خالد شہنشاہ سے عزیر بلوچ تک
(Dr Khalid Hussain, Okara)
عزیر بلوچ کی گرفتاری سے دبئی موجود
اعلیٰ سیاسی قیادت کے بیانات جو گرفتاری سے قبل انتہائی دھمکی آمیز تھے
یکدم نوے کے زاویہ سے تیس ڈگری زاویہ پر آن پہنچے ہیں دھمکیوں نے اب صلح
جوئی اور جمہوریت کی بقاء کی آڑ لے لی ہے۔ عزیر بلوچ ایک ایسا کردار ہے جو
اگر بول پڑا تو پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر پردہ
نشین بھی سامنے آجائیں گے جن کے بارے میں پاکستانی عوام کے وہم و خیال میں
بھی نہیں ہو گا کہ یہ بھی پاکستان کے خون پینے والوں میں شامل ہو سکتے
ہیں،عزیر بلوچ کی گرفتاری اور اس سے پہلے ڈاکٹر عاصم اور ماڈل ایان علی کی
گرفتاری سے میڈیا میں جو انتہائی سنسنی خیزی آٗئی تھی وہ پی آئی اے کے
بحران کی وجہ سے وقتی طور پر تو پس پردہ چلی گئی ہے لیکن اس پر بڑی تیزی سے
کام ہو رہا ہے اور اس محاذ پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو اکیلئے ہی
جنگ لڑنا پڑ رہی ہے کیونکہ پنجاب میں اب کرپٹ کرداروں کے خلاف اسی مہینہ
میں کاروائی کا آغاز ہونے والا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وفاق اور نہ ہی پنجاب
دبئی والوں کے خلاف بول رہا ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ آپریشن
پر وہ سٹینڈ لے رہی ہے جو اس سے پہلے تھا، اب بڑے اپنے آپ کو بچانے کیلئے
چھوٹے کرداروں کو قربان کرنے کیلئے جال بچھائے بیٹھے ہیں دیکھتے ہیں کہ کس
کی قسمت ہارتی ہے۔
مرتضٰی بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے شروع ہونے والا پرا سرار
کھیل شاید اب کی بار عوام کے سامنے عیاں ہو جائے اگر ایسا ممکن ہو گیا تو
اس کا تمام تر سہرا ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں اور خفیہ
ایجنسیوں کے سر ہو گا کیونکہ جس طرح سے دبئی میں موجود سیاسی قیادت نے ماڈل
ایان علی کی گرفتاری پر درپردہ اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے انہیں بچانے کیلئے
ہاتھ پاؤں چلائے تھے اس سے ہماری ایجنسیاں کافی فعال ہو گئیں انہیں دال میں
کچھ کالا محسوس ہوا ماڈل ایان علی کی ضمانت کو ئی بڑی بات نہیں تھی یہ تو
دائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن خفیہ ہاتھوں نے اس پراسیس کو کثیر المقاصد کے
تحت طویل کیا ،ماڈل ایان علی کے طرف داروں کی پریشانی دیدنی تھی، اپنے دور
اقتدار میں فرینڈلی اپوزیشن کا احسان بھی جتلایا جا رہا تھا تو ساتھ ساتھ
ڈھکے چھپے لفظوں میں حکومت گرانے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں لیکن
نوازشریف حکومت کے آرمی اور اس کے ذیلی اداروں سے تعلقات سابقہ دور حکومت
کی نسبت انتہائی اچھے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ان دھمکی آمیز بیانات کی
کوئی پرواہ نہ کی میاں نوازشریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ عام انتخابات میں ان
کی اکثریت کی اخلاقی پوزیشن کیا ہے اور وہ کس طرح اس زینے کو عبور کرتے
ہوئے مسند اقتدار پر آبیٹھے اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ نیا محاذ کھول
سکیں کیونکہ ان کے دور اقتدار کا آدھے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے ان کے شروع
کئے گئے پراجیکٹ بھی اختتامی مراحل میں ہیں جو اگر مکمل ہو جاتے ہیں تو
آئندہ الیکشن میں ان کی بنیاد پر ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ بات ٹریک سے پھر
ہٹ گئی میں اصل موضوع کی طرف آنا چاہوں گاکہ عزیر بلوچ کے خلاف ہماری
ایجنسیاں کافی فعال تھیں کہ کسی طرح انہیں دبئی سے گرفتار کیا جاسکے انٹر
پول کے ذریعے بھی رابطے کافی مضبوط کئے گئے عزیر بلوچ کے بہی خواہوں کو
پریشانی ہوئی کہ ایجنسیاں اب انہیں مزید ڈھیل نہیں دینا چاہتیں جلد
بدیرعزیر بلوچ ان کی گرفت میں ہو گا مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ماڈل ایان
علی کی گرفتاری بھی عزیر بلوچ کو دبئی سے عرب ریاستوں کی طرف فرار کروانے
کے سلسلہ کی ایک کڑی تھی جس میں عزیر بلوچ کے خیر خواہ کامیاب نہ ہوسکے اور
ماڈل ایان علی ڈالروں سمیت ایئرپورٹ پر دھر لی گئیں،مالی مشکلات کی وجہ سے
عزیر بلوچ کو مجبورا مزید کچھ عرصہ دبئی میں ہی قیام کرنا پڑا،10 ماہ قبل
عزیر بلوچ کی دبئی میں گرفتاری کی خبر اخبارات کی زینت بنی ،اسکی پاکستان
واپسی کیلئے ہماری ایجنسیوں کے لوگ وہاں گئے لیکن خالی ہاتھ لوٹے کہ
معاملات دبئی حکومت سے طے نہیں ہو سکے، کچھ قانونی سقم کا سہارا لیا گیا
اور اب اچانک عزیر بلوچ کو کراچی داخل ہوتے ہوئے گرفتار کر تے
دکھایاگیا،ماڈل ایان علی ڈاکٹر عاصم کے بعد عزیر بلوچ کی گرفتاری سے پیپلز
پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔عزیر بلوچ ایسا ترپ کا پتہ
ایجنسیوں کے ہاتھ لگا جس سے ہزاروں سیاسی راز اور نہ کھلنے والی سیاسی
گرہیں اپنے آپ کھلتی جائیں گی۔اہم سیاسی شخصیت نے جو اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ
کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہی تھی اور ایسی باتیں بھی کہہ ڈالیں جو کسی کو ہضم
نہیں ہو پا رہی تھی عزیر بلوچ کی پنجرے میں آتے ہی بھائی چارے کا درس دیتے
دکھائی دے رہے ہیں عزیر بلوچ نے ابتدائی راؤنڈ میں 400 قتل کا اعتراف کیا
ہے قتل ہونے والے سب ہی اہم تھے لیکن خالد شہنشاہ کا نام ایکدم دھماکے دار
تھا۔خالد شہنشاہ رحمان ملک کا ذاتی باڈی گارڈ تھا جسے بعد ازاں محترمہ بے
نظیر بھٹو کے سیکیورٹی دستہ میں شامل کر دیا گیااور محترمہ کی سیکیورٹی پر
مامور افراد میں سے وہ انتہائی معتبر اور قریب تھا،محترمہ کے جلوسوں جلسوں
کے وقت دوران تقریروہ ہمیشہ بی بی کے ساتھ سایہ کی طرح دکھائی دیتا
تھا،محترمہ کے قتل کے بعد سے وہ بلاول ہاؤس میں مقید ہو گیااور ذہنی انتشار
کا شکار رہنے لگا ڈپریشن کی وجہ سے الکحل کا استعمال مقدار سے زیادہ کرنے
لگا،مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ محترمہ کے قتل کے کرداروں میں انتہائی
اہمیت رکھتا تھا اور جیسے ہی وہ ایجنسیوں کی نظروں میں آیا عزیر بلوچ کے
ہاتھوں اسے بھی قتل کر دیا گیا جس طرح مرتضٰی بھٹو کے قتل پر یہ کہا جانے
لگا تھا کہ اس وقت پولیس کے انچارج سے پوچھا جائے کہ اسے فائرنگ کا حکم کس
نے دیا تھا تو اگلے ہی روز پولیس والا کرسی پر بیٹھا قتل کر دیا گیا باالکل
اسی طرح خالد شہنشاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی عزیر بلوچ کے ہاتھوں اسے راستہ
سے ہٹا دیا گیااور خود عزیر بلوچ دبئی آکر بیٹھ گیا۔
درج بالا سیاسی منظر نامے نے پنجاب اور سندھ کی سیاست میں سکوت طاری کر دیا
ہے عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کیلئے سوہان روح اور پنجاب میں رینجرزکی تعیناتی
کے بعد نیب کا اقدام مسلم لیگ ن کیلئے سوہان روح بنتادکھائی دے رہا ہے مسلم
لیگ ن کی فرنٹ لائن بھرپور کوشش ہے کہ پنجاب پولیس پر ہی اکتفا کیا جائے
اور رینجرز کو پنجاب کی حد تک اختیارات سے اجتناب کیا جائے کیونکہ کھڑے
پانی کے نیچے واقفان حال کو طوفان دکھائی دے رہا ہے لگتا ایسے ہے کہ ماں
دھی کے درمیان ماضی کی طرف سب کچھ غائب ہوتادکھائی دے رہا ہے نہ تو زرداری
صاحب اور انکی ٹیم اب پنجاب میں سندھ طرز کے آپریشن کی بات کر رہی ہے اور
نہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے عزیر بلوچ کی گرفتاری پر کوئی ایسا تبصرہ کیا ہے
جس سے دبئی والوں کو تکلیف پہنچے۔ایسی سیاسی حرکتیں جو صرف ذاتی مفادات کی
حد تک رہ جائیں اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوتیں،ایسے
اقدامات اور پر اسرار خاموشی مقتدر ایوانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے اور کسی
نئے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو سب کچھ اڑا اور بہا لے جاتا ہے،باقی آپ
خود سمجھ دار ہیں کہ خالد شہنشاہ کے قتل سے لیکر عزیر بلوچ کی گرفتاری تک
حالات و واقعات سے کسے نقصان اور کسے فائدہ ہے۔ |
|