
ہوکرتحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکارکردیالیکن ہمارے ہاں
گرفتاریاں اوربھارت کویقین دہانیاں اب بھی جاری ہیں کیونکہ بھارت نے پہلے
تسلی بخش اقدامات کے مطالبے کے ساتھ مذاکرات کومشروط کردیاہے۔
نوازمودی ملاقات کے بعداگرکسی نان اسٹیٹ ایکٹر نے پٹھانکوٹ حملے میں حصہ
لیاتواس پرہرایک کی تشویش جائزاوربجاہے کہ یہ دوبڑی جوہری طاقتوں کے مابین
جنگ کی سازش اوروزیراعظم نوازشریف کو ندامت سے دوچارکرنے کی حرکت ہے
مگرسوال یہ ہے کہ کیاتین حصوں میں تقسیم اورغیرفعال جیش محمداتنابڑامنصوبہ
بنانے اورکامیاب عمل درآمدکرانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا مقصدکچھ اورہے؟جیش
محمد کے بہانے پاکستان کی پرائم ایجنسی کومطعون کرنا اورآپریشن ضربِ عضب
میں مصروف پاک فوج کی توجہ ہٹانا؟
پاکستان اس وقت جن اندرونی خطرات سے دوچارہے،اس کااندازہ امریکی کانگرس کے
مشترکہ اجلاس سے اوباماکے خطاب سے لگایاجاسکتاہے۔موصوف نے اگلے کئی عشروں
تک پاکستان میں عدم استحکام کی پیش گوئی کی جبکہ عدم استحکام میں امریکاکی
علاقائی اوربین الاقوامی پالیسیوں،افغان جنگ اور بھارت کی ریشہ دوانیوں
کاعمل دخل سب سے زیادہ ہے۔داعش عراق جنگ کاتحفہ ہے، اسے جنم دینے میں
امریکا کاکردارہیلری کلنٹن اپنی کتاب میں کر چکی ہے۔ اوباما کاکرداروعمل
بھی اس حوالے سے ظاہر وباہرہے۔اب داعش آہستہ آہستہ پاکستان تک پہنچ چکی
ہے۔بعض تجزیہ نگارپٹھانکوٹ کے واقعے کوبھی اس سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں ،جس
میں بھارت کے بعض ادارے ،اندرونِ ملک ان کے گماشتے اورممکنہ طورپر(اگرکوئی
ثبوت ملتاہے تو)پاکستان میں بعض ناسمجھ عناصرملوث ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کی حالیہ تاریخ میں ایک ناقابل تعبیراصول ہمیشہ
موجودرہاہے ۔ہرسیاسی کامیابی کے بعدبھارت میں سے ہونے والی ہردہشتگردی
کاالزام پاکستان پر لگاکرمذاکرات منسوخ کردیئے جائیں اور اس طرح دہشتگردوں
کی خواہشات کی تکمیل کردی جائے گی۔پٹھانکوٹ حملے کے بعداکانومسٹ نے بھی اسی
مؤقف کااظہارکیا۔گزشتہ ۲۷جولائی کوگورداسپورمیں ایک حملہ ہواتھا،اس سے پہلے
جولائی۲۰۰۶ء میں ممبئی ٹرین حملہ ہوا،پھر۲۶نومبرکوممبئی میں دہشتگردانہ
حملے ہوئے۔۲۰۰۶سے۲۰۱۶ء تک کی اس دہائی میں ہمیشہ حملے اس وقت ہوئے جب یہ
معلوم ہورہاہوکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری متوقع ہے لیکن خلاف معمول
پٹھانکوٹ حملے کے بعدپاکستان کوردّعمل بہت شاندارتھاجس سے ظاہرہوتا تھاکہ
غلطیوں کودرست کرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کاسلسلہ بھی جاری رکھاجائے
گااوراس مقصد کے حصول کی خاطردہشتگردی کاخاتمہ کیا جائے گا۔سب سے
بہتراوراہم مؤقف آل پارٹیزحریت کانفرنس کے اہم رہنماء میر واعظ عمرفاروق کی
طرف سے سامنے آیاکہ''جیساکہ ہم نے ماضی میں دیکھا، جب بھی پاکستان اوربھارت
کے باہمی تعلقات بہتربنانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی،اس قسم کے واقعات رونما
ہوئے تاکہ مذاکرات کاعمل سبوتاژکیاجائے۔وہ عناصرجوماحول کوزہرآلودہ کرنے
اور مذاکرات کوناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں،وہ جنوبی ایشیاکے عوام کے
مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں لہندا وزیر اعظم اس خطے کوکشیدگی اورتشددسے
پاک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں''۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ممبئی حملوں اورپٹھانکوٹ حملے کے ضمن کاپاکستان کے
ردّعمل میں بہت نمایاں فرق دیکھنے میں آیا۔اس ضمن میں بھارتی وزیر داخلہ
راج ناتھ سنگھ نے کہاکہ پاکستانی حکومت کابیان ہے کہ وہ اس سلسلے میں مؤثر
اقدامات کرے گی۔ ان کایہ بیان حکومت پاکستان کے اس مؤقف کے پس منظرمیں
تھاکہ پاکستان نے۲جنوری کے حملے میں ملوث کچھ مشکوک ذمہّ داران کو
گرفتارکرلیاہے اوروہ اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی ٹیم بھارت بھی بھیج رہے ہیں
،جس کے جواب میں انہوں نے اس ٹیم کا خیرمقدم کرتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین
دہانی بھی کروائی مگربھارتی وزیردفاع منوہر پریکرنے جے پور میں میڈیا سے
گفتگومیں خوشگوارفضاء میں زہرملاتے ہوئے دہمکی دے ڈالی کہ’’پاکستان نے
ممبئی حملوں اورپٹھانکوٹ حملے کے ملزموں کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہیں
کی،اب ہم کچھ نہ کچھ ضرورکریں گے اوردنیاایک سال کے اندر اس کے نتائج بھی
دیکھے گی۔ جگہ اوروقت کافیصلہ ہم کریں گے کہ جس نے پٹھانکوٹ کادرددیاہے
،اسے کتنااورکس قسم کادرددیناہے''۔ہم پاکستانی تفتیشی ٹیم کوایئربیس میں
داخل ہونے کی قطعاًاجازت نہیں دیں گے۔
پچھلے دنوں مشہوربھارتی چینل کے''لائیوپروگرام '' میں اس بیہودہ دہمکی کے
جواب میں بالآخرمجھے یہ کہناپڑاکہ منوہرپاریکر پاکستان کوگیدڑبھبکی دیتے
وقت یقیناًہوش میں نہیں تھے یاپھرانہیں اندازہ نہیں تھاکہ پاکستان کے پاس
وہ سب کچھ ہے جس کے بارے میں خودبھارت سمیت مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں
کہ پاکستان اگلے دوسال میں دنیاکی چوتھی بڑی ایٹمی قوت بن جائے گا۔اس وقت
دنیا میں۵۷/اسلامی ممالک ہیں جبکہ صرف ایک ہندوریاست ہے۔ایسی حماقت کےجواب
میں دنیا میں پھربھی ۵۶مسلم ریاستیں موجودرہیں گی لیکن دنیابھرمیں ہندو
ریاست کانام ونشان مٹ جائے گا۔
پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کیلئے بھیجی جانے والی ٹیم کابھارت نے روایتی ہٹ
دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے مثبت ردّعمل کاانتہائی بھونڈے انداز
میں جواب دینے کے باوجودپاکستان نے بھارتی فراہم کردہ شواہدکی روشنی میں
متعدد گرفتاریاں اور جیش محمدکے تمام دفاترسیل کردیئے ہیں۔پٹھانکوٹ حملے کی
خبرنشرہوتے ہی پاکستانی وزیر اعظم نے ایک لمحہ تاخیرکئے بغیراس کی سختی سے
نہ صرف مذمت کی بلکہ نریندرمودی کو اپنے تعاون کابھرپوریقین بھی دلایا جس
کاساری دنیامیں خیرمقدم کیاگیاجواس بات کااعتراف تھاکہ بحیثیت ریاست
پاکستان کااس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
بھارت کے وزیردفاع(وزیرگیدڑبھبکی برائے جنگ کہنازیادہ مناسب
ہوگااوروزیرداخلہ نے کھلے عام دنیا بھرکواپنی اس تقریرسے باضابطہ طورپرآگاہ
کر دیا کہ وہ پاکستان میں ماردھاڑکاایک نیاسلسلہ شروع کرنے جارہے
ہیں۔پھرکوئٹہ میں پولیو ورکرزکے سینٹرپربم دہماکے میں پولیس کے۱۵نوجوانوں
کوشکارکر لیاگیا،ابھی کوئٹہ میں سڑک پرپڑی شہیدپولیس اہلکاروں کی لاشیں
اکٹھی کی جا رہی تھیں کہ جلال آبادمیں پاکستان کے قونصل خانے پرحملہ
کردیاگیا، اور شام کواسلام آبادمیں ایک میڈیا ہاؤس پردستی بم سے حملہ
کروادیاگیا جس سے ایک کارکن زخمی ہو گیا۔اس سے ایک دن قبل پشاورٹول پلازہ
پرفوج کے ایک ٹرک کو ریموٹ کنٹرول سے نشانہ بناے کی کوشش کی گئی لیکن خوش
قسمتی سے اس میں سوارتمام جوانوں کو کوئی خراش تک نہیں آئی۔ |