میری طرح ہر شخص حیرت میں ڈوبا ہوا ہے کہ
سردی کے موسم میں جبکہ ائیرکنڈیشنڈ اورپنکھے بند ہوجاتے ہیں گرمیوں جتنی
لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے ۔ حسن اتفاق سے واپڈا کے پرانے ملازم سے ملاقات
ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ حکومت نے جان بوجھ کر فرنس آئل والے بجلی گھر بند
کروا دیئے ہیں جس سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیاہے۔ میں نے کہا اب تو تیل کی
قیمت 26 ڈالر بیرل تک گر چکی ہیں ٗ اب بجلی کی پروڈکشن کاسٹ بہت کم ہورہی
ہے پھر حکومت ان پاور پراجیکٹوں کو بند کیوں کررہی ہے۔ اس نے خوبصورت جواب
دیاکہ حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے وہ نہیں چاہتی کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم
ہو اور عوام سکھ کا سانس لیں۔اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نواز
حکومت اڑھائی سالوں میں فرنس آئل سے چلنا والا ایک پراجیکٹ بھی گیس یا
کوئلے پر منتقل نہیں کرسکی ۔ پانچ سو ارب کی ادائیگی کرنے کے باوجود اب پھر
نجی پاور پراجیکٹ کے چار سو ارب حکومت پر ادھار چڑھ چکے ہیں۔آج بھی اگر
تمام پراجیکٹوں کو چالو کردیاجائے تو لوڈشیڈنگ سوفیصد ختم ہوسکتی ہے۔ آپ نے
کبھی سوچا کرکٹ میچ اور عید کے دنوں میں حکومت عوام کو بلا تعطل بجلی فراہم
کرنے کا اعلان کرتی ہے تب بجلی کہاں سے آتی ہے ۔ حکومت تمام بند پاور
پراجیکٹوں کو چالو کرکے بجلی پورے ملک میں بند نہیں ہوتی ۔اس نے مزید کہا
ایران 7 ہزار میگا واٹ بجلی نہایت سستے داموں دینے کو تیار تھا حکومت نے
دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ۔جنرل(ر) ذوالفقار پیشکش کرچکے تھے کہ حکومت صرف
ایک سو ارب فراہم کردے اس رقم سے پانچ سو ارب کا قرض بھی اتاردوں گااور
اتنی ہی رقم پھر حکومت کے کھاتے میں جمع کرکے لوڈشیڈنگ ہمیشہ کے لیے ختم
کردوں گا۔ لیکن نواز حکومت نے ان کی بات پر کان ہی نہیں دھرا۔ بغیر آڈٹ کیے
پانچ سو ارب پرائیویٹ پاور پراجیکٹوں کو ادا کردیے گئے۔ لیکن لوڈشیڈنگ کا
جن بھی سردیوں میں بھی اپنافن پھیلائے کھڑاہے۔اب پی آئی اے کی طرح پاور
سپلائی اداروں(لیسکوسمیت بارہ کمپنیوں) کو آئی ایم ایف کے ایما پر فروخت
کیا جارہاہے ۔نج کاری کی شوقین حکومت سے کوئی یہ پوچھے کہ اگرکراچی میں
بجلی سپلائی کی صورت حال کیا ہے ۔اگر وہاں معاملات مثالی ہیں تو باقی کو
بھی فروخت کردو ۔لیکن کراچی میں معاملات پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور الجھ
چکے ہیں جس سے نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ملک کی دیگر کمپنیوں کو
فروخت کرکے عوام کو کند چھری اور ملازمین کا معاشی قتل کرنے کی منصوبہ بندی
ہو رہی ہے۔ایک ہفتے میں تین بریک ڈاؤن نے قوم کی آنکھیں تو کھول دیں لیکن
حکمرانوں کی آنکھیں اب بھی بند ہیں ۔ نواز شریف بہت خوش ہیں کہ عالمی
راہنما ان کی حکومتی پالیسیوں کو بہت پسند کررہے ہیں لیکن شاید وہ یہ سوچنے
سے قاصر ہیں کہ ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف یہ سب اس وقت خوش ہوتے ہیں جب
حکمران ان کے ایما پر پاکستانی غریب قوم پر ٹیکسوں اور نجکاری کے عذاب نازل
کرتے ہیں ۔انہیں غریب پاکستانی عوام سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں وہ تو مکروہ
مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسحاق ڈار وزیر
توپاکستان کا ہے لیکن وفادار آئی ایم ایف کا ہے ۔اس اندرونی اور بیرونی
قرضوں کے انبا ر لگا دیئے ہیں اور ایک پیسہ بھی ریلیف عوام کو نہیں ملنے
دیا ۔ اسے کہتے ہیں کہ تم قتل کرو ہوکہ کرامات کرو ہو ۔ کا ش ملک میں کوئی
ایسا جوڈیشنل کمیشن بھی ہوتا جو کم ازکم پیپلز پارٹی اور موجودہ حکومت کی
پالیسیوں اور قرض کے بارے میں جانچ پڑتال کرکے عوام کو آگاہ کرسکتا ۔ سانحہ
چارسدہ کے چھ دن نواز شریف وطن واپس پہنچے ہیں انہیں نہ سانحہ چارہ سدہ کا
غم دکھائی دیتاہے اور نہ ہی انہیں سخت ترین سردیوں میں ٹھٹھرتی اور بجلی کی
لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں بھٹکتی عوام دکھائی دیتی ہے ۔ انہیں ذرا بھی
احساس نہیں کہ معصوم بچے ٗ بیمار اور خواتین کس مشکلات سے عہدہ برآ ہوکر
زندہ ہیں ۔گھروں کے چولہوں گیس کی بجائے ہوا نکل رہی ہے پھر ایک صدی پہلے
والے حالات میں دھکیل دیاگیا ہے ۔ اگر ایرانی گیس کے لیے پاکستان نے اپنا
نٹ ورک مکمل کرلیا ہوتا تو پابندیاں ہٹتے ہے گیس کی قلت کا خاتمہ ممکن
ہوسکتا تھا ۔ سارا سال محکمہ گیس کے حکام اور وفاقی وزیر بھاری تنخواہیں
اور مراعات وصول کرتے رہے لیکن عوام کے لیے ریلیف کا انتظام نہ کیا ۔کیا اس
سے بھی بدترین لوگ کسی ملک میں وزیر ہوں گے۔اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ
نیب کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے گیس کی مصنوعی قلت پیدا
کرکے خزانے کو 450 ارب کانقصان پہنچایا ۔ یہ دعوی سچ ہے یا جھوٹ لیکن موجود
ہ وفاقی وزیر اور محکمہ گیس کے حکام کے بارے میں نیب کا کیا خیال ہے کیا اب
بھی مصنوعی قلت پیداکرکے لوگوں کو سردی سے اذیتیں نہیں دی جارہی ہیں ۔ 90
فیصد لوگوں کو گیس میسر نہیں جو بے چارے باقی مسائل کو بھول کر سلنڈر ٗ مٹی
کے تیل اور لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں ۔میں نواز شریف سے پوچھنے کی جسارت
کررہا ہوں کہ کیا عوام کو ضرورت کے مطابق بجلی ٗ گیس ٗپانی اور اشیائے خورد
ونوش فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے ۔کیا حکومت کا کام صرف ٹیکس
کرنا اور عوام کو قدم قدم پر اذیتیں دینا ہی رہ گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی
طرح نواز شریف بھی جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی پالیسیوں اور باتیں
مختلف ہوتی ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ مسائل کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی
آنکھیں چرانے لگتے ہیں اور جب اقتدار چھن جاتاہے تو پھر مگرکچھ کے آنسو
شروع ہوجاتے ہیں ۔کتنے خود غرض ہیں پاکستان کے پہلے اور موجود ہ حکمران ۔نہ
انہیں عوام کی نفرت کا خوف ہے اور نہ ہی آخرت کا ڈر۔ |