غزل کی باطنی حرارت: اشرف یعقوبی
(Mushtaque Darbhangwi, India)
صنفِ نازک کی طرح صنفِ شعر و سخن بھی دامنِ
حیات سے ریشم کی طرح لپٹی ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا کھردرا اور تار تار
دامن ہو جو غزل کی مہک سے آشنا نہ ہو۔ قاعدے کا ہر شخص غزل کے اشعار سے لطف
اندوزیاں ضرور حاصل کرتا ہے۔ ایک طرح سے شاعری زندگی و بندگی کی نمائندگی
کرتی ہے اور دونوں کے اقدار آگے بڑھاتی ہے۔ کوئی مطرب جب نغمہ گنگناتا ہے
تو سازِ دل کے تار خود بخود جھنجنا اٹھتے ہیں۔ صنفِ شاعری حسن کاری و لذت
آفرینی کا ایسا پُرلطف و پُرذوق مشغلہ ہے کہ ہر زمانے میں لوگ اس کے اسیر
رہے ہیں۔ شاعر اپنے فنِ لطیف کا سامری ہوتا ہے جو اپنے تخلیات، مشاہدات اور
تجربات کی جادوگری دکھاکر داد طلب ہوتا ہے۔ یقینا اس کا پورا کریڈٹ شعراء
کرام کو جاتا ہے۔ وہ کائنات میں بکھرے نقش و نگار، حالات و سانحات اور روز
مرہ کے خوشگوار واقعات کو شعری سانچے میں ڈھال کر قارئین کو پیش کرتے ہیں۔
شاعرصرف لفظوں کا ہی جادوگر نہیں ہوتا، وقت کا نباض بھی ہوتا ہے جس سے اس
کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ شعر و سخن کی افادیت یوں سمجھ لیں کہ شاعری
محلوں سے لے کر میدانِ جنگ تک ہر کہیں ڈھال اور تلوار کا کام انجام دیتی
ہے۔ یہ کبھی جام و سبو میں مست و بیخود رہی، کبھی گلوں کی خوشبوؤں میں اور
دھنک کی رعنائیوں میں نظر آئی، کبھی دلبر کی دلنشیں اداؤں اور کبھی حسیناؤں
کی زلفوں میں الجھی تو کبھی نشیب و فراز سے گزری اور کبھی سنگلاخ چٹانوں سے
ٹکرائی تو کبھی آبشاروں کی ترنم ریزیوں میں مدغم ہوکر راحت و انبساط کا
سامان بہم پہنچاتی رہی ہے۔ نحیف و نزار اندھیروں میں گم ہوجانا اس کی سرشت
میں شمار نہیں۔ جدیدیت نے اگر مجروح کیا تو صحت مند روایات کی مسیحائی نے
اسے پہلے سے زیادہ توانا اور حسین بنا دیا۔ ان ہی فنکاروں میں ایک معتبر
نام اشرف یعقوبی کا ہے۔ منفرد لب و لہجہ، مخصوص محاکاتی پیرایۂ اظہار کی
وجہ سے انہیں کون نہیں جانتا۔ آسمانِ ادب پر ایک خاصا روشن ستارے کا نام ہے
اشرف یعقوبی۔ موصوف کافی عرصہ سے چمنستانِ ادب کی آبیاری میں منہمک ہیں۔ جس
طرح ٹھہرے پانی میں کنکر پھینکنے سے لہریں مرتعش دائرے میں پھیلتی ہیں۔
اشرف یعقوبی بھی اپنی شاعری سے قصرِ ادب میں ارتعاش پیدا کرتے رہے ہیں۔
بلاشبہ انہوں نے گلدستۂ سخن کو خوب خوب لہکایا ہے۔ آیئے پہلے ان کی سخن
گستری کا اندازِ بیان دیکھتے ہیں۔
روح تک جس میں نظر آئے دوستو!
وہ دکھاتے ہیں اہلِ قلم آئینہ
شام کے بعد اکثر سنور جاتے ہیں
رات میں دیکھتے ہیں صنم آئینہ
سنور گیا وہ مجھے اپنے روبرو رکھ کر
نظر کے سامنے رکھا نہ آئینہ اس نے
2008ء میں موصوف کا مجموعۂ کلام ’’سرخ آبی پرندہ‘‘ مثلِ سرخاب حلقۂ ہائے
ادب میں اپنی علوئے پرواز سے تہلکہ مچا چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں نقشِ ثانی
’’پاگل ہوا پردے میں ہے‘‘ سیمابی کیفیت لے کر منظر عام پر نمودار ہوا جو ہم
جیسے بہت سارے لوگوں کو اپنے محاکاتی طرز تکلم سے متحر کئے ہوئے ہے۔ ہوا وہ
بھی پاگل ہوا پردے میں ہے۔ بڑی چونکا دینے والی بات ہے۔ ہوا جو نظر نہ آنے
والی شے بذاتِ خود ایک پردہ ہے۔ کئی سخنور اور سخن فہموں سے پوچھا بھی! کیا
آندھیاں پردے میں رہ سکتی ہیں؟ گڈمڈ سا جواب، میں بھی حیرت زدہ کہ یہ ہوا
بھلا کون سی ہوا ہے جو مہمل نشین ہے۔ بالآخر یہ عقدہ تب کھلا جب اشرف
یعقوبی نے نہایت سادگی سے اپنا ایک شعر پڑھ کر سنایا:
رات بھر جلنے کی ہم تدبیریں کرلیتے میاں
ہم نے یہ جانا نہیں پاگل ہوا پردے میں ہے
دراصل یہ شعر ان کے اولین مجموعۂ کلام ’’سرخ آبی پرندہ‘‘ کا ہے جسے انہوں
نے مصرعہ ثانی کے آدھے حصہ کو اپنے اس مجموعہ کلام کی زینت بنائی ہے۔ لوگ
چونکتے رہیں، عقل کے گھوڑے دوڑاتے رہیں، سیدھی سادی بات تو کوئی بھی کہہ
لیتا ہے، فن تو وہ ہے جو ہر زاویے سے جوہرِ فن کا مظاہرہ کرے۔ یہی قدرِ
مخصوصہ اشرف یعقوبی کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔ موصوف کا مختلف المختلف
اندازِ بیان اور طرزِ سخن انہیں اشرفیت کے درجہ پر فائز کرتا دکھائی دیتا
ہے۔ بات سے بات پیدا کرکے اپنی باتوں سے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ دینا ایک
فن ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس فن میں وہ کامل ہیں، دیگر شعری رموزِ فن سے بھی
وہ متسف نظر آتے ہیں۔ شاعری ایک ٹیڑھی کھیر ہے جو ہر کسی کے بس کی بات
نہیں۔ مصرع گڑھ لینا آسان ہے مصرع ثانی کا موزوں ہونا آسان نہیں ہوتا۔ یہ
تو کوئی باکمال ہی کا کمال ہے۔ اشرف یعقوبی کے اشعار میں فطرتی موزونیت اور
برملا برجستگی ہوتی ہے۔ اسی طرح معنویت بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ الفاظ
کے ربط و ضبط سے ان کی غزلوں میں پختگی اور شگفتگی کا پوری طرح اظہار
نمایاں ہے۔ کئی اعتبار سے وہ کہنہ مشق شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ چند
اشعار ملاحظہ ہوں:
بلاوا آپ سے شبنم کا بھی ٹالا نہیں جاتا
ہمیں دریا بلاتا ہے مگر جایا نہیں کرتے
اک ذرا گندم کے کھانے کی سزا میں آدمی
آج تک الجھا ہوا ہے روٹیوں کے جال میں
اشرف یعقوبی کی متعدد غزلوں میں جابجا ایسے واضح اشارات و پیغامات بھی ملتے
ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے فکر و فن کی شاہراہ پر سنجیدگی سے گامزن
رہے ہیں۔ متواتر جدوجہد، مسلسل سعیٔ پیہم اور عزم محکم انسان کو بلند
پروازی عطا کرتی ہے۔ انہوں نے جس طرح خود کو سنوارا اور سجایا ہے ان کی
شاعری کا مستقبل تابناک ہے۔ کہیں کہیں تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ نشانِ
منزل سے بھی آگے ان کی منزل ہے۔ بس ذرا اور تراش خراش کی ضرورت ہے، کچھ
کمیوں کا احساس ہوتا ہے مثلاً یہ شعر:
جہاں سے لوٹنے کے راستے محدود ہوتے ہیں
اس اندھے غار میں انساں کی فطرت لے کے جاتی ہے
راستے محدود نہیں ہوتے مسدود ہوجایا کرتے ہیں۔ راستے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
جہاں ختم ہوتا ہے وہیں سے دوسرا راستہ شروع بھی ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ
کمپیوٹر کی غلطی ہو۔ بہرکیف ان کے عزائم اور فکر و سوچ محدود نہیں اور
مسدود بھی نہیں۔ وسعت ہے، سنجیلاپن اور انوکھا پن ہے۔ وہ جو کہتے ہیں آئینہ
دیکھ کر کہتے ہیں۔ مبالغہ آرائی اور ابہام سے الہامی واردات مجروح ہوتی ہے۔
بہت حد تک انہوں نے اس سے پرہیز کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی خوبیاں انہیں
بام عروج پر لے جانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ موصوف کے دو شعر میرے خیال کی
تصدیق پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
جو شور اٹھ رہا ہے لہروں سے ساگروں کی
وہ شور پل رہا ہے اشرف کی شاعری میں
میری پیشانی پہ اشرف عکس ہے تخلیق کا
میں رہا لپٹا عروسِ شاعری کے جسم سے
اشرف یعقوبی صاحب خود کو کسی محدود خانے میں سمیٹ کر شاعری نہیں کرتے۔
سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات و معاملات پر بھی ان کی گہری نگاہ رہتی ہے۔
چیختے، بلکتے، ابلتے، کھولتے چاہے وہ اندرونِ ملک ہوں یا بیرون ملک کے
واقعات و سانحات بڑے تیکھے لہجے میں ایک بے باک مصور کی طرح شعری لباس میں
بیان کیا ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بہار آئی مگر قتلِ عام کرکے گئی
چمن کے پھولوں کا قصہ تمام کرکے گئی
ہمارے ملک میں جنت وہ بن کے آئی تھی
نہ جانے کتنوں کی جنت حرام کرکے گئی
جھونکئے اس کو مت جہنم میں
اس زمیں پر وہ مثلِ جنت ہے
غزل کے شاعر کو حد درجہ حساس اور مونی الطبع ہونا چاہئے۔ بہ الفاظ دیگر اسے
ایک سچا مشاہد اور زندگی کی بوقلمونی کا عکاس ہونا از حد ضروری ہے۔ جہاں تک
اشرف یعقوبی کا تعلق ہے وہ شہرِ نشاط میں زندگی کے نشیب و فراز اور ٹوٹتی
بنتی دیواروں سے کماحقہٗ باخبر ہیں۔ اس لئے ان کی ہر غزل میں کچھ اشعار
ایسے ضرور مل جائیں گے جو حیاتِ انسانی کی وحدت اور تکثیریت دونوں کی
ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب خاص اپنا ہے کہیں سے بھی مستعار نظر نہیں
آتا۔ یہی ان کی انفرادیت عظمت کی دلیل ہے۔ لفظیات اور تلازمے خود ہی بتا
دیتے ہیں کہ ایسے اشعار اشرف یعقوبی ہی کے ہوسکتے ہیں۔ کچھ اشعار بالاستعاب
دیکھ لیں تاکہ شاعر کے جمالیاتی محسوسات کا اندازہ بھی ہوسکے:
زخم بھرتا ہے اے اشرف وہ بڑی مشکل سے
پھول سے چوٹ اگر دل پہ کبھی لگتی ہے
گھائل نہ کرسکا کوئی تیر نظر اسے
بد صورتی بھی ڈھال ہے میرے خیال میں
کسی کی زلفِ پریشاں میں اک ربن بھی نہیں
کسی کی زلف میں تازہ گلاب ہنستا ہے
انہیں لفظوں کو لے کر شاعرِ ممتاز ہوں اشرف
سخن ور نے جنہیں اشعار سے باہر نکالا تھا
زیر مطالعہ مجموعہ کلام میں بہت سارے اشعار تلمیحات پر رقم کئے گئے ہیں جو
اس بات کا ثبوت پیش کررہے ہیں کہ اشرف یعقوبی کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔ یوں
بھی وہ وسیع النظر، وسیع القلب اور منکسر المزاج شخص ہیں۔ بحمد اﷲ امسال حج
کعبہ کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔ امید ہے کہ ان کی قوتِ تخلیق میں اور اضافہ
ہوگا۔ شعر و سخن کے پیکر نازک میں وارداتِ قلبی اور الہامی فکر و جمال کی
روشنی مزید در آئے۔ خاکسار راقم الحروف کی یہی دعا ہے۔ ان کے دونوں مجموعۂ
کلام میں لکھنے کے لئے بہت سارا مواد دعوتِ کلام دے رہا ہے جسے عکس ریز
کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انشاء اﷲ پھر کبھی سہی۔ فی الحال ان ہی کے دو شعر پر
اپنے مضمون کو مختصر کرتے ہوئے اظہارِ عقیدت کے ساتھ ختم کررہا ہوں۔
یہ کس کے حسن کا عکسِ جمیل ہے اشرف
غزل میں شعر جو آیا مثال کا آیا
اک غزل آج اشرف بدن میں مرے
کرچیاں چاندنی کی چبھونے لگی
معین وقار رحمانی، مٹیا برج، کلکتہ |
|