ایک زمانہ تھا جب صحرائے تھر کی وجہ شہرت ’
مورکا رقص ‘تھا مور پنکھ پھیلائے آنے والے لوگوں کو خوش آمدید کہتے تھے،اور
جب کالی گھٹائیں امڈ آتی تھیں توتھر پار کر کا حسن جیسے سوز چشم بینا کو
اپنے سحر میں جکڑ لیتا تھا،ہر سو ہریالی اور سبزے کا سیلاب ،کھیت کھلیانوں
سے آنے والے لوک گیتوں کی سریلی گونج،بانسری کے مدھر سر،مور کا رقص،مال
مویشیوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی مدہوش کر دینے والی آوازیں اب
تو سب کہیں کھو گئی ہیں،بارش نہ ہونے کے باعث سبزے اور ہریالی کی جگہ قحط
سالی نے لے لی ہے ،مور کے رقص کی بجائے موت پنجھے گاڑھے تھریوں کے غموں پر
مزید نمک چھڑکنے کا کام رہی ہے، اور تو اور جہاں مور پنکھ پھیلائے خوشی میں
جھوم رہے تھے وہیں جانوروں کے ڈھانچے آنے والوں کو تھریوں کی زندگی کی
روداد سناتے دکھائی دیتے ہیں،مگر حکومت ہے کہ کان پڑی آوازسنی ان سنی کرنے
میں مگن ہے۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری
بھی بھوکی مر گئی تو ان سے اس بارے میں یوم ِ حشر سوال کیا جائے گا۔افسوس
یہاں انسان مر رہے ہیں گھر کے گھر اجڑ رہے ہیں۔بستیوں کی بستیاں سنسان ہو
رہی ہیں۔مگر ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بر قرار ہے سب کچھ جاننے
کے باوجود بھی ہمارے حکمران آنکھوں پر اپنے مفاد کی پٹی باندھے بیٹھے
ہیں۔اول تو غریب عوام کی مدد کوئی کرتا ہی نہیں اور اگر کوئی خدا ترس
حکمران چند پیسوں کے عوض ان کے زخموں پر وقتی طور پر مرہم رکھ ہی دیتا ہے
تو یہ بات بھول دیتا ہے کہ آیا یہ چند روپے آنے والے وقت میں ان بے کسوں کی
ضرورت پوری کر بھی پائیں گے یا نہیں۔افسوس افراتفری کے اس دور میں یہ سب
سوچنے کی فرصت کسے ہے۔ہر سال کی طرح رواں سال میں بھی تھرواسیوں کے جھگیوں
میں موت سائے کی طرح منڈلا رہی ہے،جھگیوں کی دہلیز پر بیٹھی آنکھوں میں
آنسو چھپائے گھاگھرا کرتی پہنے،قیامت کا سامنا کرتی مائیں۔۔۔خود بھی بھوکی
مگر انہیں اپنی بھوک کی پرواہ ہی کب ہے،انہیں تو بس اپنے بیمار بچوں کی فکر
ہے جسے موت اپنی آغوش میں لینے کے لیے بے تاب ہوتی جا رہی ہے اوراسے تو ماں
کی مامتا کا خیال بھی نہیں ہے ۔۔۔ موت و ماتم تھر واسیوں کا مقدربنے ان کی
جھگیوں میں راج کر رہی ہیں۔یہ کہانی تھر کی ہے جہاں قحط سالی ہر سال کتنے
ہی معصوم بچوں کو نگل چکی ہے ،جہاں بھوک سے بلکتی معصوم کلیاں پھول بننے سے
پہلے ہی مرجھا گئی ،موت ہے کہ ایک ایک کر کے سب کو نگل رہی اور ایسے میں
کچھ خاندان اپنے وجود کو کھینچ کرمیرپورخاص ،سانگھڑ،بدین اور دوسرے علاقوں
کو نقل مکانی پر مجبور ہیں۔بارش زندگی ہے اس کا ادراک تھرواسیوں سے بہتر
اور کوئی نہیں کر سکتا ، جس کی ایک بوندسے تھری جھوم اٹھتے ہیں ، بارش ہو
گئی تو ان کے نصیب جاگ اٹھے اور نہ ہو تو قحط سالی کا بھوت انہیں نگلنے کو
تیار ہوتا ہے۔
خشک سالی ایک قدرتی مسئلہ ہے جس کا تھر کو بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے صرف
یہی ایک مسئلہ ہو تو تھر کے لوگ اس کا کوئی حل نکال لیں مگر انہیں تودیگر
پیچیدہ مسائل کا بھی سامنا ہے ،مکانوں اور ہسپتالوں میں بچوں کی اموات ان
مسائل کا صرف ایک پہلو ہیں اس کی وجہ خوراک کی کمی نہیں بلکہ ایسے مسائل
ہیں جن پر ایک مدت سے توجہ نہیں دی گئی۔ان عوامل میں خوراک کی مسلسل فراہمی
کا نہ ہونا، صاف پینے کے پانی کی کمی، صفائی ستھرائی کا فقدان، خواتین کی
ناخواندگی اور انھیں خاندانی منصوبہ بندی کا شعور نہ ہونا شامل ہیں۔ ان
عوامل نے غربت، چھوٹی عمر کی شادیاں، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز کا دور
ہونا، بنیادی صحت کے مراکز کے غیر موثر ہونے اور ہر آفت کو قسمت سمجھ کر
بھول جانے جیسے مسائل کی وجہ سے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔بنیادی
مسئلہ’ بڑھتی ہوئی آبادی‘ہے، یہاں کی معیشت اور وسائل اب یہاں بڑھتی ہوئی
آبادی کے لیے ناکافی ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہاں خوراک کی طلب میں خاصا اضافہ
ہو چکا ہے لیکن رسد میں یا تو کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یا اس میں کمی آ گئی
ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اب زراعت اور مال مویشیوں رکھنا معاشی طور
پر مشکل ہو گئے ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ تھر کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا
ہے جس سے پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ پریشان ہیں۔یہاں کی پولیس بھی
بدعنوان ہے، انتظامیہ کی کارکردگی خراب ہے اور سیاسی جماعتیں لوگوں کے
مسائل پر توجہ نہیں دیتیں۔ تھر کے لوگ بھی مقامی ساہوکاروں سے لیے ہوئے
قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور موبائل فون اور موٹر سائیکل جیسی جدید چیزوں
کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے ان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ چکا ہے ۔تھر کی
موجودہ صورتحال کی شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
سرکاری ریکارڈ کے مطابق رواں ماہ تھر میں ہلاک ہونے ولاے بچوں کی تعداد
58ہو گئی ہے۔صحرائے تھر جیسے سندھ کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے ’’فطرت کا
میوزیم ‘‘ کہا تھا ،افسوس صد افسوس اسے آج موت کی وادی کہا جاتا ہے جہاں ہر
سال قحط اژدھا بن کر آتا ہے اور معصوم بچوں کو نگل لیتا ہے ،وقتی طور پر
میڈیا شور مچاتا ہے ،حکومت گندم اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے بلند وبانگ
دعوے کرتی ہے مگرپھر سب بھول جاتے ہیں کہ تھر میں بھی وسائل کی ضرورت ہے جو
صرف وقتی نہیں بلکہ ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جو طویل مدتی اور ہمہ جہت
حکمت عملی میں بنائیں جائیں اور تھر واسیوں کو ترقی یافتہ وسائل سے ہمکنار
کرنا اگر نا ممکن ہے تو انہیں انسان سمجھتے ہوئے بنیادی ضروریات تو فراہم
کی جا سکتی ہیں۔
دنیا کے مشہور ریگستانوں میں جہاں صحارا، صحرائے سینا، گوبی جیسے مشہور
ریگستانوں کا ذکر ملتا ہے وہیں ہمارے ملک میں آباد دو ریگستان بھی اپنی
خوبیوں ،رعنائیوں اور حسن کے باعث اپنی مثال آپ ہیں۔ان میں سے ایک چولستان
اور دوسرا تھر پار کرہے جو فطرت کی گود کہلاتے ہیں،میرپورخاص سے جنوب مشرق
کی طرف ایک سڑک بل کھاتی صحرائے تھر کو جاتی ہے۔تقریبا 70کلومیٹر سفر کے
بعد ایک چھوٹا قصبہ آتا ہے جسے نوکوٹ کہتے ہیں۔یہیں مشہور تاریخی قلعہ
،قلعہ نوکوٹ اپنے سینے میں صدیوں کی تاریخ چھپائے بڑی تمکنت کے ساتھ
ایستادہ ہے۔یہیں سے پاکستان کے سب سے بڑے صحرا تھر کا آغاز بھی ہو جاتا
ہے،فطرت کا یہ میوزیم یعنی تھر پارکر پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع ہے اور
مٹھی اس کا مرکز ہے جو کہ ایک نہایت خوبصورت شہر ہے۔’تھر ‘کا مطلب ہے صحرا
،ریگستان اور ’پارکر‘ اپنے اندر دوسری جانب یادوسری طرف جانے کا مفہوم
رکھتا ہے۔اس ریگستان میں انسان ہوں یا حیوان ، مور جیسے حسین پرندے ہوں یا
ریت کے ٹیلے جن کو سندھی میں’ بھٹ ‘کہا جاتا ہے سب کے سب حسن و خوبصورتی کے
استعارے ہیں۔ مگربارشوں کے نہ ہونے کے سبب تھر کا حسن بلاشبہ ماند پڑ جاتا
ہے۔ بھوک، افلاس، پیاس، سوز و گداز کے منظر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ قحط پڑ
جانے سے لوگوں کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے اور تھر کے کچھ غریب قبیلے روز
گار کے لئے نقل مکانی کر کے میلوں پیدل سفر کر کے سندھ کے نہری علاقوں تک
پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں کھیتوں پر مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں۔ اگر آپ
پاکستان کے صحرائے تھر میں جائیں تو اسے دیکھ کر آپ پر تھر تھری طاری
ہوجائے گی۔تھر میں پائے جانے والے بے شمار بچھوؤں اور سانپوں سے آپ کی
زندگی کو خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ماضی قدیم سے صحرائے تھر میں زندگی کا
انحصار بارش کے پانی پر رہا ہے۔ تھر میں دریا یا نہر کا کوئی وجود
نہیں۔وہاں پانی کا حصول کنوؤں سے ہوتا ہے جس سال صحرائے تھر میں بارشیں
ہوتی ہیں تو کنوؤں کے پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جو نئے سال کی بارشیں
ہونے سے قبل بہت نیچے چلی جاتی ہیں ، بعض کنویں تو خشک ہوجاتے ہیں۔ بے آب
وگیاہ صحرائے تھر میں بارش کا کرشمہ یہ ہے کہ بارش برسنے کے بعد سارے
صحرائے تھر میں ہر طرف سبزہ نظر آنے لگتا ہے جسے دیکھنے کے لیے سندھ کے
دیگر شہروں سے کافی لوگ آتے ہیں۔بارش کے بعد تھری عوام جشن مناتے ہیں۔تھری
عوام کے مویشی جن میں گائے،بکریاں، اْونٹ وغیرہ شامل ہیں بارش سے اْگنے
والے سبزے کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں بارش نازل ہونے کے بعد تھری
عوام کچھ مخصوص قابلِ کاشت زمین پر اناج اْگا لیتے ہیں اناج کے تیار ہونے
تک اْسے کنویں کے پانی سے سینچا جاتا ہے اناج تیار ہو جاتا ہے تو اْسے
اْتار کر سال بھر کھانے کے لیے جمع کر لیا جاتا ہے۔کنویں کا پانی جو
اْونٹوں اور گائے کے ذریعے رسی سے کھینچا جاتا ہے اْسے مویشی اور تھری عوام
پینے اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں جب انگریزوں کی
حکومت تھی اْس دور میں تقریباً ہر سال بارشیں ہوجاتی تھیں اور کسی سال بارش
نہیں ہوتی تو قحط کی صورتحال میں انگریز حکومت صحرائے تھر میں بر وقت اچھے
امدادی اقدامات کر کے عوام کو اذیت سے بچا لیتی تھی۔پاکستان کے قیام کے بعد
بنگال ، پنجاب اور صحرائے تھر کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا صحرائے تھر
کا ایک حصہ بھارت کی ریاست راجھستان میں آگیا اور دوسرا حصہ پاکستان میں
شامل ہوگیا ۔تھرپارکر اس لئے بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ساڑھے تین
سو کلو میٹر پٹی بھارت کے ساتھ جڑی ہونے کی وجہ سے یہ حد درجہ حساس علاقہ
ہے۔تھر پار کر پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے یہاں ترقی
کی رفتار سست ہے۔ضلع تھر پار کر 21000 ہزار مربع میل پر محیط ہے۔ ایک’ تھر‘
جو کہ ریت اور ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے اور دوسر’ا پارکر‘ جو کہ پہاڑی
علاقہ ہے اور تھر سے کچھ مختلف ہے۔تھر پار کر کاپہلا حصہ طبعی اور ثقافتی
لحاظ سے 7حصوں میں منقسم ہے۔ مہرانوں ،ونگو ، سامروٹی ، وٹ ، ڈھٹ ، کنٹھو ،
کھائڑ ۔ تھر پار کر کی کل آبادی تقریباً گیارہ لاکھ ہے۔ضلع تھر پارکر کی
چاروں تحصیلوں مٹھی، ڈیپلو‘ چھاچھرو اور ننگر پارکر کے نام سے تاریخی شہر
موجود ہیں تھر کی آبادی کے صرف چار فیصد لوگ رہائش پذیر ہیں۔ باقی ساری
آبادی دورافتادہ اور دشوار گزارپسماندہ علاقوں میں آباد ہے۔ موجودہ تھر پار
کرکو 1990 ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا اور مٹھی کو اس کا ہیڈ کوارٹر قرار
دیا گیا اس سے پہلے تھر پار کر ایک بڑا ضلع تھا جس میں عمر کوٹ اور میر پور
خاص اضلاع بھی شامل تھے جس کا ہیڈ کوارٹر میر پور خاص تھا۔
مختلف روایتوں کے مطابق کسی زمانے میں موجودہ تھر پار کر سمندر کا حصہ تھا
جہاں پر کئی بندر گاہیں اور شہر بھی موجود تھے جو تہذیب و تمدن کے مراکز
تھے مگر سمندر کے پیچھے ہٹ جانے اور قدرتی آفات کی وجہ سے اس علاقے کی
جغرافیائی و طبعی حالتیں تغیر پذیر ہوتی چلی گئیں یہاں تک کہ اس کو موجودہ
صحرائی صورت مل گئی۔ اس علاقے تھر پار کر پر مختلف قوموں خاندانوں اور
نسلوں نے حکومتیں کی ہیں۔ جس میں راء برہمن، پر مار، مکوانہ، رانو، سوڈھو،
راٹھور، سماں، کلھوڑا، تالپور اور انگریز وغیرہ آجاتے ہیں۔تھر پار کر میں
خاص طور پر سندھی، ڈھانکی اور پارکری زبانیں بولی جاتی ہیں اور گجراتی اور
مارواڑی کا بھی وجود ہے مگر سندھی رسم الخط میں پڑھا اور تحریر کی جاتی
ہیں۔تھر پارکر کے صحرا میں مختلف تاریخی مقامات و عمارتیں بھی آنے والوں کو
دعوت نظارہ دیتی ہیں۔انہی تاریخی اور دلچسپ مقامات میں سے ایک گوڑی کا مندر
ہے یہ جین مت کا قدیم اور مشہور مندر ہے۔اسکی تعمیر 1376ء میں ہوئی۔ یہ
مندر ویرا واہ اور دانو داندل کے قریب واقع ہے اور اس مندر سے کئی کہانیاں
اور داستانیں بھی منسوب ہیں۔اس کے علاوہ نگر پارکر شہر سے تھوڑے سے فاصلے
پر واقع ایک تاریخی تالاب جس کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ محمود
غزنوی نے یہ صحرا عبور کرتے ہوئے یہاں سے پانی پیا تھا۔اس تالاب کے کنارے
بھوڈے سر کی تاریخی مسجد آج تک قائم ہے جسے محمود شاہ بیگڑو نے 1505 ء میں
تعمیر کروایا تھا یہ تاریخی مسجد آج بھی بھوڈ سیر کے تالاب کے نزدیک موجود
ہے۔ یہیں پر جین مت کا ایک اور مندر بھی ہے۔ یہ مندر 1375ء میں بنا۔اس کے
علاوہ تحصیل نگر پارکر میں واقع بھا لوا گاؤں عمر ماروی کی داستان کی وجہ
سے مشہور و معروف ہے۔ اس علاقے کو ملیربھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں
واقع گرینائٹ کے پہاڑ جنہیں کارونجھر پہاڑ کے نام سے پکارا جاتا ہے،بہت
مشہور ہے۔یہ پہاڑ نگر پار کر کے شہر کے بالکل نزدیک واقع ہے اس پہاڑ کے
دامن میں سندھ کی تاریخ کا ایک ہیرو روہلو کولہی رہا کرتا تھا۔ جسے
انگریزوں نے سیاسی بنیادوں پر پھانسی دے دی تھی۔ہر سال اس کی یاد میں یہاں
ایک میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔کارونجھر پہاڑ جو 28مربع میل پر مشتمل ہے
بارشوں کے بعد کئی دن تک اس سے بارہ ندیاں نالے بہتے ہیں جن میں کچھ بہہ کر
ان کے مکینوں تک پہنچتے ہیں۔ اس پہاڑ کی ایک چوٹی پر تروٹ کا ایک ٹیلہ ہے
جہاں انگریز عملدار تروٹ بیٹھ کر نگر پار کر اور آس پاس کے نظاروں سے لطف
اندور ہوا کرتے تھے۔ اکثر سیاحوں کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی
وہاں تک پہنچ جائیں۔ یہاں اکثر بارشوں کے بعد سیاحوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
یہاں کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں بڑے بڑے قلعے ہیں جو اس کی عظمتِ رفتہ کی یاد
تازہ کرتے ہیں۔ یہ عظیم صحرا جہاں معدنی وسائل سے مالامال ہے وہاں اس میں
نایاب جانور، نادر پرندے اور اہمیت کے حامل رینگنے والے کیڑوں کی کثر ت بھی
پائی جاتی ہے۔
تھر کے لوگ حوصلہ مند، سخت جاں اور محبت و مذہبی رواداری کے امین ہیں۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کی کئی ذاتیں اور قبیلے مختلف عقیدوں سے جڑی ہونے کے
باوجود آپس میں پیار محبت سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا دل
سے احترام کرتے ہیں۔ تھر کے باشندوں کی گزر بسر زیادہ تر مال مویشیوں پر
ہے۔ تھر کا موسم شدید ہے، گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی
پڑتی ہے۔ جون جولائی میں جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تو تپش سے انسان تو
انسان جانور بھی ہانپنے لگتے ہیں۔ بسا اوقات ایسی لْو چلتی ہے کہ الامان،
گرم ریت ہاتھ اور پاؤں جھلسا دیتی ہے۔ تھرکی مرکزی شاہراہوں کو چھوڑ کر
پورے تھر کا سفر پیدل یا اونٹوں کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ دور دراز علاقوں
کے سفر کے لئے کیکڑا (کیکڑا تھر کی فور ویل ڈرائیو منفرد سواری ہے)استعمال
ہوتا ہے۔ سڑکوں سے جڑے شہروں اور قصبوں میں کسی حد تک بجلی، پانی تعلیم اور
صحت کی سہولتیں موجود ہیں لیکن دوردرازگوٹھوں میں رہنے والے ان نعمتوں سے
ابھی تک محروم ہیں۔تھر پارکر کا وسیع و عریض علاقہ اپنے وجود میں بے پناہ
قیمتی وسائل اور خزانے سمیٹے ہوئے ہے۔دنیا کا قیمتی ترین گرینائیٹ سویڈن
میں پایا جاتا ہے اس کے بعد تھر پارکر میں کارونجھر کی پہاڑیوں میں پائے
جانے والے گرینائیٹ کودوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق کوئلے کی
قومی پیداوار کا کم وبیش 80 فیصد سندھ میں پایا جاتا ہے اور اس میں سے 75
فیصد ذخائر تھر میں ہیں۔کسے خبر ہے بر صغیرکا سب سے پسماندہ علاقہ جس کی
بنیادی کمزوری بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث معیشت اور وسائل کی کمی ہے اپنے
دامن میں ٹنوں کوئلے کے وسیع ذخائر چھپائے ہوئے ہیں جس کے بارے میں بیشتر
ماہرین کا کہنا ہے یہ کوئلہ نہ صرف تھر ، سندھ ،پاکستان بلکہ پورے بر صغیر
کو سونے کا بنا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صحرائے تھر سے متصل کم و بیش
پندرہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ر ن آف کچھ کا علاقہ بھی تیل اور
قدرتی گیس سے مالامال ہے نیزیہاں نمکین جھیلیں بھی واقع ہیں۔کراچی سے بھارت
جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزر کر بذریعہ کھو کھر آپار کے علاقے
موناباؤ جاتی ہے۔۔ مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ زندگی کی سب سے قیمتی اور
بنیادی ضرورت یعنی پانی کی اس خطے میں شدید کمی ہے۔یہاں پر زندگی کاانحصار
محض بارشوں پرہے۔جب بارشیں نہیں ہوتیں تو زندگی امتحان بن جاتی ہے اور تھر
کے مکین بھوک، پیاس اور بیماریوں کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں خشک سالی میں
پورے صحراپر موت کے سائے لہراناشروع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات مردہ اونٹوں اور
موروں کے جگہ جگہ بکھرے ڈھانچے اس صحرا کی امتحان نما زندگی پر بین کرتے
دکھائی دیتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے انسان کو کیا کچھ جھیلنا پڑتا ہے، یہ
کوئی ان تھرکے لوگوں سے جا کر پوچھے کئی جگہوں پر ایسے مناظر دیکھنے کو
ملتے ہیں کہ آگ برساتے آسمان تلے سلگتی ریت پر چیتھڑوں میں لپٹے ننگے پاؤں
مرد، عورتیں اور معصوم بچے ذرا سے پانی کے لئے جگہ جگہ بھٹک رہے ہوتے ہیں۔
1970کی دہائی تک تھر میں بارشیں تقریباً ہر سال ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن پچھلے
دس سالوں میں موسمی تبدیلیوں کے رونما ہونے کے باعث ایک سال بارش ہوتی تو
دوسرے سال پھر تھریوں کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا۔۔یہ سلسلہ گزشتہ چند
سالوں سے یونہی چلا آ رہا تھا۔مگر جب مسلسل 4برس صحرائے تھر میں بارش نہیں
برسی تو تھریوں کو بری طرح قحط سالی نے آگھیرا۔یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا
مسئلہ زندگی کی سب سے اہم ضرورت یعنی پانی ہے۔۔پانی کے حصول کے لیے علاقے
میں جگہ جگہ کنوئیں بنائے جاتے ہیں ان کنوؤں کی گہرائی 300 فٹ سے لیکر 500
فٹ تک ہوتی ہے۔بارشوں کا پانی ان کنوؤں میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔لوگ اونٹوں
اور دیگر جانوروں کے ذر یعے یہاں سے پانی نکالتے ہیں۔ان کنوؤں سے نکالا گیا
پانی بڑے بڑے مٹکوں کی صورت میں سنبھال لیا جاتا ہے۔پانی کے ساتھ ساتھ یہاں
کے لوگوں کا دوسرا بڑا مسئلہ آلودگی ہے۔ کنوئیں کا منہ ڈھکا نہ ہونے کے
باعث مٹی اور کئی آلودہ ذرات پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے
یہاں کا پانی کڑوا اور گند لا ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ انسان اور مویشی ایک
ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں جو نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی کئی
مضر بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔یہاں کے مقامی لوگوں کی کل دولت ان کے مویشی
ہوتے ہیں جو اناج اگانے ، کنویں سے پانی نکالنے ، سفر کرنے اور دودھ دینے
کے کام آتے ہیں۔چونکہ تھریوں کی آب نوشی کا واحد ذریعہ بارش کا پانی ہے۔
جسے تالاب یا کنوؤں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مقامی آبادی کئی مہینوں تک یہ
پانی استعمال کرتے ہیں۔اور اگر آنے والے کچھ مہینوں میں بارشیں نہ برسیں تو
تالاب خشک ہونے لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ مقامی لوگ پیاسا رہنے پر مجبور ہو
جاتے ہیں۔تھر پار کے ہسپتالوں میں ناقص علاج اور دیگر ضروریات نہ ہونے کے
باعث آلودگی اور قحط سالی سے متاثر ہونے والے بچوں کو فوری طور پر حیدرآباد
منتقل کر دیا جاتا ہے جن میں سے اب تک کئی بچے بے درد موت کے منہ میں جا
پہنچے ہیں۔
تھر کی آغوش میں فاقوں کا نوالہ بن کر
یہ تڑپتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے
اے خدا چھین لے بیناء میری آنکھوں کی
مجھ سے مرتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے
سانحہ پشاور جو دنیا کا المناک ترین سانحہ ہے جسکے رونما ہوتے ہی پوری دنیا
اس درد و کرب سے چلا اٹھی حکومت نے بھی اس سانحہ کا گہرا اثر لیتے ہوئے
ہنگامی طور پر بہت سے اقدامات نافذ کیے اور بہت سے اقدامات جاری کیے تاکہ
آئندہ کبھی ایسی دہشت گردی کا سامنا نا کرنا پڑے جو کہ خوش آئند ہے مگر تھر
پارکر جہاں روز کئی ننھی کلیاں آس و یاس کے جلتے بجھتے چراغ لیے مرجھا رہی
ہیں جہاں روز کئی ننھی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں مگر افسوس کہ حکمران اس
بارے میں سوچ تک بھی نہیں رہے ابھی تک حکومت کی جانب سے ان اموات کو روکنے
کے لئے کوئی قابل زکر اقدامات نہیں کئے گئے ذرا سوچئے تھر پارکر کے باشندے
بھی تو جینے چاہتے ہیں وہ بھی زندگی چاہتے ہیں مگر افسوس ہم اب تک خاموش
ہیں خدارا وہاں اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لئے اقدامات کیے
جائیں تازہ پانی کی سہولت فراہم کی جائے اور ہسپتالوں میں جدید طبی سہولتیں
فراہم کی جائیں تاکہ اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کیا جائے۔بے روزگاری کے
خاتمے کیلئے سولر پینل ، اسٹیم ٹربائین اور دیگر انڈسٹریز قائم کی جائیں۔تا
کہ جتنی جلدی ممکن ہو تھرپاکر میں بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ یقینی بنایا جا
سکے۔۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓکی والدہ کی وفات ہوئی تو انہوں نے آپ ﷺسے سوال
کیا میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے کیا میں اسکے لیے صدقہ کروں آپﷺ نے
فرمایا ہاں۔۔اس نے کہا کون سا صدقہ بہتر اور افضل ہے آپ نے فرمایا 'پانی
پلانا'۔۔اس روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امت ِ مسلمہ کے خیال کی ذمہ
داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ پوری عوا م پر عائد ہوتی ہے۔تو چلو چل کر اپنا
فرض نبھاتے ہیں آج اچھائی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہیں حالات کے ستائے
ہوئے ان بے سہارا لوگوں کی ڈھلوان بنتے ہیں۔۔بوند بوند پانی کو ترستے ان
لوگوں میں نئی زندگیاں بانٹٹے ہیں۔ |