قومی ائیر لائن کی نجکاری اتنا بڑا ایشو نہ
تھا اگر اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا جاتا ‘مسلم لیگ ن کی بد قسمتی کہیں یا
نا اہلی کہ یہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو طول دیکر اپنے خلاف ایک محاذ بنا
لیتے ہیں ‘اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پی آئی اے قومی خزانے پر بوجھ ہے
‘سوال مگر یہ کہ کیا نجکاری کے سوا کوئی اور حل مو جود نہیں اور یہ بھی کہ
اگر نجکاری ہی حل ہے توکیا اس سے بہتر پلان نہیں ہوسکتا!پہلے با ت اگر
ہوجائے پی آئی اے کے خسارے کا سبب بننے والی وجوہات کی تواس کے ذمہ دار
ہمارے حکمران اور سیاستدان دونوں ہی ہیں پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے کہ
دوران الیکشن کسی جماعت کوووٹ ڈالنے والے افراد کو کوئی نہ کوئی لالچ ضرور
دی جاتی ہے اگر لالچ نہ بھی دی جائے تو سرکاری نوکری کا طلبگار وہ ضرور
ہوتا ہے اسی طرح سیاسی جماعت کی بھی کچھ کمزوریا ں ہوتی ہیں بلکہ اقتدار
میں آنے کے بعد سیاسی جماعتیں لوٹ مار کے بعد اگر کسی چیز پر غور کرتی ہیں
تو وہ آئندہ الیکشن میں جیت ہوتی ہے تمام تر توجہ اسی بات پر مر کوز کی
جاتی ہے کہ آئندہ الیکشن میں کامیابی کیسے حاصل کی جائے لاہور کے بعد
راولپنڈی‘ اسلام آباد میں میڑو بس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ تو ن لیگ
کا طریقہ واردات ہے لیکن پی پی کا طریقہ واردات اس سے ذرامختلف ہے پیپلز
پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی اس نے سرکاری اداروں کو جیالوں کی چراگاہ
بنایا صرف پی آئی اے ہی نہیں واپڈا‘محکمہ گیس‘پاکستان پوسٹ ‘سٹیل ملز سمیت
ہر ادارے میں بے پناہ لوگوں کوبھرتی کیا گیابے شمار مراعات ‘بھاری تنخواہیں
اور اوپر کی آمدنی کی کھلی چھٹی جیسی وجو ہات ہر ادارے کی طرح پی آئی اے کی
تباہی کا سبب بھی بنیں ‘ن لیگ بھی حسب توفیق اداروں کی تباہی میں اپنا
کردار ادا کرتی رہی ‘دونوں ہی جماعتوں نے ذاتی مفادات کیلئے منافع بخش
اداروں کو آہستہ آہستہ قومی خزانے پر بوجھ بنا دیا اور اب ہمارے حکمران ہیں
کے برسوں کی اجڑی کھیتی کو ایک دن میں سر سبز وشاداب کرنا چاہتے ہیں ۔
جہاں ہمارے حکمران جمہوریت کے بہت سارے ثمرات سے لطف انداز ہوتے ہیں وہیں
انہیں احتجاج جیسا ثمر برداشت کرنے کی عادت بھی ڈال لینی چاہئے ‘ وہ ادارہ
جس سے ہزاروں بلکہ لاکھوں گھروں کے چولہے جل رہے ہیں اس کے مستقبل کا فیصلہ
حکمران بغیر کسی مشاورت کے کیسے کر سکتے ہیں پی آئی اے ملازمین کا احتجا ج
سمجھ میں آتا ہے لیکن تحریک انصاف ․․․؟امید یہ کی جارہی تھی کی تحریک انصاف
پی آئی اے کی بہتری کیلئے کوئی متبادل پروگرام پیش کریگی یا نجکار ی کا
کوئی موثر پلان دیا جا ئیگا لیکن لگتا ہے کہ عمران خان احتجا ج میں حصہ ڈال
کر اپنی تمام ذمہ داریوں سے دستبردار ہو نا چاہ رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ
سرکارکے زیر سایہ چلنے والے اداروں کی نسبت نجی ادارے زیادہ فعال اور موثر
ہوتے ہیں وجہ ہم سب جانتے ہیں سرمائے کیساتھ ساتھ افراد کا مستقبل بھی داؤ
پر لگا ہوتا ہے اسی لئے ملازمین اور افسران صبح کو دفاتر کا رخ کرتے ہیں
کام کیلئے دن گزارنے کیلئے نہیں دوسری طرف سرکاری ملازمین محنت تو درکنار
آٹھ گھنٹوں میں چار گھنٹے بھی مسلسل کام نہیں کرتے کچھ تو دفاتر آنا ہی
گوارا نہیں کرتے ساتھ مال مفت دل بے رحم جیسے محاورے کا عملی نمونہ ہمیں
سرکاری دفاتر کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتا ایسی صورت میں کوئی ادارہ کیسے
پنپ سکتا ہے پی آئی اے کا معاملہ اس سے بھی سنگین ہے ایک مدت تک اس ادارے
کی باگ ڈورسیاسی چیلوں کے پاس رہی اس دور میں پی آئی اے کو دونوں ہاتوں سے
لوٹا گیااب تک لوٹا جارہا ہے میرے نزدیک تو نجکاری بھی اسی لوٹ مار کی ایک
کڑی ہے۔
حکومت کا کہنا یہ ہے کہ پی آئی اے سے حاصل ہونے والی ر قم گردشی قرضے
اتارنے میں خرچ کی جائے گی جب کہ اس معاملے میں حکمران جماعت کا کردار پہلے
ہی مشکوک ہے 90کی دہائی میں قومی ادارے یہ کہہ کر بیچے گئے کہ حاصل رقم بین
الاقوامی قرض اتارے میں خرچ کی جائے گی ادارے بھی بک گئے اور قرضے بھی پہلے
سے بڑھ گئے پھرقرض اتارو ملک سنواروکے نام قوم کیساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس
کے بعد کوئی حکمران جماعت پر اعتبار کرے بھی تو کیوں!اب کی بار بھی کسی بڑے
بریک تھرو کی امید نہیں میرا یہ ماننا ہے کہ نہ صرف پی آئی اے بلکہ ہر ادار
ہ قد آور ہو سکتا ہے اگر اسے سیاسی اثرو اسوخ سے پاک کر دیا جائے نجی ادارے
اگر ترقی کرتے ہیں تو ایمانداری ‘ڈسپلن اور محنت کی بنیاد پر کیا نواز شریف
سرکاری اداروں میں یہ سب کچھ لاگو نہیں کر سکتے آپ اس حقیقت کو سامنے رکھئے
اور فیصلہ کیجئے ایک ایسا ملک جس میں رشوت ‘ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع
خوری کو کوئی جرم نہ سمجھا جاتا ہوں‘جس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس
جیسا مکروہ محاورہ ایک مخصوص طبقے کی مشعل راہ ہووہاں مکمل پرائیوٹزیشن
جیسا نظام کیسے کامیاب ہو سکتا ہے موجودہ حالات میں سرکاری اداروں کی
نجکاری کا مطلب عوام کو بھوکے شیروں کے سپرد کرنے کے مترادف ہے ‘مقصد اگر
عوامی فلاح ہے تو راستے اور بھی بہت ہیں میری نوا ز شریف صاحب سے درخواست
ہے کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری کا مقصد خالصتاادارے کو منافع بخش بنانا ہے
تو آپ نجکاری کے بجائے اُن تجاویز پر عمل کریں جو آپ نے پی آئی اے کو کھڑا
کرنے کیلئے الیکشن سے قبل ایک ٹی وی پروگرام میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو
پیش کیں تھیں۔ |