چوہدری رحمت علی ؒکے بارے میں اچھی خبر

2016 کے پہلے ہفتے کی بات ہے ۔ایک خبر رساں ایجنسی کی خبر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کا نام تخلیق کرنے والے چوہدری رحمت علی کے مزار کی تعمیر کے لئے شکر پڑیاں میں زمین مختص کرنے کے لئے ضروری کارروائی کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ چوہدری رحمت علی کی باقیات کیمبرج سے لانے کے لئے یہ پہلا اقدام تصور کیا جا رہا ہے۔ چوہدری رحمت علی 1951 میں فوت ہو گئے تھے اور انگلستان کے کیمبرج قبرستان میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان نیشنل موومنٹ نے چند ماہ قبل اس معاملے پر وزیراعظم کو خط لکھا تھا۔ موومنٹ کا قیام چوہدری رحمت علی نے 1931 میں لایا تھا۔خط کے ذریعے اسلام آباد میں ان کا مزار تعمیر کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وزیر اعظم کے شکایات ونگ نے سی ڈی اے کے چیئرمین کو کہا ہے کہ قواعد و ضوابط اور پالیسی کے مطابق معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ خبر جب اخبارات کی زینت بنی تو راقم الحروف نے اس کو سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کو شیئر کیا اور ساتھ عنوان دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ : 2016 کی پہلی اچھی خبر : ۔ ۔ ۔ ۔ میری اس پوسٹ پر ایک بزرگ دانشور ٗمصنف اور سینئر کالم نگار (جو تین دھائیوں سے بیرون ملک مقیم ہیں )نے لکھا : ملک صاحب خبر تو اچھی ہے ٗ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ اقدام گجرات کے چوہدریوں نے بھی شروع کیا تھااور وہ بحث چلی تھی کہ چوہدری رحمت علی قائد اعظم محمد علی جناح کے مخالف رہے ہیں۔ان کا تحریک پاکستان میں کیا کردار تھا ٗ یہ میرے علم میں نہیں ۔ ہاں انہوں نے ایک کتابچہ لکھا تھا ٗ جس میں ان علاقوں پر مشتمل ملک کا خیال پیش کیاتھا۔لیکن مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے علامہ اقبال کے ساتھ تعلقات کیسے تھے۔ اقبال نے تو محمد علی جناح کو قومی کاروان کی قیادت پر خط لکھ کر قائل کیا تھا۔ ایسا کوئی رابطہ ان کا چوہدری رحمت علی سے بھی رہا یا نہیں۔ میں اپنی ساری کتابیں پاکستان منتقل کر چکا ہوں ۔ اس لیے ان سوالوں کے جواب آپ مجھے فراہم کر دیں تو عنایت ہوگی:۔۔ ۔ ۔ میں نے جواب میں لکھا : ۔ چوہدری رحمت علی کا یہ ایک ہی کارنامہ سب سے بڑا ہے کہ انہوں نے ہمارے پیارے ملک کا ایک خوبصورت ٗ بامعنی اور بے مثال نام رکھا۔انہوں نے پورے بر صغیر میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ریاستوں کا تصور پیش کیا اور ان کے نام بھی رکھے۔رہی بات اختلاف کی تو سیاسی جماعتوں اور تنظیموں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ کسی ایک مسئلہ پرمختلف نقطہ نظر رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس فرد کی ساری کاوشوں اور کام پر ہی پانی ڈال دیں۔چوہدری رحمت علی کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی یادگار بنائی جاتی ہے یا ان کے جسد خاکی کو پاکستان میں لا کر دفنایا جاتا ہے تو یہ ایک اچھا کام ہو گا۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ چھوٹے موٹے اختلافات تو ہر پارٹی اور ادارے میں بھی چلتے رہتے ہیں :۔

اسلام آباد میں چوہدری رحمت علی کے مزار کی تعمیر سے متعلق خبر کی اشاعت کے بعد چوہدری رحمت علی کے چاہنے والوں میں خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اخبارت میں خیر مقدمی خبروں کے علاوہ کئی ایک کالم بھی نظر سے گزرے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ اور پُرجوش کام سوشل میڈیا پر ہوا ہے ۔ پاکستان نیشنل موومنٹ ٗبزم رحمت علی اور چوہدری رحمت علی کے حوالے سے کام کرنے والے دیگر مختلف اداروں ٗ تنظیموں اور افراد نے تو نہ صرف حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے بلکہ اسے ایک مہم کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں ۔محبان چوہدری رحمت علی کی یہ کاوشیں لائق تحسین اور قابل قدر ہیں۔زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز اور مشاہیر کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ ان کی قومی خدمات اور افکار کو قوم کے ذہنوں میں تازہ رکھا جاتا ہے۔ قومی اور ملکی جدوجہد کے حوالے سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور خیالات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر ہمارے ہاں یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ بعض مشاہیر کا ذکر تو صرف نصاب کی کتابوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ان فراموش کردہ قومی ہیروز میں چوہدری رحمت علی(مرحوم) سر فہرست ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش 16 نومبر (1893 ء) اور تاریخ وفات 3 فروری (1951 ء) ہر سال آتی ہے اور گزر جاتی ہے، مگر سرکاری اور قومی سطح پر چوہدری رحمت علی کا کہیں تذکرہ نہیں ہوتا۔ سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاتی۔ریڈیو اور ٹیلی وژن پر کوئی پروگرام ان کی ذات ،خدمات اور تحریک پاکستان کے ضمن میں ان کی جدجہد کے حوالے سے نہیں ہوتا۔اخبارات اور رسائل کے ایڈیشن خصوصی نمبر اور ضمیموں میں بھی کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ ہاں چند احباب ایسے ضرور ہیں کہ جو ذاتی تعلق ،عقیدت،قومی جذبے اور چوہدری رحمت علی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر کوئی چھوٹی موٹی تقریب منعقد کر لیتے ہیں یا پھر کسی اخبار یا رسالے میں چوہدری رحمت علی مرحوم کے بارے میں کوئی مضمون چھپوا لیتے ہیں۔یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔اس کو حکمران طبقے اور ذرائع ابلاغ پر قابض عناصر کی بے حسی کہا جائے یا تاریخ کو مسخ کرنے سے تعبیر کیا جائے یا پھر قومی سطح پر تعصب اور بد دیانتی گردانا جائے۔نرم سے نرم اور کم سے کم الفاظ میں اسے ظلم اور زیادتی تو ضرور ہی کہا جائے گا۔اب وقت آگیا ہے کہ اس افسوس ناک صورت حال کا ازالہ کیا جائے۔چوہدری رحمت علی کو ان کا مقام دیا جائے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ میں محمد نواز شریف نے اگر ایک فیصلہ کیا ہے تو اس پر عملدرآمدبھی ہونا چاہیے۔ورنہ تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭٭

حقیقت یہ ہے کہ چوہدری رحمت علی۔محسن پاکستان ہیں۔ یہ رحمت علی ہی تھے کہ جنھوں نے سب سے پہلے اس آزاد خطہ زمین کا خوبصورت اور شایان شان نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا۔ ان کا یہی احسان ہمارے لئے کافی ہے۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے ابتدائی زمانے میں جب چوہدری رحمت علی نے شمال مغربی سرحدی صوبہ ،پنجاب ،سندھ اور بلوچستان نیز کشمیر سمیت مسلمانوں کے اکثریتی علاقے کا ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے مطالبہ کیا اور پھر جو خوبصورت ،دلکش،بامعنی وبامقصد اور تاریخی و جغرافیائی حقیقتوں اور حدود کا مظہر نام رکھا۔یعنی ’’پاکستان‘‘۔اس زمانے میں انگریز کی حکومت تھی کہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ایسے زمانے میں اور اس قسم کے حالات اور پھر برصغیر کے خطے میں ایک علیحدہ آزاد مسلم ریاست کا تصور اور مطالبہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ بظاہر کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ مگر چوہدری رحمت علی دھن کے پکے اور عزم و ہمت کے پہاڑ تھے۔ انھوں نے کیمرج میں رہ کر جب کہ وہ طالب علم تھے۔ اپنے ہم وطن طالب علموں سے مل کر ’’پاکستان نیشنل موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اب انھوں نے دن بدن اپنے تصوراتی پاکستان کے خاکے میں رنگ بھرنا شروع کر دیا۔ لفظ پاکستان کی تشریح و توضیع اور ایک آزاد مسلم ریاست ’’پاکستان‘‘ کے بارے میں چوہدری رحمت علی نے دن رات ایک کر کے کام کیا۔اپنی تعلیم اور صحت کی پرواہ کئے بغیر وہ دیوانہ وار جدوجہد میں سرگرم رہے۔ انھوں نے اپنے ہم وطن طالب علموں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام پالیسی ساز اداروں،تنظیموں اور اہم شخصیات تک اپنی آواز پہنچاتے رہے۔ خطوط،پمفلٹ،رسائل اور اخبارات جو بھی ممکن ذریعہ تھا۔ اس کو استعمال کیا اور تحریک پاکستان کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہے۔انہوں نے اپنے افکارا ور نظریات کی ترویج اور تحریک پاکستان کو عام لوگوں تک پہچانے کے لئے ’’پاکستان‘‘ کے نام سے اخبار بھی جاری کیاتھا۔

زندہ قومیں اپنے مشاہیر کی ایک ایک چیز کو قیمتی اور تاریخی متاع اور قومی و ملی ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چوہدری رحمت علی (مرحوم) کے ا فکار اور نظریات، ان کی کتب ورسائل نیز تاریخی خطوط کو قومی ورثے کے طور پر اکٹھا کیا جائے اور ان کی شایان شان طریقے سے اشاعت اور تشہیر کا قومی سطح پر اہتمام کیا جائے۔ خود چوہدری رحمت علی کی شخصیت کے بارے میں بھی اعلی پائے کی کتاب کا آنا ضروری ہے۔ جس میں ان کی تاریخی جدوجہد کو صحیح تناظر میں واضح کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ گذارش بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ محسن پاکستان اور نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو انگلینڈ سے لا کر ان کے خوابوں کی سر زمین اور خوبصورت وطن ’’پاکستان ‘‘میں قومی اعزاز اور شایان شان مقام پر دفن کیا جائے۔

کیا موجودہ حکومت محسن کشی کی اس روش کو ترک کر کے خالق اسم پاکستان چوہدری رحمت علی کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کرے گی۔ وقتی اور معمولی سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بہانہ بنا کر اوران کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی قومی اور ملی خدمات کو نظر انداز کر دینا کسی بھی طرح صحیح اور جائز رویہ اور فیصلہ نہیں ہے۔تحریک پاکستان کے حوالے سے چوہدری رحمت علی کی جدوجہد اور خدمات کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہیں۔ ان کی جدوجہد کا مرکز ومحور پاکستان اور اس پاک دیس میں بسنے والی قوم تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت چوہدری رحمت علی کو ان کے شایان شان اور ایک قومی ہیرو کا درجہ دے گی اور ماضی میں روا رکھی جانے والی محسن کش کی پالیسی کو ختم کر دے گی۔
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 52019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.