"لو جہاد" کیا حقیقت کیا فسانہ
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
ہندوستان کو آزادہوئے تقریبا ایک صدی گذرنے
کو ہے، سن1947ء ہی میں پاکستان ایک خود مختار ملک بن کر وجود میں آیا، اس
وقت سے لے کر آج تک ہمارا ملک ہندوستان اپنے ہی سپوتوں کے خون سے لالہ زار
ہوتا آرہا ہے، اس ملک کی یہ حر ماں نصیبی ہی کہہ لیجیے کہ یہ اپنے روزِ
آزادی ہی سے، بلکہ اس سے پہلے ہی سے اس کی کوکھ میں ایک ایسی طاقت جنم لے
رہی تھی، جو اس کی سلامتی اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے ایک بہت بڑا
چیلینج بننے والی تھی،اسی کے نتیجہ میں بابائے قوم گاندھی جی اور آنجہانی
اندراجی گاندھی کے قتل کا معاملہ سامنے آیا۔ اس سے پہلے ملک میں جگہ جگہ
فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیکر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور دہلی کی
سرزمین پر سکھوں کا قتل عام ہوا ۔ آج بھی ملک میں جو بھی فرقہ وارانہ فساد
یا اس جیسا کوئی بھی تخریبی عمل دہرایا جاتا ہے ،تو اس کے در پردہ کسی کسی
نہ صورت میں اسی اندرونی طاقت کی زہر افشانی کا نتیجہ اور ثمرہ ہوتا ہے۔
اور طرفہ کی بات یہ ہے کہ یہ طاقت سب کام کرلیتی ہے اور اس طریقے پر کرتی
ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ان کا نیٹ ورک سسٹم اس قدر
مظبوط اور با اثر ہے کہ حکومت کو اس کا صحیح علم ہونے کے باوجود اس کے خلاف
کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکتی۔ اب کریلا نیم چڑھا یہ کہ جمہوری آئین کا سب
سے بڑاعلم بردار ملک ہندوستان اسی کی گود میں آگرا، سالِ گذشتہ مہاراشٹرا
میں اسمبلی انتخاب کے درمیان بی جے پی اور آر ایس ایس کا تنازع کا پس منظر
در اصل کچھ اورتھا، اگر اس حقیقت کی گہرائی تک جائیں تو معاملہ کچھ الگ ہی
دکھتا ہے، دراصل مودی کی ذہنیت یہ ہے کہ جس طرح بی جے پی کو انہوں نے اپنے
دسترس میں کرلیا ہوا ہے اور وہ جیسے چاہتے ہیں اورجس رخ پرپارٹی کی لگام
موڑنا چاہتے ہیں آسانی سے موڑ لیتے ہیں، انہیں اگر کچھ خوف ہے تو صرف آر
ایس ایس سے ہے، اسی لیے ان کی پوری توجہ اس طرف تھی کہ کسی طرح بھی اس کی
لگام کو اپنے قبضہ میں کرلیں اور پھر اپنی اصل شکل کے ساتھ وہ لوگوں کے
سامنے ہیرو بن کر ظاہر ہو ں اور یہی ان کا اور ان جیسی ذہنیت رکھنے والے
ہمارے سیاست دانوں کے افکار وخیالات ہیں۔
یوپی میں ضمنی انتخابات کے موقع پر پورے ملک میں بالعموم اور یوپی میں
بالخصوص " لو جہاد " کو اشو بنا کر فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دینا ان کی ہی
سازش کا نتیجہ تھا، اس سازش کی قلعی اس وقت کھلی جب خود متاثرہ لڑکی ہی نے
پولیس اسٹیشن جاکر بی جے پی کے اس لیڈر کے خلاف بیان درج کرایاجس نے متاثرہ
لڑکی اوراس کے والد کو روپیہ کی لالچ اور دھمکی دے کر یہ کام کرایا تھا، اس
نے کہا کہ انہوں نے ہمیں پچیس ہزار نقد روپیے دیے اور کہا کہ میں اپنے شوہر
کے خلاف گواہی دوں، پھر اپنے والدین کے بہکاوے آکر میں نے ایسا اقدام کیا،
بعد میں لڑکی کے والد نے بھی اس کا اقرار کیا ، صرف یہی نہیں بلکہ اس نے
اپنی لڑکی کی شادی کو سراہا اور اس کو برقرار رکھا۔
در حقیقت اگرکوئی غیرمسلم لڑکی مسلمانوں کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر
اسلام قبول کرلیتی ہے، پھر اس کے نتیجہ میں اس کی مرضی سے اس کی کسی مسلمان
سے شادی کرا دی جاتی ہے، اس کی روایت بہت پرانی ہے، یہ شروع اسلام سے ہی
چلا آتا آرہاہے، یہ ایک گونہ اس کے ساتھ خیر خواہی بھی ہے ، صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں بھی اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے
ہیں ، خود سرورکونین ﷺکی سیرت میں بھی ایک ایسا واقعہ ملتاہے کہ جب آپ ﷺ نے
اپنی اخیر عمر میں امراء وسلاطین کے پاس جو خطوط بھیجے تھے ان میں شاہ مصر
مقوقس بھی تھا، دیگر سلاطین کے بالمقابل مقوقس نے آپ ﷺ کے ایلچی کا بہت
اعزازواکرام کیا اور آپ ﷺ کے نوشتۂ مبارک کوخود پڑھا اوراس کا جواب بھی دیا
نیز آپ کے ایلچی ساتھ آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بطور ہدیہ پیش کیا،جن میں
سے ایک حضرت ماریہ قبطیہ بھی تھیں، جب آپ نے ان کو آزاد کردیا اوروہ مسلمان
ہوگئیں تو آپ ﷺ نے ان سے شادی کرلیا، انہی کے بطن مبارک سے حضرت ابراہیم
رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ لیکن غیر مسلم لڑکیوں سے ان کے اپنے مذہبی حالت
پر ہی برقرار رکھتے ہوئے شادی کا رواج بادشاہ اکبر کے زمانہ میں شروع
ہوااور غالبا اس نے جودھا سے شادی کرکے اس بدعت کی بنیاد رکھی پھر اس کا
سلسلہ دراج ہوتا رہا اور فلمی دنیا کے اداکارہ اور اداکاروں نے اس کو عروج
پر پہنچایا، ہمارے سیاست داں بھی اس سے ایک قدم پیچھے نہ رہے۔ اس کی وجہ سے
ملک میں اس باطنی اور زہریلی طاقت کو موقع ملا کہ کیوں نہ اس مسئلہ کو ایسا
رخ دیا جائے جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دیا جاسکے ، تاکہ اس کی
آڑ میں ہندؤوں کے متحدہ ؤوٹ کو تقسیم سے بچاکر اس کی طاقت کو یکجا ملاکر اس
ملک کی جمہوریت کو ختم کرکے اس کودنیائے تاریخ کے سرورق پر "ہندوراشٹر"نامزد
کردیا جائے۔ اس طاقت کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ لیجیے کہ یہ ہر کام کو جلدی
اور مذہب کا نام دیکرنہیں کرتی ہے، بلکہ یہ اس طریقے پر بھی وار کرتی ہے کہ
آپ کو یہ تک احساس نہیں ہوگا کہ یہ ملک کی یکجہتی وسالمیت کے لیے خطرہ بن
سکتا ہے یاپھر اس کی بقا کو مضبوط رکھنے کا یہ ایک مضبوط فیصلہ ہے ۔
کسی بھی مذہب یا آئین میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ عوام الناس کو بدھوا مزدور
بناکر رکھا جائے یا اس کو ایک خاص قوم کے جوتوں کا تسمہ بناکر ان کی آزادی
پر پابندی لگائی جائے۔ اسلام کا یہ کبھی مزاج نہیں رہا کہ وہ طاقت کی زور
پر کسی کو اسلام قبول کرنے پرمجبورکرے، اسلام سختی سے اس کو منع کرتا ہے ،
بلکہ اس نظریہ پر اسلام کا موقف صاف واضح ہے، ارشادِ باری ہے :"لااکراہ فی
الدین " (اسلام’ قبول کرنے یا نہ کرنے میں کسی پر‘ کوئی زور زبردستی نہیں
ہے ) ۔ چنانچہ جس مذہب کا وجود ہی سراپا خیر اور امن وسلامتی کے لیے ہو وہ
کیسے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند بنا سکتا ہے کہ وہ کسی غیر مذہبی
لڑکی کو محبت کا جھانسہ دیکر اس سے شادی رچائے، اولا تو اسلام آج کے مروج
"LOVE" یا آپسی اختلاط والے سسٹم ہی کوکنڈم کرتاہے، خواہ وہ مسلم لڑکی کے
ساتھ ہو یا غیر مسلم لڑکی کے ساتھ۔ اس کے باوجود اگر ملک میں اس قسم کا
نادر واقعہ رونما ہوجاتا ہے، تو اس کو مذہبی رنگ دیکر آپسی اختلاف وانتشار
کو بڑھاوا دینا یہ کہاں کی دانش مندی ہے اور اگر کسی طرح ایک آد اس طرح کا
واقعہ کہیں رونما ہوتا ہے، تو یہ آئین ہند کے خلاف بھی نہیں ہے، بلکہ ہمارا
قانون ہر ہندوستانی کو اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ قانون کے دائرہ میں رہ
کر اپنے پسند کی زندگی گذارے،چونکہ یہ ملک مختلف مذاہب کا سنگم ہے، اس لیے
ہماراقانون یہ بھی اجازت دیتا ہے کہ ان میں سے اگر کوئی شخص اپنی خواہش سے
اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب یا دین اختیار کرناچاہتا ہے،
تو اس کو اس کی مکمل آزادی حاصل ہے ، بلکہ اگر اس کو کسی جانب سے خطرہ ہو
تو قانونی طور پر اس کی حفاظت کے سامان پیدا کیے جائیں۔ اس کے باوجود اب
اگرکوئی طاقت یا فرقہ اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے ، یا اس کے اصول کو
بالائے طاق رکھ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو گویا وہ اس ملک کی
جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے اور اس ملک کی سالمیت کے ساتھ کھیلواڑ کرنے کے
مترادف ہے۔ اس طرح کی کوشش کرنے والے یقیناًملک اور اس کی سلامتی لیے
خطرناک ہیں، کیا اب ہمارے کوئی بھی سیاست داں ان بے گناہوں کوجواب دے سکتے
ہیں جن کو "لوجہاد" جیسے فرضی معاملے میں گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال
دیاگیاہے؟ کیا اس طرح کا اقدام ایک شخص کو اس کی آزا دی سے محروم کرنا نہیں
ہے؟ کہاں گئے ہمارے وہ سیاست داں جو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا فلک بوس نعرہ
لگاتے تھے، اس طرح کا غیر ذمہ دارنہ رویہ کیا یہی سب کا وکاس ہے ؟ اس واقعے
کے پولیس میں آنے سے پہلے ہماری ہندی اور انگلش میڈیا نے اس مسئلے کو مذہبی
رنگ دیکر خوب اچھالاتھا، لوگوں میں اس کے تیئیں خوب سنسنی خیز جملے کسے
تھے، مگر جب یہی حقیقت سامنے آئی تو وہ میڈیا جو عوام کے سامنے انصاف دلانے
کا اعلان کرتی تھی، کہاں چلی غائب ہوگئی؟در حقیقت ہمارے آج کی یہ میڈیا ان
لوگوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے ، جو انسانیت پر کم اور باطل
خیالات پر زیادہ ایمان رکھتے ہیں اور یہ وہی خبریں اور واقعات نشر کرتی ہیں
جن کو مسلم مخالف طاغوتی طاقتیں چاہتی ہیں اوراب میڈیا میں سچ کی ترجمانی
تو بس ایک خواب ہی رہ گیا ہے.... |
|