روہت ویمولا کی موت پر جس وقت ساری قوم
سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی وزیراعظم شاعری فرمارہے تھے ۔ اتوار ۱۷ جنوری کو
روہت نے خودکشی کی اور پیر۱۸ جنوری کو مودی جیوزرائے زراعت کے ایک اجلاس کو
خطاب کرنے کیلئے سکمّ کی راجدھانی گینگ ٹوک پہنچے ۔جب ان کی تقریر لکھی گئی
ہوگی اس وقت کسی کو روہت کی خودکشی کا علم نہیں تھا اس لئے اس کا براہِ
راست ذکر تو نہیں آیا مگر جو کویتا (نظم)انہوں پرستوت (پیش)کی وہ من و عن
روہت کے سانحہ پر منطبق ہوگئی ۔ وزیراعظم نے کہا :
مجھے پھول جیسا نازک مت بننے دینا
میں کانٹوں کے بیچ رہا ہوں
مجھے کانٹوں کے بیچ ہی رہنا ہے
یہ آزاد نظم نہ صرف مودی جی اور سنگھ پریوار کا بہترین تعارف کراتی ہے
بلکہ روہت جیسے لوگوں پر ان کے اثرات کی جانب بھی بلاواسطہ اشارہ کرتی ہے۔
اس میں سب سے پہلے مودی جی اپنی ذاتِ والا صفات کے بارے میں یہ اعتراف کرتے
ہیں کہ میں پھولوں جیسا نازک نہیں ہوں ۔ اپنےمستقبل کے ارادوں کی بابت
فرماتے ہیں کہ آگے چل کر بھی میں پھول جیسا (خوشنما اور خوشبودار)نہیں
بننا چاہتا ۔ اس کے بعد وہ اپنے کانٹا ہونے کا بنیادی سبب صحبت کو قرار
دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے کانٹوں کے درمیان اپنی زندگی گذاری ہے ۔ اس
طرح مودی جی نے اپنے علاوہ سنگھ پریوار کو بھی کانٹوں کا ہار بنادیا اس لئے
کہ ان کا جیون توآرایس ایس کی سیوا میں گذرا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب انہوں
نے لال قلعہ سے اپنا تعارف راشٹر سیوک کی حیثیت سے کرایا تو لوگوں نے اسے
سنگھ سیوک ہی سنا اور پھر سنگھ کے ساتھ وزراء کی مشترکہ نشست کا اہتمام
کرکے ثبوت بھی بہم پہنچا دیا۔
اس اہم انکشاف کے بعد مودی جی اس نظم میں اپنے پھول بنے رہنے کا سبب بھی
ارشاد فرماتے ہیں۔ چونکہ انہیں آگے چل کر بھی پھولوں کے بجائے کانٹوں کے
درمیان ہی رہنا ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو بدلنے کی جرأت نہیں کرسکتے ۔ وہ
جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے پھول بننے کی کوشش کی تو سنگھ کےکانٹےان کا کیا
حشر کریں گے ؟ اس لئے اب کانٹے کی سی زندگی گذارنا نہ صرف مودی جی کی پسند
بلکہ مجبوری بھی ہے ۔ یہ نہ صرف ان کی بلکہ دیگر لوگوں کی بھی مجبوری ہے اس
لئے کہ اپنےپھولوں کے گلدستے میں کانٹے کوسجانے کی حماقت بھلا کون کرسکتا
ہے؟ اسکویتا کو پڑھنے کے بعد یہ نہیں لگتا کہ یہ کسی زعفرانی فکر و خیال کے
خیرخواہ کی تخلیق ہے لیکن مودی جی یا ان کےبھکتوں کی سمجھ میں یہ رازکیسے
آسکتا ہے؟ شاعری جیسی صنف نازک کے ساتھ بھلا کانٹوں کا کیا سروکار؟
شایدیہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار نےاپنے سوئم سیوکوںپر برہماچاری جیون
کولازمی قرار دیتا ہے۔اس غیر فطری پریوار میںجو شادی کرلیتا ہے اسے سوئم
سیوک کے اعزاز سے محروم کردیا جاتا ہے مگرجن کا نکاح سیوک بننے سے قبل ہو
چکا ہوتا ہے انہیں اپنی زوجہ کو بغیر طلاق کےبے یارومددگار چھوڑ دینے پر
مجبور کردیا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سےیہ لوگ جس دین کے حامل ہیں اس میں خواتین
خلع کے حق سے بھی محروم ہیں ۔ اس لئے راشٹر کی سیوا کرنے والے کانٹوں کی
پھول سی بیوی اپنے شوہر نامدار کی خدمات سے محروم ہوجاتی ہے۔ سنگھیوں کے
مزاج میں جو سختی اورکرختگی پائی جاتی ہے اس کی ایک وجہ یہ مجرد ّ طرزِ
زندگی بھی ہے۔ جولوگ اپنی فطرت سے برسرِ پیکار ہوں وہ بھلا دنیا امن و
سلامتی کیسے قائم کرسکتے ہیں ؟
وزیراعظم نے روہت ویمولا کے سانحہ پر اظہار خیال کرنے کیلئے جب ۵ دن لگائے
تو لوگوں نےاس تاخیر پر حیرت کا اظہار کیا ۔ ایسا کرنے والے لوگ بھول گئے
تھے کہ غیر فطری طرز ِحیات انسان کے فکر و عمل کو کیسے متاثر کرتا ہے ۔
ایسے لوگ جو خود اپنوں سے صلہ رحمی کا سلوک نہیں کرتے وہ بھلا دوسروں کا
دکھ درد کیسے محسوس کرسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اپنے لکھنؤ کےاولین دورے کے
موقع پرجب وزیراعظم نے ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ یہ کہا کہ سیاست سے
قطع نظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک ماں نے اپنا لال گنوایا ہے تو سامعین
پر اس کوئی اثر نہیں ہوا ۔مودی جی کی اداکاری کے جواب میں بھیم راو امبیڈکر
یونیورسٹی کے طلباء ’’ہر ہر مودی گھر گھرمودی‘‘ کے بجائے ’’گوبیک مودی گو
بیک مودی ‘‘ کے نعرے لگا نے لگے ۔
اتر پردیش ہی وہ ریاست ہے جو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کا بنیادی سبب
بنی ہے ۔ یہاں پر بی جے پی کو ۸۰ میں ۷۳ نشستوں پر کامیابی ملی ۔ ان نتائج
سے خوش ہوکر مودی جی نے اپنی بڑودہ والی نشست چھوڑ کر وارانسی کو اپنا لیا
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ سمندر کی جھاگ کی مانند چھا جانے والی یہ
مقبولیت دیکھتے دیکھتے کافور ہو جائیگی ۔ دلت طلباء کے ان نعروں نے اے بی
وی پی والوں کو رام مندر کی یاد دلا دی اور وہ جواب میں ’’رام للاّ ہم آئے
ہیں مندر وہیں بنائیں گے ‘‘ کی گھوشنا(نعرہ) کرنے لگے۔ اس اوٹ پٹانگ ردعمل
کو دیکھ کر ہال میں موجودصحافیوں اور سامعین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
آخرروہت کا رام مندر سے کیا تعلق ہے ؟ دراصل روہت ویمولا کا تو رام مندر
سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں مگر سنگھ پریوار کا رام مندر کا بڑا گہرا
تعلق ہے۔یہ زعفرانی گروہ جب بھی مشکلات میں گھرجاتاہے اور اسے کچھ سجھائی
نہیں دیتا تو اسےرام مندر کی یاد آجاتی ہے۔ ملک کی عوام اب اس فریب دہی سے
واقف ہوگئےہیں اور حالت یہ ہے کہ اگر بی جے پی والے عدالت کے فیصلے کے
مطابق یا خلاف کوئی مندر تعمیر بھی کردیں تب بھی لوگ انہیں دوبارہان کے
جھانسے میں نہیں آئیں گے ۔
لکھنویونیورسٹی کا معاملہ صرف رام مندر کی نعرے بازی تک محدود رہ جاتا تو
اس میں سنگھ کی عافیت تھی لیکن بات اور آگے بڑھی نیز ۳ طلباء کو معطلی تک
جاپہنچی ۔ یہ عجیب منافقت ہے کہ جس وقت اپنی غلطی کا اعتراف کرکے حیدرآباد
میں روہت کے ساتھیوں کا تعطل ختم کیا جارہا تھااسی وقت لکھنو میں دلت طلباء
پرایک بے ضرر احتجاج کی بنیاد پرکارروائی کی جارہی تھی ۔ سیاسی بصیرت کا
تقاضہ تو یہ تھا کہ اس کو نظر انداز کردیا جاتا لیکن عقل کے اندھوں سے شاید
یہ توقع کرنا درست نہیں ہے۔ اس اقدام کے باوجود اگر بی جے پی کو یہ خوش
فہمی ہے کہ اترپردیش کے دلت بی ایس پی کو چھوڑ کر اس کو ووٹ دیں گے ۔ اب تو
حالت اتنی بگڑ گئی ہے کہ اگر مایاوتی بھی بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کرنے کی
حماقت کرگذرے تو اس کے ردعمل میں دلت سماج بی ایس پی سے کنارہ کش ہوجائیگا
۔ ایسے میں اگر کوئی حیرت زدہ ہے کہ محمد اخلاق کا نام اپنی زبان پر نہیں
لانے والے وزیراعظم کو آخر روہت سے اظہار ِہمدردی کی ضرورت کیوں پیش آئی
تو اسے چاہئے کہ وہ مودی جی کی مذکورہ نظم کے دوسرے حصے کو پڑھ لے۔ سنگھ
پریوار اپنے دام میں پھنس جانے والے شکار کے ساتھ جوپاکھنڈی رویہ اختیار
کرتا ہے اس کی قلعی اپنے آپ کھل جائیگی۔ نظم یوں آگے بڑھتی ہے ؎
لیکن جہاں ضرورت ہو
وہاں پھولوں جیسی کوملتا(نزاکت) کے ساتھ
دکھی کےآنسو پونچھنے کے کام یہ زندگی آجائے
اس سے بڑا کیا سوبھاگیہ(خوش بختی) ہوگا
سنگھ پریوار ضرورت پڑنے پر دکھی کے آنسو پونچھنے کا سوبھاگیہ کیسے پراپت
(حاصل) کرتا ہے اس کا نمونہ حیدر آباد یونیورسٹی میں ملاحظہ فرمالیں کہ ان
لوگوں نے عوامی غم و غصہ کو کم کرنے کیلئے وائس چانسلر اپاّ راؤ کو توچھٹی
پر روانہ کردیا لیکن ان کی جگہ روہت کو سزا دینے والے پروفیسروپن سریواستو
کو لاکر بٹھا دیا ۔ اس اقدام سےزخموں پر مرہم لگنےکے بجائے نمک پاشی ہو گئی
۔ وپن سریواستو وہی شخص ہے جس پر روہت سے قبل ۲۰۰۸ میں خودکشی کرنے والے
سینتھل کمار کو ہراساں کرنے کا بھی الزام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی کے
الفاظ کا روہت کی ماں پر کوئی اثر نہیں بلکہ اس نے سوال کیا وزیراعظم نے ان
کے غم میں شریک ہونے کیلئے ۵ دن کا وقت کیوں لگایا؟ روہت کی والدہ نے صاف
کہا کہ ہمیں ہمدردی کے بول یا اقتصادی مدد نہیں بلکہ انصاف چاہئے ۔میرے
بیٹے کی خودکشی کے لئے ذمہ دار افراد کوجب تک قرار واقعی سزا دلانا میرا
مطمح نظر ہے۔
روہت ویمولا کی خودکشی پر سمرتی ایرانی اور سبرامنیم سوامی کی نمک پاشی کے
اثرات زائل ہورہے تھے کہ سشما سوراج اور کیلاش وجئے ورگیہ نے اپنی زہر
افشانی نے سے بھونچال مچا دیا۔ سشما نے کہا کہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں ۔
روہت سرے سے دلت تھا ہی نہیں ۔ اول تو یہ بات غلط ہی ہے مگر اسے درست مان
بھی لیا جائے تو روہت کا دلت ہونا اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی معطلی اور
خودکشی زیر بحث ہے۔ اگر وہ دلت نہیں بھی تھا تو کیا اس کو معطل کرنے کا
اقدام درست تھا؟ اگر وہ فیصلہ صحیح تھا تو اس کے ساتھ معطل ہونے والے دیگر
۴ طلباء کے اوپر سے پابندیاں کیوں اٹھائی گئیں؟ اگر یہ فیصلہ بروقت کیا
جاتا تو کیا روہت خودکشی کرتا؟ اس فیصلے کو کرنے اور کرانے والا کون ہے ؟
اس کو سزا کون دلوائے گا؟ کیا وزیراعظم کا کام صرف آنسو بہانہ اور آنسو
پونچھنا ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے دلت اور غیر دلت کی بحث چھیڑ
کر بی جے پی نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹا رہی ہے۔
روہت کو غیر دلت ثابت کرنے کیلئے اس کی دادی کے بیان کو بنیاد بنا رہے ہیں
جنہوں نے کہا ان کا اور ان کی بہو کا تعلق دلت ذات سے نہیں ہے۔ لیکن یہ نصف
سچائی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی دادی وڈہرہ ذات سے ہے جو دلت نہیں ہے
لیکن ان کے بیٹے نے اپنی اہلیہ کو بچوں سمیت چھوڑ دیا تھا ۔ روہت کی ماں
ملاّ ذات سے تعلق رکھتی ہے دلت ہے۔ روہت کی والدہ نے بچوں کی تربیت دلت
نظریہ حیات کے مطابق کی ہے۔ اس کا اعتراف خود روہت اپنی تحریر و تقریر میں
کرچکا ہے۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسےدلت ووٹ کا خوف ستا رہا ہے وہ
انسانیت کے بجائے سیاست کے نقطۂ نظر اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور خود
اپنے پیر پر آئے دن کلہاڑی چلائے جارہی ہے۔ ان لوگوں کا ہر بیان دلت سماج
کو برگشتہ کرنے والا ہے۔
روہت کی سالگرہ پر ہونے والے احتجاج سے گھبرا کر بی جے پی رہنما کیلاش وجئے
ورگیہ نے نیا نتازعہ کھڑا کردیا ۔ وجئے ورگیا ویسے بھی اپنی بدزبانی کیلئے
مشہور ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا گوکہ شاہ رخ خان ہندوستان میں رہتے ہیں مگران
کی روح پاکستان میں بسی ہوئی ہے۔ وہ شتروگھن سنہا کو بھی اس کتے کے مماثل
قرار دےچکے ہیں جو اپنے پیچھے آنے والی گاڑی کے بارے میں سوچتا کہ میں اس
کی قیادت کررہا ہوں۔ روہت کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے وجئے
ورگیہ بولے وہ ایسا کمزور بھی نہیں تھا کہ معمولی سی بات پر خودکشی کرلیتا۔
جو دہشت گردوں کی پھانسی کی مخالفت کرتا ہو، جس نے یعقوب میمن کی پھانسی کی
مذمت کی ہو، جو بیف پارٹی کے اہتمام کا اعلان کرتا ہو ایسا شخص خودکشی کرتا
ہے ۔ روہت کی خودکشی کا الزام اس کے حامیوں پر ڈالتے ہوئے وجئے ورگیہ نے
کہا جو اس کی حمایت میں مظاہرے کررہے ہیں وہی اس خودکشی کیلئے ذمہ دار ہیں
۔ راہل گاندھی کے اس مظاہرے میں شرکت کو لے کر وجئے ورگیہ بولے کہ اس طرح
راہل ایوان پارلیمان کےبجٹ اجلاس کو برباد کرنے کا ماحول بنا رہے ہیں ۔
وجئے ورگیہ کے بیان پر جب ہنگامہ برپا ہوا تو وہ حسب سابق اپنے بیان سےمکر
گئے ۔ انہوں نے ویمولا کی خودکشی کو افسوسناک قرارد یتے کہا کہ وہ ایک
جرأتمند نوجوان تھا جو بہاؤ کے خلاف تیرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ میں نہیں
مانتا کہ محض ہاسٹل خالی کرائے جانے کا معمولی واقعہ اس کی خودکشی کاسبب
بنا ہوگا۔ اپنی صفائی کے دوران وجئے ورگیہ نے روہت پر یہ الزام بھی لگا دیا
بھگوا رنگ کو دیکھ کر اس کا خون کھولتا تھا اور یعقوب میمن کیلئے نمازیں
پڑھا کرتا تھا ۔ اس احمق کو نہیں معلوم کہ نماز جنازہ صرف ایکبار پڑھی جاتی
ہے اور وہ بھی کوئی غیر مسلم کیوں پڑھے گا بھلا؟ وجئے ورگیہ نے کانپور میں
یہ انوکھا انکشاف بھی کیا کہ روہت کیلئے مظاہرہ کرنے والے لوگ دراصل
وزیراعظم اور حکومت کی مخالفت کررہے ہیں ۔ بی جے پی والوں کے اعصاب پراپنے
اقتدار سے محروم ہوجانے ایسا خوف سوار ہوگیاہے کہ انہیں ہر کوئی اپنا مخالف
نظر آتا ہے۔
اس خوف کی جائز وجوہات ہیں ۔ اٹل جی نے ایک بار کہا تھا کانٹے کو کانٹے سے
نکالا جاتا ہے ایسا لگتا ہے مشیت اس کانٹے کو نکالنے کیلئے چہار جانب سے
مصروفِ عمل ہوگئی ہے۔جنوب ِ ہند میں تلنگانہ کے اندر روہت کی مصیبت کیا کم
تھی کہ آندھرا پردیش میں کپو سماج نے ریزرویشن کی خاطر بی جے پی کی حامی
ٹی ڈی پی کے خلاف بغاوت کردی اور ٹرین کے ۸ ڈبے نذرِ آتش کردئیے نیز اب تو
ایک شخص نے خودکشی بھی کرلی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کی قیادت ایک
سابق ٹی ڈی پی وزیر کررہا ہے۔ یہ تحریک گجرات کے روہت پٹیل کی تحریک سے
زبردست مشابہت رکھتی ہے ۔ کپو اور پٹیل دونوں کسان ہیں ۔ سیاسی اعتبار سے
خاصے مضبوط ہیں ۔ بی جے پی یا ٹی ڈی پی کے حامی رہے ہیں اور اب مخالف ہوگئے
۔ چندرا بابو نائیڈو دراصل ان سے ریزرویش کا وعدہ کرکے مکر چکےہیں اس لئے
اب ان کا اقتدارخطرے میں ہے نیز بی جے پی نےاس احتجاج کی مخالفت کرکے ان کی
لٹیا دی ہے۔ مغرب کی طرف گجرات میں سنا ہی آنندی بین کو خبردار کیا جاچکا
ہے کہ پٹیل احتجاج ختم کرائیں یا گھر جائیں ۔ شمال میں محبوبہ مفتی آئے دن
ایک نیا زخم دیتی ہیں اورمشرق کے اروناچل پردیش میں صدر راج کو لے کے عدالت
حکومت کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے دل یعنی دہلی میں کیجریوال آئے
دن ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں فی الحال وہ کوڑا کرکٹ کے جھاڑو سے بی
جےپی کا کچرا کررہے ہیں۔ لگتا قوم کی آنکھ کایہ کانٹا اب بستر مرگ پر اپنی
آخری سانسیں گن رہا ہے اور پھولوں کا موسم آیا ہی چاہتا ہے۔ اس لئے بقول
ساحر لدھیانوی ؎
ہزار برق گرے لاکھ آندھیا ں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں |