پاکستان کی اکانومی پالیسی کے مطابق غریب
اور متوسط افراد کی ساری زندگی اس کام میں مصروف کی جائے کہ وہ اپنی ساری
زندگی اپنا گھر بنانے اور بیٹی کا جہیز بنانے میں پوری کر دئے۔ اس مقصد کے
حصول کے لیے زمین اور گھروں کی قیمت ان کی پہنچ سے بہت دور رکھی گئی ہے
تاکہ ان کی زندگی کا اولین اور دور رس مقصد یہی ہو۔ زیورات اور شادی پر
اخراجات کے مقصد کے... حصول کے لیے ان رسموں اور رواجوں کو میڈیا کے ذریعے
اور امیروں کے دکھلاوئے کے ذریعے ان کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے بہت سے خیر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ غریب اور متوسط گھرانے کے افراد اپنی زندگی کسی مقصد کے حصول کے لیے
گزار رہے ہیں۔
۲۔ امیر گھرانوں کو بڑے بڑے شادی ہال، ہوٹل اور زیوارات کی تیاری جیسے
بہتریں کاروبار کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔
۳۔ ملکی حالات، ترقی کے عمل اور پالیسیز سے غریب اور متوسط گھرانے کا کوئی
تعلق نہیں کیونکہ انہیں " گھرانا خوشخال تو ملک خوشخال" کے نظریے کے تحت
حالص ان مقاصد کے حصول میں مصروف کر دیا گیا ہے جہاں ایک دوسرئے سے اچھا
گھر بنانے اور دھوم دھام سے شادی کرنے کا مقابلہ زور و شور سے جاری ہے۔
۴۔ اس پالیسی کے تحت ان میں دن اور رات کام کرنے کا جذبہ اجاگر کیا ہے اور
اس کام کا معاوضہ بہت ہی محدود رکھا گیا ہے تاکہ وہ مرتے دم تک اس ملک کی
تعمیر و ترقی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے سکے۔
۵۔ اس پالیسی کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی حاصل ہوا ہے کہ ملک میں خودکش
دھماکے ہوں یا حکمران چور اور لٹیرے ہوں ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
وقتی غم اور غصے کے بعد پھر سے یہ غیور عوام اپنے مقصد کے حصول کے لیے
سرگرم عمل نظر آتی ہے۔
اس پالیسی کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے اور اس کے حصول کے لیے پاکستان
سے رابطے جاری ہیں۔ عالمی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے عوام ہمہ
وقت مصروف رہے گی اور حکومتیں الٹنے کا رحجان بھی کم ہو گا۔ |