بھیڑیے اور بکری کی کہانی

نیتیں خراب ہوں تو لہجے بدلنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہوتی، بے ایمانوں کو عہدوپیمان سے فرار کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے یہ بے رحم اصول انفرادی بندشوں سے لے کر قوموں کی زندگیوں تک میں زہر گھولتا ہے لیکن اس وقت بات کسی فرد واحد کی نہیں ہور ہی بلکہ امریکہ بہادر کی ہو رہی ہے، جس نے ایک بار پھر پاکستان سے نام نہاد دوستی اور ہماری تمام وفاداریوں کا صلہ ہمارے خلاف سنگین کاروائی کرنے کی دھمکی دے کر دیا ہے، جارج واکر بش کے دور میں کونڈو لیزا رائس کو جنگوں کی شہزادی کہا جاتا تھا، وہ کالی کلوٹی چڑیل پوری دنیا میں جہاں جاتی آگ لگاتی اور سنگین نتائج کی دھمکیوں کے نشتر برساتی پھرتی تھی۔ ایران، شمالی کوریا ایسے ممالک جو دانت دکھانے اور جواب دینے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں ان کے ساتھ میدان میں اترنے کی بجائے پابندیاں لگانے کا حربے آزمائے جاتے رہے، اب ہیلری کلنٹن نے بھی پاکستان کو اسی لہجے میں للکارا ہے، غلطی کیا ہوئی؟ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری فیصل شہزاد نے نیویارک کے علاقے میں دھماکہ کرنے کی سازش کی ہے اور اس کوشش میں پکڑا گیا ہے۔ اس سے بم نہیں بم بنانے کا سامان برآمد ہوا ہے، امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کو یقین ہے کہ اس کی کڑیاں پاکستان کے قبائلی علاقے سے ملتی ہیں اور وہ وہاں سے تربیت لے کر امریکہ کو فتح کرنے نکلا تھا۔ اس کی نیت خراب تھی پکڑا نہ جاتا تو بم بناتا اور پھر کسی اہم مقام کو ہدف بنا سکتا تھا۔ اسی خیال کو دل میں لا کر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی کڑ رہی ہے کہ بندا صرف امریکی شہری نہیں پاکستانی نژاد بھی ہے، اسی لئے امریکہ سے دھمکیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ فیصل شہزاد جو بھی ہے جس سے بھی تعلق ہے پکڑا گیا ہے اب وہ سب کچھ اگل دے گا اگر تحریک طالبان پاکستان سے تعلق اور وزیر ستان میں تربیت کے الزامات درست بھی ثابت ہو گئے تو کونسی قیامت آ جائے گی۔ کیا امریکی اندھے ہیں انہیں نظر نہیں آرہا کہ ہماری فوج ایسا ہی گند صاف کرنے کیلئے پہلے سے قبائلی علاقوں میں موجود ہے اور خود امریکی ڈرون حملے نہ صرف دہشتگردوں بلکہ معصوم پاکستانی شہریوں کا خون چاٹ رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں میں 90فیصد شہریوں کی شہادتیں ہوئی ہیں کیا یہ کسی ملک کے شہری نہیں تھے جنہیں امریکی فوجی شک کے بنیاد پر صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

ایک طرف ہمارے دوست امریکہ کی ہٹ دھرمی، من مانیوں اور بے وفائیوں کی طویل داستان ہے اور دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کی بزدلانہ پالیسیاں۔۔ وہ ہمیں اگر ڈرون حملوں سے مار کر اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر چپ کرائے ہوئے ہیں تو ہم نے بھی خود سپردگی کی کوئی انتہا نہیں چھوڑی، اور اب جب ہیلری کلنٹن نے پاکستان کو آئندہ ایسے واقعات کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے تو ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان سے یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ ایک امریکی شہری اگر نیویارک میں کسی سازش میں پکڑا گیا ہے تواس میں پاکستان کہاں قصور وار ہے؟بلکہ جب امریکی دھمکیوں سے نالاں صحافیوں نے ہلیری کے بیان پر جواب دینے کا کہا تو وزیر موصوف نے فرمایا کہ ہم اس لہجے میں بات نہیں کرنا چاہتے جس میں امریکی وزیر خارجہ نے کی ہے۔ کاش حکمرانوں میں کوئی تو ایسا ہوتا جوامریکیوں کو یہ باور کراتا۔
اپنے تیور تو سنبھالو کوئی دیکھے تو یہ نہ کہے
دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں

پاک امریکہ دوستی نہیں ایک جبر کو دوستی کا نام سابق ڈکٹیٹر مشرف نے دیا تھا جب اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے انہیں ہلیری سے بھی سخت لہجے میں دھمکایا تھا کہ فیصلہ کرلو امریکہ سے دوستی کرنی ہے یا دشمنی؟ کوئی لاکھ جھٹلاتا پھرے مگر یہ ہی حقیقت ہے کہ اس وقت پرویز مشرف کا دوستی کے خانے میں ٹک لگانا اچھا فیصلہ تھا، مگر اس کے بعد مشرف نے غلط پتے کھیلے اور امریکہ کی مدد کرنے کے صلے میں کچھ حاصل کرنے کی بجائے خود سپردگی کی انتہا کردی گئی۔ مشرف چاہتے تو پاکستان کے سارے قرضے معاف کراسکتے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کے قرضے معاف کرانے کی بجائے امریکہ کو انتہائی مطلوب لوگ پکڑ پکڑ بیچنے کا کاروبار شروع کردیا۔ پاکستان کے شہریوں کو جہاں سے پکڑا اگلی فلائٹ سے گوانتا ناموبے پہنچایا جاتا رہا، اس کھیل میں پاکستان کے آئین و قانون کو اپنے بوٹوں کے تسموں سے باندھے رکھا، اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر دوست ممالک کو بھی لال جھنڈی دکھا دی۔ مشرف اور ان کے کارنامے قصہ پارینہ بن گئے لیکن ان کے ماورائے آئین کئے گے فیصلے اور پالیسیاں نہ جانے کتنی دہایوں تک پوری قوم کو رلاتی اور جگاتی رہیں گی۔

امریکہ کے نئے ڈرامے کا ہیرو فیصل شہزاد ہے، پوری دنیا کے ذی شعور جانتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے فیصل کو پکڑا ہے اور اب پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا ایک اور محاذ کھول دیا گیا ہے، اور اب ایک بار پھر بھیڑیے اور بکری کے بچے کی کہانی شروع کردی گئی ہے کہ وہ پانی گدلا کیوں کر رہاہے؟ ورنہ دہشتگردی کے خلاف نام جنگ میں ہماری قربانیاں ان کے سامنے ہیں، ہمارے ہزاروں سکیورٹی اہلکار جام شہادت نوش کرچکے، معیشت تباہ حال ہے اور ہم اربوں روپے کا نقصان اٹھا چکے ہیں اور جن کے لئے یہ سب کچھ کیا انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا اور الٹا فیصل کی کڑیاں پاکستان سے جوڑی جارہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ٹانگیں کیوں کانپتی ہیں وہ تو ہمیں سمجھ آرہا ہے جو زمانہ امن میں اپنی عوام کو آٹا، چینی، اور اشیائے خورد نوش نہیں دے سکتے وہ کسی سے الجھنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ امریکی شہریوں کو یہ سوچنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب تک ایسے لوگوں کو منتخب کرتے رہیں گے جو دنیا کو امن دینے کی بجائے ساری دنیا کیلئے عذاب بن جاتے ہیں، جن کی بے رحم پالیسیاں دوست اور دشمن میں تمیز کرنے سے عاری ہوتی ہیں۔ ورنہ لوگ تو کہتے ہیں۔
امریکیوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی
Mehboob Ur Rehman Tanoli
About the Author: Mehboob Ur Rehman Tanoli Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.