آئے روز احتجاج اورحکومت۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال،کوئٹہ سے کراچی
ٹرانسپوٹرز کی ہڑتال،کلرکوں کی ہڑتال،ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل ،جعلی دودھ
والے،سیاسی جماعتیں ، بھٹہ خشت کی ہڑتال غرضیکہ اس ملک میں آئے روز ہڑتال
معمول بن گیا ہے احتجاج دراصل ہر انسان کے اند کروٹیں لیتا ہے ہر شخص کے
اندر جو ایک حق و سچ کی بات کرنے والا صوفی ہوتا ہے وہ احتجاج کرتا ہے کوئی
آسمان سے آحتجاج کرتا ہے تو کوئی زمین سے ،کچھ لوگ روشنی اور خوشبو کے خلاف
بھی احتجاج کرتے ہیں مگر زیادہ تر انسانی ضمیر کا احتجاج نظام ’’زر‘‘ کے
خلاف رہا ہے لوگوں نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے ،جھوٹ
فریب اور کرپشن کی معاشرت سے بغاوت کی ہے ،لوگوں کا یہ احتجاج ایک اظہار یک
جہتی بھی ہے غریبوں اور ناداروں کے ساتھ ،اندھیری گلیوں میں پروش پانے
والوں کے ساتھ ،ان کے ساتھ جنہوں نے ساری زندگی پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے
مگر روٹی ،کپڑا اور مکان میسر نہ آسکا ،سابو صدر آصف علی زرداری کے لہجے کی
تلخی کہہ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی احتجاج کی سیاست شروع کرنے والی ہے ،اعتزاز
احسن نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وزیر اعظم اپنی آئنیی مدت پوری نہیں کر
سکیں گے ،اس پیش گوئی کے بین السطور میں بھی کسی احتجاجی تحریک کی خبر
موجود ہے ،قومی اسمبلی کے فلور پر بھی اپوزیشن مل بیٹھ کر فیصلے کرنے لگی
ہے یعنی پھر وہی کہانی شروع ہونے والی ہے جس میں ہم جی رہے ہیں وہی احتجاج
کی کہانی جو عمران خان نے ڈی چوک میں ایک سو چھبیس دن لکھی ۔۔۔۔جس کا عندیہ
ڈاکڑ طاہر القادری نے بھی گزشتہ روز دیا ہے ۔۔۔راقم اس احتجاج کے عمل پر
سوچتا رہا کہ یہ احتجاج ہر دور میں ہوئے ماضی میں اس احتجاج کو صوفی کی
علامت سمجھے جاتے تھے یعنی احتجاج کا کہیں نام منصور علاج ہے تو کہیں شاہ
حسین ،کہیں بلھے شاہ ہے تو کہیں سرمد یہ صوفی ہر دور میں دکھائی دیتے ہیں
ان کا کوئی بھی نام ہو سکتا ہے ،بھٹو سے لیکر منصور آفاق تک کچھ بھی۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہر صوفی ایک نئے عہد کی تمہیدہوتا ہے وہ ان کرداروں کے خلاف
آواز ا’ٹھاتا ہے جو ظلم اور نا انصافی کے نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں
۔۔۔وہ چاہتا ہے کہ انسان ظلم اور نا انصافی کی معاشرت سے نکل کر ایک آزاد
فضا میں سانس لے ۔۔یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو
جاتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔؟میرے نزدیک 90%بظاہر نہیں ہوتے ہیں مگر آتی ہوئی
صدیوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں معروف سیاست دان اور ہر دلعیزیز شخصیت
حاجی راؤ محمد اجمل خان وفاقی پارلمیانی سیکرٹری صنعت و پیداوار کا کہنا ہے
کہ صوفی لوگ انسان اور انسانیت کو عظیم تر ثابت کرنے کی کوشش میں ایک جدو
جہد مسلسل کی علامت بن کر تاریخ کے سینے پر سج جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ
’’ترک دنیا‘‘بھی دنیا کی بھلائی کے لئے کرتے ہیں ۔۔۔۔یہ لوگوں کے اعتبار کو
جوڑتے ہیں ،ویسے تو آدمی پر کوئی جاندار اعتبار نہیں کرتا ۔۔۔بہت سے تو
آدمی کو اپنا چہرہ نہیں دکھاتے ،موسموں ،پرندوں پر اعتبار کر لیتے ہیں مگر
انسان پر نہیں کرتے ۔۔۔صوفی انہی ٹوٹے ہوئے اعتباروں کو نئی زندگی دیتا ہے
،مذہبی اجارہدروں سے مذہب کو نجات دلاتا ہے معاشرے میں پیار ،محبت
رواداری،اور انسانیت کے بیج بوتا ہے ۔۔۔۔وہ چاہتا ہے کہ ہر گلی میں روشنی
کے شجر اگنے لگیں ۔۔۔۔۔۔اپنی دنیا میں کوئی ایسا صوفی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔راقم
عمران خان میں اس صوفی کی کچھ صفات دیکھتا ہے مگر ان کی خاموشی دیکھ کر گدھ
بہت جمع ہو گئے ہیں ان کی وسعت قلبی کے سبب ان کے دائرے میں ایسے لوگ بھی
آگئے ہیں جنہیں نہیں آنا چائیے تھا ۔۔۔۔۔۔پاکستان کو ایک مکمل صوفی کی تلاش
ہے یا یوں کہہ لیں کہ پاکساتنی قوم کو ایک پاگل کی تلاش ہے جو پوری قوم کو
پاگل بنا دے ۔۔۔۔عمران خان کو اپنے اردگرد دیکھنا ہو گا۔۔۔؟ اب یہ قوم آصف
علی زرداری جیسے کسی عقل مند آدمی کے طلسم میں گرفتار نہیں ہو سکتی ہے ۔۔۔اب
اعتزاد احسن چاہے افتخار محمد چوہدری کی گارٰ چلائے یا بلاول بھٹو کی ۔۔۔کوئی
فرق نہیں پڑسکتا ۔۔۔۔میڈیا کی آزادی کی بدولت اب یہ نہیں ممکن رہا کہ
پاکستانی عوام پھر وہاں پہنچ جائے جہاں انسان کے پاس سوچ،فکر،دلیل ،مقولیت
کچھ باقی نہ رہے ۔۔۔۔۔باقی کچھ میڈیا کے ھوالے سے بات ہو جائے کہ تو آج کا
طرز صحافت اس سے بھی زیادہ عجیب ہے ۔۔میں اہل زبان ہوں۔۔طنز نگار۔۔اور نہ
شاعر۔۔کوشش کے باوجود ۔۔اردو کا مذکر مونث درست نہ کر سکا۔۔اور نہ خوش
کلامی اور خوش گفتاری کے مظاہرے کے قابل ہو سکا ۔۔۔قادر الکام ہوں نہ ہی
الفاظ کی جادوگری کے فن سے واقف۔۔۔بلکہ یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اپنے سئینرز
اور استادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں نا مناسب الفاظ کے چناؤ یا دل شکنی کا
مرتکب نہ ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔ہمارے سئینرز اور دوستوں نے یہ روایت ڈالی ہے کہ جس
جماعت کے لیڈر کے ساتھ ان کی قربت ہو جاتی ہے اس کے ہر اچھے اور برے اقدام
کا وہ دفاع کریں گئے ۔۔۔اور ان کے محبوب لیڈر کا مخالف ہے وہ ان کی کسی
خوبی کا بھی اعتراف نہیں کرے گا چنانچہ کوئی میاں نواز شریف کا ترجمان بنا
ہوا ہے ۔۔تو کوئی عمران خان کا۔۔۔کوئی فوج کا۔۔۔کوئی زرداری کا ۔۔۔کوئی
الطاف حسین کا۔۔۔تو کوئی منور حسن کا۔۔۔تو کوئی اسفند یار ولی خان کا
ترجمان بننے کو تیار نہیں ہوتا تو اسے کنفیوژن کا طعنہ ملتا ہے ۔۔۔ ایک
کالم نگار دوسرے کالم نگار کا مخالف ہوتا ہے اپنے مخالف کا غصہ اس کے محبوب
لیڈر پر اتارا جاتا ہے اور دوسرا پہلے کے لیڈر پر ۔۔۔مجھے ان دنوں میاں
نواز شریف اور عمران خان اسی کشمکش کا شکار نظر آتے ہیں۔۔المیہ یہ ہے جن
لوگوں کو اﷲ نے دانش سے نوازا ہے جنہیں اﷲ نے الفاظ سے کھلنیے کا فن دیا ہے
جو نثر کو شاعری کر سکتے ہیں وہ لوگ کچھ اور دھندوں میں الجھ گئے ہیں ۔۔۔جب
مجھ جیسے کم علم اور قوت گویائی اور قوت تحریر سے محروم اپنا فرض نبھانے کی
کوشش کرتے ہیں تو دریا کو کوزے میں بند کرنے والے قادر الکام اساتذہ کو برا
لگتا ہے۔۔۔کیوں۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔ |
|