ہندو پاک تعلقات پر خارجہ قائمہ کمیٹی کی حکومت کو سفارشات!

ایک طرف قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی امور خارجہ نے حکومت کو یہ سفارشات پیش کی ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت درپیش ہے کہ ہندوستان،دفاع اور کشمیر کے معاملات فوج کے عمومی موضوعات ہیں جن میں سول حکومت کا عمل دخل محدود نظر آتا ہے۔ان سفارشات کے اسرار و رموز ،عوامل اور ممکنہ نتائج پر مختلف آراء سامنے آ سکتی ہیں تاہم ان سفارشات میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے کہ ہماری قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی سٹینڈنگ کمیٹی ہندوستانی 'مائینڈ سیٹ' اور68سال کے حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت میں کمزور نظر آتی ہے۔ان سفارشات سے حکومت اور ''فوج کے ایک پیج'' پر ہونے سے متعلق بھی کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔تاہم ،یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ NUST ریسرچ ٹیم کی معاونت کی بدولت ان سفارشات میں فوج کی رائے بھی شامل ہے۔سٹینڈنگ کمیٹی خارجہ امور کے 23ویں اجلاس کی تاریخ کو اگر سرکاری طور پر یکم فروری کے بجائے ''یکم اپریل'' لکھا اور پڑھاجائے تویہ پاکستان پر ایک بڑا احسان اور ملک،عوام اور ارباب اختیار کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔
قومی اسمبلی کی مختلف شعبوں سے متعلق32سٹینڈنگ کمیٹیاں قائم ہیں جو ان شعبوں سے متعلق حکومت کو قومی پالیسیاں بنانے میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی خارجہ امور کا 23واں اجلاس یکم فروری کو پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں اگلے مالی سال2016-17 کے لئے وزارت خارجہ امور کے بجٹ امور اور پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے تحقیقی تجاویز کو حتمی شکل دی گئی۔پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے ان تجاویز میں کشمیر،پانی کے مسائل و تنازعات کے علاوہ تجارت اور تقافت کے امور شامل رکھے گئے ہیں۔ ایک طرف قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی امور خارجہ نے حکومت کو یہ سفارشات پیش کی ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت درپیش ہے کہ ہندوستان،دفاع اور کشمیر کے معاملات فوج کے عمومی موضوعات ہیں جن میں سول حکومت کا عمل دخل محدود نظر آتا ہے۔ان سفارشات کے اسرار و رموز ،عوامل اور ممکنہ نتائج پر مختلف آراء سامنے آ سکتی ہیں تاہم ان سفارشات میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے کہ ہماری قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی سٹینڈنگ کمیٹی ہندوستانی 'مائینڈ سیٹ' اور68سال کے حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت میں کمزور نظر آتی ہے۔ان سفارشات سے حکومت اور ''فوج کے ایک پیج'' پر ہونے سے متعلق بھی کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔تاہم ،یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ NUST ریسرچ ٹیم کی معاونت کی بدولت ان سفارشات میں فوج کی رائے بھی شامل ہے۔سٹینڈنگ کمیٹی خارجہ امور کے 23ویں اجلاس کی تاریخ کو اگر سرکاری طور پر یکم فروری کے بجائے ''یکم اپریل'' لکھا اور پڑھاجائے تویہ پاکستان پر ایک بڑا احسان اور ملک،عوام اور ارباب اختیار کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔

کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ہندوستان سے متعلق پاکستان کی 'اپروچ' درج ذیل اصولوں پر قائم ہونی چاہئے۔خیر سگالی،جوکہ بیک وقت یا مرحلہ وار ہو سکتی ہے۔اعتماد میں اضافہ،مشترکہ کوششوں سے اعتماد کے نقصان کے خاتمے کے لیئے مشترکہ کوششیں۔مزاکرات کی بحالی۔نتیجہ خیز مزاکرات جو لازمی طور پر درج بالا تین اصولوں کی بنیادوں پر تنازعات کے حل پر مرکوز ہوں۔سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کوتمام دیرینہ تنازعات پر بھا رت سے جا۔مع رابطوں کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔تاہم،اس صورتحال کی عدم موجودگی میں ،کمیٹی حکومت پاکستان کو تجویز کرتی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ چار اہم معاملات(کشمیر،پانی،تجارت،تقافت اور مواصلات) کے لئے مخصوص رابطے رکھے،اس سے مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی جو پاکستان کے طویل المدت استحکام کے لئے نہایت اہم ہیں۔مزید یہ کہ تنازعات کے خاتمے کے لئے فعال اقدامات شروع کئے جائیں۔

کشمیر۔ پاکستان کو اپنے بنیادی مسئلے کے طور پر تنازعہ کشمیر کے حل کا مطالبہ جاری رکھنا چاہئے۔تمام عالمی فورمز میں کشمیر پر فعال سفارت کاری جاری رکھنی چاہئے۔مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی فعال توجہ اور شمولیت کو مضبوط بناتے ہوئے جاری رکھنا چاہئے، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد کی مضبوط طور پراخلاقی اورسفارتی حمایت جاری رکھنی چاہئے۔اس کا انحصار درج ذیل پالیسی اقدامات پر ہے۔ 2003ء کے سیز فائر سمجھوتے کی ادارہ جاتی۔پاکستان کشمیر میں مسلح،ممنوع عسکری گروپوں کی حوصلہ افزائی نہ کرے۔ کشمیر کاز کے لئے کام کرنے والے '' الفا '' عناصر کے بارے میں عالمی تشویش کے پیش نظر پرتشدد مسلح گروپوں کی مانیٹرنگ اور ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سہ فریقی امن عمل میں کشمیری لیڈروں کی شمولیت کی حمایت کی جائے۔سرحدوں کے سخت کنٹرول کے بارے میں طریقہ کار اپنانا۔آزاد کشمیر اور ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میںسول سوسائٹی کی حوصلہ افزائی میں اضافہ کیا جائے۔ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف ریاستی تشدد میں کمی کی کوشش۔

پانی۔کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی ایک پر جیکٹ ولر بیراج،تلبل پروجیکٹ،پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے پانی کے مسائل پر مجموعی طور پر بات کی جائے۔پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ درج ذیل بنیادوں پر جامع سفارت کاری کرنی چاہئے ۔پاکستان کو سند طاس معاہدے کی ہندوستان کی طرف سے خلاف ورزی کا معاملہ عالمی فورمز پہ سرگرمی سے اجاگر کرنا چاہئے اور ان کی توجہ اس جانب اس مسئلے کے انسانی پہلوئوں کی مبذول کرائی جائے کہ یہ خلاف ورزیاں کس طرح پاکستان کے پانی کے ذرائع اور ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔پاکستان کو عالمی سطح پر حکومتوں کے ساتھ ماحولیات کے تحفظ کے لئے 'لابنگ' کرنی چاہئے۔ جنوبی ایشیاکے خطے سے باہر کے غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل انڈس واٹر کمیشن کا ایک خود مختار آفس قائم ہونا چاہئے جو براہ راست اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کام کرے۔ہندوستان سے پانی کے مسائل کے حوالے سے واٹر اینڈ پاو ر کی وزارت اور وزارت خارجہ کے درمیان رابطہ کار ہونا چاہئے۔ انڈس واٹر کمیشن کی استعدا د میں اضافے کے ساتھ ہی باہمی مزاکرات،باقاعدہ اجلاس بحال کئے جائیں اور انڈس واٹر کمیشن کی بات چیت میں اعداد وشمار کے باقاعدہ تبادلے کو یقینی بنایا جائے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے موضوع پر سفارت کاری میں سیکرٹری سطح کے مزاکرات بحال کئے جائیں۔

تجارت۔پاکستان کو غیر رسمی تجارت میں کمی اور کنٹرول پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور اس کے لئے کسٹم ڈیپارٹمنٹ اور بارڈر فورسز کی استطاعت میں اضافہ کیا جائے۔مزید یہ کہ ویزہ حاصل کرنے کے طریقہ کار میں نرمی سے غیر رسمی تجارت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کو تجارت کی ایسی جامع پالیسی بنانی چاہئے جس سے مقامی مارکیٹ اور صنعت کو فائدے حاصل ہوں۔صنعت کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے تاکہ ہماری صنعت ہندوستان کی مستحکم صنعت کا مقابلہ کر سکے۔پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہندوستانی مارکیٹ میں مہیا جگہ حاصل کرنی چاہئے۔غیر رسمی تجارت کی حوصلہ شکنی کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے،اس سلسلے مین سرحدوں کے قریب سہولیات مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو ہندوستان میں 'نان ٹیرف بیرئیرز' ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے تا کہ پاکستانی مصنوعات کو بھی برابری کے مواقع مہیا ہو سکیں۔تقافت اور مواصلات۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان1988ء میںطے پائے تقافتی سمجھوتے کی توثیق کی جائے۔تقافتی تعلقات کی توثیق میں آرٹس، ٹقافت، آرکیالوجی، ایجوکیشن،ماس میڈیا اور سپورٹس شامل ہونا چاہئے۔اس مقصد کے لئے ثقافتی سینٹرز قائم کئے جائیں،تقافتی اور تعلیمی تبادلے کئے جائیں۔

تحمل کی پالیسی۔پاکستان کو ہندوستان کے حوالے سے تحمل کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔پاکستان کو عالمی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے سرگرم کوششیں کرنا چاہئیں۔سارک ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات میں اضافہ کرنا چاہئے اور دوسری علاقائی ریاستوں جیسا کہ ایران کے ساتھ توانائی کی ضروریات کو مضبوط بنانا چاہئے اور چین کے ساتھ تعلقات ہندوستان کی توسیع سے نبرد آزما ہونے کے لئے۔وسطی ایشیا ،ترکمانستان ،افغانستان ،پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پائپ لائین کو جاری رکھنے پر توجہ مرکوز۔امن و سلامتی کے شعبوں میں ترقی کے لئے دونوں ملکوں کو مفاہمت کے ' لاہور میمورینڈم'اور سلامتی سے متعلق اعتماد کی تعمیر کو جاری رکھنا چاہئے۔ ان تجاویز کی تیاری میں کمیٹی کو NUST کی ریسرچ ٹیم کی معاونت حاصل رہی۔قومی اسمبلی کی سڈینڈنگ کمیٹی خارجہ امورکے چیئر مین سردار اویس خان لغاری جبکہ ممبران میں آفتاب احمد خان شیر پائو۔امیر حیدر خان ،مولانا فضل الرحمان ،عاصم نزیر،رانا محمد افضل خان،صاحبزادہ محمد نزیر سلطان،دانیال عزیز،محدوم شاہ محمود قریشی،میاں نجیب الدین اویس،مخدوم خسرو بختیار،غوث بخش خان مہر،اصغر علی شاہ،ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،سید ایاز علی شاہ شیرازی،ڈاکٹر محمد فاروق ستار،محمود خان اچکزئی،نعیمہ کشور خان،تہمینہ دولتانہ،ڈاکٹر شیریں مہر النساء مزاری اور انچارج وزیر غیر سرکاری رکن کے طور پر شامل ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699220 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More