پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ ہٹ دھرمی سے
حل نہیں ہوگا بلکہ روز بہ روز یہ بحران سنگین سے سنگین اور پچیدہ تر ہوتا
چلا جائے گا۔ ہڑتالی ملازمین اور اہم ارباب اقتدار و اختیار کے لیے لازم ہے
کہ وہ اس معاملے کو ہٹ دھرمی کی بجائے عقل ،فہم اور دانش کے استعمال سے حل
کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں ملک و قوم اور حکمرانوں کی بھلائی ہے ۔
سیاستدان کبھی مذکرات سے انکار نہیں کرتا دشمن ممالک سے جنگ کے بعد بھی
معاملات اور اختلافات کا باہمی مذاکرات کے ذریعہ ہی حل تلاش کیا جاتا ہے
لہذا وزیر اعظم نواز شریف اور انکے وزراء کا یہ کہنا کہ غیر قانونی
ہرتالیوں کے آگے سر نہیں جھکایا جائے گا سمجھ سے بالا تر اس لیے کہسیاست
میں معاملات کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کو بنیادی حثیت حاصل ہوتی ہے۔
اپنے حقوق اور ملازمت کے تحفظ کے لیے ملازمین کو جدوجہد کا آئینی حق حاصل
ہے، ملازمین کو یہ حق اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں بھی فراہم
کیا گیا ہے اور اس چارٹر پر حکومت پاکستان کے بھی دستخط ثبت ہیں۔ اپنے حقوق
کے حصول کے لیے جدوجہد کا حق ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملازمین ادارے اور
ملکی مفادات کو تہی نہس کردیں، اور عقل کو سمجھنے والے بااختیار حکمرانوں
کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی ادارے تباہ کرنے ،غیر ملکیوں کو
فروخت کرتے پھریں…… کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت پی آئی اے کی نکاری کو
سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ اس عمل کو شفافیت سے تعبیر تو کرتی ہے لیکن
اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ابھی تک تو یہ ہی واضع نہیں ہے کہ اس ادارے کو
کسے فروخت کیا جا رہا ہے۔ملازمین کی تقدیر کن ہاتھوں کے سپرد کیا جانا ہے؟
ایک صحافی کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں پی آئی اے کے تین ہڑتالی کارکنوں کی
ہلاکت کے بعد اسلام آباد کی ایک اہم شخصیت کو فون کال آئی ،فون کرنے والے
نے پاکستان کی اہم شخصیت سے کہا کہ اب پی آئی اے کی نجکاری مشکل ہوجائے گی؟
تو اسلام آباد سے فون سننے والی اہم شخصیت نے جوابا کہا کہ‘‘پی آئی اے آپ
کی ہمارے پاس امانت ہے‘‘ اور اس سے اگلے روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت
دیگر وزرا کی گفتگو اسی بات پر ختم ہوتی رہی کہ نجکاری تو ہوکر رہے گی۔اس
بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے پی آئی اے اپنے من پسند
افراد کو سونپنے کا حتمی طور پر فیصلہ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اب کہا گیا ہے
کہ ایک سو چھبیس دنوں کے اندر اندر نئی ایئر لائین کا قیام عمل میں آجائیگا
اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ سات ہزار ملازم رکھے جائیں گے۔اس کا مطلب
تو یہی ہوا کہ حکومت نے پی آئی اے کو سکریپ میں تبدیل کرنے کی ٹھان رکھی ہے
چاہے کچھ بھی ہو جائے لوگ مرتے ہیں تو مرجائیں یہ باز آنے والی چیز نہیں ۔
پی آئی اے کے ہڑتالی اور احتجاجی ملازمین پر فائرنگ کے واقعہ یا حماقت نے
جلتی پر تیل دالنے کا کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر اطلاعات و
نشریات پرویز رشید کو یہ کہنے کی کیا ضرورت پڑگئی تھی کہ‘‘ ہڑتال پر جانے
والوں کے پر کات دئیے جائیں گے‘‘ اور دیگر وزرا اور وزیر اعظم نواز شریف کو
اس مسلے پر اھتیاط کا پہلو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ کچھ بھی کہنے سے
قبل سو بار سوچنا چاہئیے۔کیونکہ کمان سے تیر اور زبان سے نکلے الفاظ کبھی
واپس نہیں ہوتے۔ اس روز جوکچھ کراچی میں ہوا ،وہ نہیں ہونا چاہیے تھا،اگر
حکومت ان ناراض اور سراپا احتجاج ورکروں کی جان ومال ،عزت و آبرو اور قومی
املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی
حکومت کی بھی تھی۔ سکیورٹی اداروں کو ہڑتالیوں کے جلسے ،جلوس اور دھرنے میں
شریک ہونے والوں کی جامہ تلاشی لی جانا انتہائی ضروری تھا۔اور حکومتوں کے
لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
ان سطور کے لکھتے وقت خبر آئی ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن
کمیٹی کے سہیل بلوچ اور نجکاری کمیشن کے سربراہ محمد زبیر عمر کے مابین
مذاکرات میں ڈیڈ لاک محض اس لیے قائم رہا کہ حکومتی نمائندے نجکاری کمیشن
کے سربراہ نے مذاکارت کی میز پر آنے کے لیے ہڑتالی کے خاتمے اور پی آئی اے
آہریشن کی بحالی کی پیشگی شرط رکھی تھی جبکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس
پیشگی شرط کو قبول کرنے سے یکسر انکار کردیا ہے۔ نجکاری کمیشن کے سربراہ کی
جانب سے رکھی گئی پیشگی شرط کا پہلے سے ہی امکان تھا اور اسی باعث مذاکرات
کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے اس ڈیڈ لاک برقرار رہنے
کی خبر پر کوئی تبصرہ کرنے کا کوئی تک ہی نہیں۔
تمام محب وطن پاکستانیوں کی طرح میری بھی دلی خواہش اور آرزو ہے کہ پی آئی
اے ہڑتالی ملازمین اور حکومت کے درمیان معاملات جلد سے جلد طے پا جائیں
تاکہ دیار غیر میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے پاکستانیوں کے دکھوں کا
مداوا کیا جا سکے اور انہیں فورہ طور پر پاکستان واپس لایا جانا ممکن بنایا
جا سکے۔ مانا کہ پی آئی اے کے ملازمین کے ہڑتال پر جانے سے شہریوں کے لیے
اندرون ملک اور بیرون ملک مشکلات پیدا ہو رہی ہیں لیکن ان مشکلات ،تکالیف
کو دور کرنا حکومت کی اولین ترجیع ہونا چاہیے کہ ہڑتالی ملازمین کے مطالبات
تسلیم کرنے کا حق اور طاقت حکومت کے پاس ہے اس کے علاوہ کوئی ان ہڑتالی
ملازمین کو دینے پوزیشن میں نہیں ہے۔
پی آئی اے سمیت ملک بھر کے ائیرپورٹس کے دروازوں کو عوام پر بند ہوئے
تقریبا ایک ہفتہ ہو چلا ہے لیکن ابھی تک اس قضیہ کے حل ہونے کی امید نہیں
جاگی جو بھی خبر ااتی ہے وہ مسافروں کی پریشانیوں مین کمی کی بجائے اضافے
کا باعث بن رہی ہے ۔اوپر سے اپنے وزیر خزانہ منظر سے یکسر غائب ہیں انہیں
بھی چاہیے کہ منظر نامے میں شامل ہوکر حکومت کو اپنے قیمتی مشوروں سے
نوازیں اور اسکی اور عوام کی پریشانیوں کو ختم کرنے مین اپنا حصہ بھی
ڈالیں۔ |