جنرل راحیل بطور چیف ’’800‘‘دن
(Dr M Abdullah Tabasum, )
حکومت نے خطرات سے نمٹنے کے لئے جرات
مندانہ جدوجہد ،اپنی قوم کو امید دلانے ،کشیر الجہتی خطرات سے نمٹنے کے
دوران فوج کی اعلی پایہ اور عمدہ قیادت کرنے اور شاندار قائدانہ صلاحیتوں
پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو برازیل کے اعلی اعزاز’’آرڈر آف
میرٹ‘‘ سے نوازا ہے ،اعزاز برائے 10سال خدمت،اعزاز برائے 20سال خدمت ،اعزاز
برائے 30سال خدمت ،کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج سنچری اعزاز شامل ہیں جبکہ غیر
آپریشنل اعزازات میں ’’نشان امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ شامل ہیں علاوہ
ازیں ’’یادگاری اعزازات‘‘ میں قرارداد پاکستان تمغہ،تمغہ استقلال،تمغہ
جمہوریت،یوم آزادی ،سنہرہ اعزاز،تمغہ بقاء شامل ہیں یہی نہیں چیف آف آرمی
اسٹاف کو ’’خارضہ اعزازات‘‘ سے بھی نوازا گیا جس میں آرڈر آف عبدالعزیز آل
سعود‘‘ اعزاز برائے فوج میں میرٹ ( ریاست ہائے متحدہ امریکہ) شامل ہیں
،جنرل راحیل شریف 16جون1956ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام
میجر محمد شریف ہے ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971ء کی پاک بھارت جنگ
میں شہید ہوئے اور انہیں ’’نشان حیدر‘‘ ملا تین بھائیوں اور دو بہنوں میں
سب سے چھوٹے ہیں ان کے دوسرے بھائی ممتاز شریف فوج میں کپتان تھے وہ میجر
رزجہ عزیز بھٹی جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہو کر ’’نشان
حیدر‘‘ حاصل کیا ان کے بھانجے ہیں راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور سے
باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے
،اکیڈمی کے54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں ،1976ء میں گریجویشن کے بعد
انہوں نے فرنٹیر فورس رجمنٹ ،6thبٹالین میں کمشن حاصل کیا ،وہ نوجوان افسر
کی حیثیت سے انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں فرائض سرانجام دئیے
ایک بریگیڈئیر کے طور پر انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈ ز کی کمان کی جن میں
کشمیر میں چھ فرنٹیر بٹالین فور س رجمنٹ،اور سیالکوٹ بارڈر شامل ہے
26فرنٹیر فورس رجمنٹ شامل ہے ،جنرل مشرف کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف
کو گیارہویں انفنٹری ڈویثرن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان ملٹری
اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہے ،راحیل شریف نے اکتوبر2010ء سے اکتوبر2012ء تک
گوجرانوالہ کور کی قیادت کی ،انہوں نے جنرل کور ہیڈ کواٹر میں انسپکٹر جنرل
تربیت اور تشخص رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ،27نومبر 2013ء کو وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کی مسلح افواج کا سپہ سالار مقرر کیا
،ذرائر کے مطابق جنرل راحیل شریف سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں۔۔۔۔تاہم
ان کو دو سنئیر ترین جرنیل ہارون اسلم اور راشد محمود پر فوقیت دی گی تاہم
جنرل راشد محمود کو بعدازاں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مقرر کر دیا
گیا 20دسمبر 2013کو جنرل راحیل شریف کو نشان امتیاز(ملٹری) سے نوازا گیا
بطور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے ’’ 2کامیاب ترین سال‘‘ ملک وقوم
کے لئے قیمتی تحفہ ہیں ضرب عضب جیسی ’’بہترین حکمت عملی‘‘ سے دہشت گرد اپنی
آخری سانسیں لے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ْجنرل راحیل شریف نے29نومبر 2013کو افواج
پاکستان کے15ویں سربراہ کے طور پر کمان سنبھالی ،16جون 2016ء کو وہ ساٹھ
سال کے ہو جائیں گے تاہم 90فیصد سے زاہد محب وطن پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ
ان کی مدت ملازمت میں توسیع ملک کے بہترین مفاد میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئٹہ میں
گزشتہ روز جنرل راحیل شریف کا مجلس مذاکراہ سے فکر انگیز خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ دہشت گردوں کو بیرونی فنڈننگ اور اندورنی مدد مل رہی ہے وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف نے قومی مفاد کے تحفظ میں آئی ایس آئی کے کردار کی
تعریف کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ ادراوں نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں آئی ایس
آئی پر پوری قوم کو فخر ہے اس کے افسران اور جوانوں کے کھاتے میں انگنت
کامیابیاں ہیں اور یہ اس لائق ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے انہوں نے مسلح
افواج کے افسران اور نوجونوں کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا کہ انہوں نے وطن
عزیز کے لئے اپنی جانوں کا نزارانہ پیش کیا اور ملک بھر کے لئے مشعل راہ بن
گئے،دہشت گردی اس وقت عالمی مسئلہ بن چکی ہے جبکہ پاکستان ایک عشرے سے زاہد
عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے
بے شمار قربانیاں دیں قوم کے اتحاد اور مسلح افواج کی پیشہ وارنہ صلاحیتوں
کے زریعے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اپکستان انسانیت کی بہتری کے
لئے اپنے تجربات سے دنیا کو مستفید کرنے کے لئے تیار ہے جنرل راحیل شریف کا
یہ اقدام کہ انہوں نے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس کی
استعداد کار میں اضافے اور انہیں دہشت گردی کی لعنت سے موثر طور پر نمٹنے
کے لئے صلاحیت میں اجافہ کے لئے تربیت دی ایسی تربیت سے ہمارے قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا ۔۔۔۔۔اور اسی طرح تمام جاسوس
ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے باہمی طے شدہ مفصل نظام کے تحت
ایک دوسرے سے رابطے کریں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ سال وازارت داخلہ نے
نیشنل انٹرنل سیکورتی پالیسی میں ایسا میکنزم تشکیل دیا تھا لیکن نیکٹا میں
شامل ہونے کے باوجود اس کی مشق نہیں کی جا سکی اور نہ نیشنل ایکشن پلان کے
بعد ہی ایسا ہو سکا ،وفاقی حکومت کی 33تنظیموں ہیں جن سے ملک کا قومی
سیکورٹی آپریٹس تشکیل پاتا ہے ، اور ان کی افرادی قوت 6لاکھ سے زیادہ ہے
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعاد پاک فوج سے بھی زیادہ ہے اگر ہم ماضی
میں جا کر حقائق دیکھے جائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کا
پاکستان پانچ سال پرانے پاکستان سے مختلف ہے پاک فوج نے گزشتہ دو سالوں میں
جس جانفشانی سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا ہے اس اے انکار ممکن نہ ہے لیکن
یہ بھی ایک حققیت ہے کہ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے ،جنرل
راحیل شریف نے سال کی ابتدائی روز کہا تھا کہ سال2016ئدہشت گرودں کے خاتمے
کا سال ہے آرمی چیف کی یہ سوچ بہت مثبت تھی جس کو پورے ملک میں خوب پذیرائی
ملی ہے۔۔جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سے خائف لوگ جو مرضی کر لیں قوم کی
نظریں جنرل راحیل شریف پر لگی ہوئی ہیں جو دن بدن اپنی مقبولیت کے ریکارڈز
توڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔یہ مقبولیت ان کو اپنے کردار کی بدولت ملی ہے کردار ہی
انسان کو بلند مقام عطا ء کرتا ہے اس نے ملکی دولت لوٹ کر تو بیرون ملک
نہیں پنچائی جنکی دولت باہر ہے مجھے ان کے نام لکھنے کی ضرورت نہ ہے عوام
سب جانتی ہے ۔۔۔میرے نزدیک تو عوام کی دولت لوٹ کو بیرون ملک منتقل کرنا
بھی غداری کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|