درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے ، پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے

ما لیگاؤں بم دھماکوں کے متاثرین کے زخموں پر ایک بارپھر نمک پاشی کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سازش کے اصل ماسٹر مائنڈ رہائی کے دروازے تک پہنچنے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔سینکڑوں معصوموں کو اپنی زہریلی سازش کا نشانہ بنانے والے دیش کے یہ غدار پھر سے دھرتی پر بوجھ ڈالنے کے لیے تیار ہونا چاہتے ہیں۔واضح ثبوتوں کی موجودگی اور اقرار جرم کے باوجود بعض چاپلوس عناصر ان قاتلوں کی پشت پناہی میں لگے ہیں ۔انصاف ایک بار پھر قتل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایک سادھوی ،مذہب کادھوکہ دے کر خونی سازشیں رچنے لگی اور ساتھ میں دیش کے محافظوں کو بھی اپنے پاپوں کا حصہ دار بنالیا ۔فوجی وردی پہن کر ملک کی پاسبانی کا دم بھرنے والا یہ کرنل پروہت محافظ وطن نہیں بلکہ غدار وطن ہے۔لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ سب کچھ موجود ہونے کے بعد بھی کچھ نہ ہونے کا راگ الاپا جارہا ہے ۔ایک طرف ملک کی بربادی کی سازشیں بننے والے دہشت گردوں کو جیل کی چار دیواری سے باہر لانے کے لیے مہربانی کے تمام دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیں ،تو دوسری طرف وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے دین و مذہب تک کوداؤ پر لگا دینے والے معصوم شہریوں کو زبردستی دہشت گرد بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ایک جانور کے تحفظ کا قانون تو موجود ہے مگر انسانوں کے تحفظ کی کوئی پرواہ نہیں ۔کو سوں دور ملکوں میں قائم ہونے والی ہر تنظیم کے تار کو کھینچ کھینچ کراپنی زندگی کے معاملات میں الجھے ہوئے نوجوانوں سےجوڑنا یہ عقلمندی تو نہیں لیکن چالبازی ضرور ہے۔اور اس کار شر میں ملک کا میڈیا بھی بڑی ہی ایمانداری سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔"داڑھی اور ٹوپی" یہ شناخت تو جیسے رٹ لی گئی ہے۔اور کسی بھی مسلم نوجوان کی گرفتاری ہو تو عوام کو یہ دو چیزیں خاص طور سے دکھائی جاتی ہیں تاکہ داڑھی اور ٹوپی کی دہشت لوگوں کے دلوں میںبیٹھ جائے۔اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے دن بھر محنت میں مصروف یہ معصوم نوجوان خود اپنے ہی لیے مشکل سے وقت نکال پاتے ہیں یہ کسی دوسرے کے ملک کے معاملات کی کیا خبر لیں،اب تو ان بے قصوروں کے حق میں کچھ کہنے سے بھی لوگ ڈر رہے ہیں کہ کہیں ہمیںبھی ان کے ساتھ سلاخوں کی نذر نہ کردیا جائے، روز قیامت کی جس نفسانفسی کی پیشن گوئی رسول اللہ ﷺنے کی ہے وہ ابھی سے ہی ہمارے درمیان دکھائی دے رہی ہے ،ہم صرف اپنی ذا ت کو آرام و سکون میں دیکھنا چاہتے ہیں ہم اخباروں کی سرخیوں میں "مسلم دہشت گرد "کا نام دیکھ کر افسوس تو کرتے ہیں لیکن اس افسوس کی دوبارہ ضرورت نہ پیش آئے ،اس جانب ہمارا دھیان کیوں نہیں جاتا ۔آج ہمارے پاس تعلیم بھی ہے اور شعور بھی ،ترقی بھی ہے اور ہم طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے اندر کا ضمیر جاگ جائے،وہ احساس جو ہمیں اپنے لخت جگر کو کھونے پر ہونا چاہیے کیا وہی احساس اس وقت بھی ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے جب ہماری قوم کا کوئی نوجوان بے گناہ ہونے کے باوجود ایک خطرناک انسان کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہےاور اس کی صاف ستھری شبیہہ کو بگاڑنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑ کر ایک داستان تیار کرلی جاتی ہے ،اس وقت اس کے اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے یہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔عدلیہ کے انصاف پر ہمیں بھروسہ تو ہے لیکن ان بے قصوروں کو عدلیہ تک جانے کے لیے قانونی مدد کی بھی تو ضرورت ہے ، صرف چندوکلاء سینکڑوں قیدیوں کی مدد کیسے کرسکتے ہیں ، کیا ہمارےمعزز وکلاء حضرات اس نیک کام میں اپنے ان ساتھیوں کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں جو مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے کوشاں ہیں؟
؎ درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے ،
پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے
اور جب دامن ضبط چھٹنے لگا
ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لیے
 
Qudsiya Sabahat
About the Author: Qudsiya Sabahat Read More Articles by Qudsiya Sabahat: 6 Articles with 4144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.