نجکاری یا کاروکاری
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
13اکتوبر1997ء کویونائٹیڈ بنک کی نجکاری کے
نتیجہ میں ہزاروں گھروں کاچولہا بجھ گیاتھا۔جس کاچولہا بجھتا ہے اس کادل
بھی بجھ جاتا ہے اوراس کی آنکھیں پتھراجاتی ہیں۔یوبی ایل سے برخاست
ہونیوالے 5416 اہلکار آج بھی انصاف کے منتظر اوراپنے حق کیلئے سراپااحتجاج
ہیں۔جہاں انسانوں کوان کاحق اورانصاف نہیں ملتا وہاں سیلاب اورعذاب آتے
ہیں۔پاکستان عدالت ہے مگریوبی ایل متاثرین کی وکالت کرنے کیلئے کوئی تیار
نہیں مگراس پرسوموٹوایکشن تو لیاجاسکتا ہے۔ پی آئی اے اورواپڈا سمیت قومی
اداروں کو برائے نام قیمت پراپنے چہیتوں اور عزیزواقارب کو فروخت کرنا
نجکاری نہیں بلکہ قومی معیشت کی'' کاروکاری'' ہے۔ قومی ضمیر کوگمراہ کرنے
کیلئے حکمرانوں کی فنکاری اوراقرباء پروری کونجکاری کانام دیا گیا ہے۔جس
طرح پاکستان کے بعض مقامات پر''کاروکاری ''کی بیہودہ رسم کے نام پربیگناہوں
کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے ٹھیک اس طرح سرمایہ داراورصنعتکارحکمران
نجکاری کی آڑ میں قومی معیشت پرکاری ضرب لگا تے ہیں۔ اگر حضرت عمرفاروق رضی
اﷲ عنہ کے دورِخلافت میں سرکاری عہدیداران کو کسی قسم کی تجارت کرنے کی
اجازت نہیں تھی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ارباب اقتدار کوسیاست کی آڑ
میں''تجارت'' کرنے سے کیوں نہیں روکاجاسکتا ۔تجارت پیشہ حکمران ریاست،معیشت
اورجمہوریت پربوجھ ہیں اوردن بدن یہ بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔اس تجارت کیلئے
حکمران ریاست تک کوداؤپرلگا ئے ہوئے ہیں ۔حکمرانوں کی معاشی ترجیحات کاتعلق
ان کی نجی تجارت سے ہے۔بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے پاکستان کے قومی مفادات
پرشب خون ماراجاتا ہے۔بھارت کی آبی جارحیت کے باوجود حکمران عالمی عدالت
انصاف کادروازہ کھٹکھٹانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ حکمرانوں کی پڑوسی ملک
بھارت کیلئے حدسے زیادہ نرمی اورمصلحت پسندی ایٹمی پاکستان کے شایان شان
نہیں ہے ۔حکمران تجارت کریں مگرانہیں ریاست کے ساتھ سیاست کرنے کا کوئی حق
نہیں پہنچتا۔گولی اورگالی سے مسائل پرقابوپانے کی سوچ آمرانہ ہے ۔پی آئی اے
اہلکاروں کے احتجاجی مظاہرے میں دوقیمتی انسانی جانوں کاضیاع سانحہ ہے
۔اگررینجرز اورپولیس اہلکاروں کی بندوقوں سے گولی نہیں چلی توان کے ہوتے
ہوئے شرپسندعناصر نے خون کی ہولی کس طرح کھیلی اورکیوں فرارہوگئے ۔متاثرین
کے تحفظات دورکرنااورانہیں انصاف کی فراہمی ریاست کاکام ہے ۔
حکمرانوں کی تجارت ریاست کیلئے ایک بڑاخطرہ ہے۔ حکمران ریاست اورتجارت میں
سے ایک کاانتخاب کریں۔ریاست اوران کی تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔پرویز
مشرف اپنے دورحکومت میں بھارت کے ساتھ برابری کی بنیادپربات کرتے تھے جبکہ
میاں نوازشریف کے لہجے میں ضرورت سے زیادہ نرمی ہوتی ہے۔میاں نوازشریف کو
ان کی'' نرمی ''کاجواب دشمن ملک سے ''گرمی'' کی صورت میں ملتا ہے۔پاکستان
کے بدترین دشمن حکمرانوں کے دوست کس طرح ہوسکتے ہیں۔حکمرانوں کے بھارتی
حکام اورسرمایہ داروں کے ساتھ نجی مراسم ایک بڑاسوالیہ نشان ہیں۔ بھارت کے
ساتھ تجارت کاشوق پوراکرنے کیلئے حکمرانوں کو اقتدارچھوڑناپڑے گا۔ان کے کئی
متنازعہ اورپراسرارشوق پاکستان کیلئے زبردست ''شاک'' بن جاتے ہیں۔ حکمران ا
سٹیٹ ٹو اسٹیٹ نہیں بلکہ مین ٹومین دوستی کوفروغ دے رہے ہیں ۔حکمران طبقہ
اپنے مفادات کیلئے قومی حمیت اورملکی سا لمیت سے کھیلنے سے گریز کرے ۔
حکومت کے مصنوعی اقدامات سے بیمار قومی معیشت جام صحت نوش نہیں کرسکتی ۔
حکمرانوں نے کشکول تونہیں توڑامگر بیچارے عوام کی کمرضرور توڑدی ہے ۔بیرونی
قرض پرانحصار کرنیوالی حکومت معیشت کومضبوط نہیں بناسکتی ۔ پرویزمشرف کے
دورمیں ہمارے مزدور،محنت کش اورکسان خوشحال تھے مگر آج وہ بھی بری طرح
بدحال ہیں۔ نوازشریف کو بھارت سے تنازعات ختم کرنے سے زیادہ اپنے بھارتی ہم
منصب سے دوستی استوارکرنے میں دلچسپی ہے۔پنجاب اورسندھ کے حکمران خاندانوں
کے نزدیک عوام کی کوئی اہمیت نہیں ورنہ انہیں مرنے کیلئے نہ چھوڑاجاتا۔حضرت
عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایاتھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا
پیاسامرگیا تومجھ سے پوچھاجائے گاجبکہ آج تھر میں بھوک ،لاہورمیں خناق نامی
بیماری سے بچے بلک بلک کرمررہے ہیں۔بارودکی طرح بھوک سے اموات بھی دہشت
گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ حکمران اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کی بجائے
آئی ایم ایف سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدرمیں جعلی استحکام
بیک فائر جبکہ ڈالرمزید مہنگاہوگیا ،حکمرانوں کی شعبدہ بازی کے نتیجہ میں
تمام شعبہ جات برباد ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں عام آدمی کی قوت خرید بری طرح
متاثرہوئی ہے،عام آدمی کیلئے معیاری تعلیم اور متوازن خوراک ایک مذاق
اورخواب بن کررہ گئی ۔ حکمرانوں نے ماضی کی غلطیاں دہراتے ہوئے قومی اداروں
کی لوٹ سیل لگادی جبکہ پی آئی اے اورواپڈا کے اہلکاروں اور ہنرمندوں کا
اپنے معاشی قتل کیخلاف احتجاج ان کاانسانی وآئینی حق ہے ۔ اگرحکمران معاشی
چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتے تواقتدارچھوڑدیں ۔ حکمران ملک وقوم کواس مقام پرلے
آئے ہیں جہاں آگے کنواں اورپیچھے گہری کھائی ہے۔ حکمران دوست دشمن میں
تفریق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
قومی اداروں کواونے پونے دام پرنیلام کرنا''ناج نہ جانے آنگن ٹیڑھا''والی
بات ہے۔نجکاری سکیم درحقیقت حکمرانوں کی نیت اوراہلیت پرایک بڑاسوالیہ نشان
ہے۔تعجب ہے ایک ہی ریاست میں حکمرانوں کے نجی کاروباری ادارے پنپ جبکہ قومی
ادارے ڈوب رہے ہیں ۔اگراس کے اسباب اورمحرکات تلاش کئے جائیں تو''کھرا''آپ
کو ایوان اقتدار کی دہلیز تک لے جائے گا ۔ قومی ادارے بیچنے والے بھی
حکمران جبکہ درپردہ انہیں خریدنے والے بھی حکمران ہیں ۔قومی اداروں میں
نہیں حکمرانوں کی نیت میں کھوٹ ہے۔ حکمران جان بوجھ کرقومی اداروں کواپ
گریڈ نہیں کرتے کیونکہ یہ انہیں للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔پی آئی اے کے
اثاثوں کی فہرست بہت طویل ہے ،اس قومی اداروے کے دنیا کے کئی ملکوں میں
قیمتی دفاتر ہیں اوران کی مالیت یقینا کھربوں میں ہے۔ان کی طرف سے کی
جانیوالی سیاسی بھرتیاں اداروں پربوجھ بن جاتی ہیں اوران کاڈاؤن فال شروع
ہوجاتا ہے ۔حکمران قومی اداروں کی کمانڈ اینڈکنٹرول اپنے جیسے نااہل افراد
کے سپردکردیتے ہیں اوران کی ناتجربہ کاری سے ادارے ڈوب جاتے ہیں ۔پاکستا ن
کاقیام قدرت کازندہ معجزہ ہے اورجو اس کونوچ رہے ہیں تقدیراورتاریخ ان
کرداروں کوہرگزمعاف نہیں کرے گی۔ حکومت کے پاس من مانی کرنے کامینڈیٹ نہیں
ہے ،پاکستان کاہرباشعور فرداورطبقہ پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن کیخلاف
سراپااحتجاج ہے مگرحکمران اس کی نیلامی پربضد ہیں۔قومی اداروں کی نیلامی سے
نااہل حکمرانوں کوبدنامی اورناکامی کے سواکچھ نہیں ملے گا۔حکومت نجکاری
کاباب بندکرتے ہوئے قومی اداروں کا کنٹرول نیک نیت ،قابل اوراہل افراد کے
سپردکردے۔اداروں کے سربراہان کوٹائم فریم اورروڈ میپ دیاجائے اورجومقررہ
مدت میں ڈیلیور نہ کرے اس کابے رحم احتسا ب کیا جائے۔اداروں کی پائیداری
اوران کی کارکردگی میں بہتری کیلئے سزااورانعام کے اصول کورائج کیا جائے
۔کیونکہ ا حتساب کے بغیر بدنیتی اوربدعنوانی کی نحوست سے نجات نہیں ملے
گی۔دنیا کے متعدد ملکوں میں منتخب یونینز کے نمائندے اداروں کے انتظامی
اموربخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی منتخب یونینز کے
عہدیداران''پارٹنرز''کی حیثیت سے اپنے اپنے اداروں کودوبارہ سے منفعت بخش
بناسکتے ہیں ۔اگر اداروں کے اہلکاروں اورہنرمندوں کو منافع میں سے پندرہ سے
بیس فیصد کا ''پارٹنر'' بنادیا جائے تو وہ انتہائی محنت،خلوص اورنیک نیتی
سے کام کرتے ہوئے اپنے اداروں کوٹیک آف کی پوزیشن پرلے آئیں گے ۔اس سے
تنخواہ دارہنرمندوں اور مزدوروں کی کایا بھی پلٹ جائے گی اورقومی معیشت بھی
آئی سی یوسے باہرآجائے گی۔
حکمران جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں پی آئی اے سمیت قومی اداروں کی
نجکاری کااعلان نہیں کیا تھا لہٰذاء وفاقی حکومت کے پاس ایساکوئی اقدام
کرنے کا اخلاقی اورآئینی جوازنہیں جس کاتذکرہ ان کے انتخابی منشورمیں نہیں
تھا ۔ انتخابی اصلاحات میں سیاسی پارٹیوں کواس بات کابھی پابندبنایا جائے
کہ وہ قومی اداروں کیلئے اپنے ارادوں کوپوشیدہ نہ رکھیں بلکہ اپنے انتخابی
منشور میں ظاہرکریں ۔پاکستان میں جوبھیحکومت منتخب ہووہ انتخابی نہیں
انقلابی منصوبوں پرکام کرے۔بیس کروڑ انسانوں کو خودپسند حکمرانوں کے رحم
وکرم پر نہیں چھوڑاجاسکتا،مشاورت کے بغیر بہتر نتائج برآمدنہیں ہوتے۔ عدلیہ
آزادہے مگرپھربھی سرمایہ دار اشرافیہ پاکستان،ریاستی نظام اور عوام
کویرغمال بنائے ہوئے ہے ۔شخصی فیصلے ملک میں فسادات اورتنازعات کوجنم د ے
رہے ہیں ۔پی آئی اے اورواپڈا کی نیلامی بدعنوانی اور بدانتظامی کی غماز ہے
۔قومی ضمیرنے یکسوہوکراداروں کی نجکاری کومستردکردیامگراس کے باوجودحکمران
ان کی پرائیوٹائزیشن پربضد ہیں۔ شاہراہیں نہیں شہری اہم ہیں، شاہراہوں کی
تعمیر کیلئے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنا بربریت ہے ۔لاہورکواورنج ٹرین
نہیں جدیدڈرین سسٹم کی ضرورت ہے ۔ دستیاب وسائل تعلیم اورصحت کی سہولیات
کومزیداپ گریڈ کرنے پرصرف کئے جائیں۔مشاورت کے بغیر ہونیوالے اقدامات عوام
کومزاحمت پرمجبورکرتے ہیں۔ جہازی سائزکے اشتہارات سے حکمرانوں کوشہرت تو مل
سکتی ہے مگراس طرح عزت نصیب نہیں ہوتی ۔عوام کے گھروں کومسمارکرنیوالے
حکمران وہ وقت یادکریں جب میاں منظوروٹو کے دورمیں ان کے گھر کے بیرونی
جنگلے ہٹائے گئے تھے تووہ احتجاج کیلئے اپنے کارکنوں کولے کرشاہراہوں پرنکل
آئے تھے ۔ اورنج ٹرین متنازعہ اورمہنگاترین منصوبہ ہے۔عوام کی زندگیوں پرشب
خون مارنا اورانہیں چھت سے محروم کرنا انتظامی نہیں انتقامی فیصلہ ہے ۔ جس
گھر سے دوتین نسلوں کی یادیں وابستہ ہوں وہ اہل خانہ کیلئے انمول ہوتے ہیں
۔ جن تعمیراتی منصوبوں سے کئی ملین عوام کی زندگیاں متاثر ہوں ان سے
گریزکیاجائے ۔ |
|