کمرہ امتحان وہ واحد جگہ ہے جہاں کوئی آپ
کو پیچھے سے اٹھا کر آگے بٹھا دے تو آپ اس "عزت افزائی" پر شدید بےعزتی
محسوس کرتے ہیں۔ سب سے اگلی قطار تو ان چند لوگوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے جو
پورا سال استاد کے علاوہ کسی کو منہ لگانا پسند نہیں کرتے اور پھر عین
امتحان والے دن مزید چاہتے ہیں کہ کوئی منہ نہ ہی لگے اس لیے آگے بیٹھ جاتے
ہیں۔ اور غلطی سے کوئی شی شی کر کے اشارہ کر دے تو فورا ہاتھ اٹھا کر کہتے
ہیں "سر یہ مجھ سے کچھ پوچھ رہا ہے" اور پھر سر جانے اور وہ معصوم جس نے
مدد کے لیے آخری تنکا اٹھایا اور وہ بھی ڈوب گیا۔ بلاشبہ ایسے پہلی قطار
میں بیٹھنے والے استاد کے نور نظر سہی مگر باقی سب کی آنکھوں میں بال کی
طرح کھٹکتے ہیں۔ خیر دفعہ کریں ہمارا ان سے کیا لینا دینا کہ سب یار دوستوں
سمیت ہمارا شمار تو اس "پچھلے محلے" میں ہوتا ہے جس میں ایک کا پرچہ چیک کر
کے استاد باقیوں کو بھی وہی نمبر دے دیتا یے کہ باہمی محبت کی جو اعلی مثال
ہم نے پرچہ دیتے وقت قائم کی ہو گی اس میں ایک نقطہ بھی مجال ہے جو کسی نے
ادھر سے ادھر کیا ہو گا ۔
ایک دفعہ تو حد ہی ہو گئی ہماری ایک پیاری سی دوست جو کبھی وقت پر پہنچ
جاتیں تو ریکارڈ خراب ہو جاتا انکا۔ سو انکی غیر حاضری میں انکا پرچہ ہم نے
لکھ کر دے دیا۔ سوچیے دو دو پرچے اور وہ بھی ایک ساتھ ایک ہی انسان کے
ہاتھوں لکھے ہوئے۔ جب نمبر آئے تو دوست کا ایک نمبر کم تھا۔ فورا سے پہلے
اس نے نعرہ احتجاج بلند کیا کہ استاد کو اس قدر زیادتی پر جواب دہ ہونا پڑے
گا۔ آخر ایک ہی انسان کا پرچہ دو جگہ اور ایک کو ایک نمبر کم۔ یہ تو انصاف
نہ ہوا۔ وہ تو یہ کہہ کر چپ کرایا کہ بھئی مفت میں اتنے نمبر بھی کافی ہی
سمجھیں۔ :
امتحان شروع ہونے سے پہلے ہی پوری جماعت میں ایک خاموش معاہدہ طے ہو جاتا
تھا۔ ۔ دنیا کی نظر میں لائق اور قابل اور ہمارے نزدیک خود غرض قسم کے وہ
اسٹوڈنٹس جو ایسے موقع پر مرتے کو پانی نہ پوچھیں انہیں انتہائی احترام سے
اس معاہدے کے تحت آگے "پھینک" دیا جاتا کہ نہ وہ ہمیں چھیڑیں گے نہ ہم
انہیں۔ اور ان سے چھٹکارا پانے کے بعد باقی سب اپنی اپنی جگہ طے کرتے۔ جو
کہ کبھی کبھی استاد کی مہربانی سے ردوبدل کا شکار ہو کر کلاس کی بڑی تعداد
کے فیل ہونے کا باعث بھی بنتی تھی۔ لیکن عموما خوش قسمتی سے رول نمبر
سیٹینگ ہی کچھ یوں ہمارے حق میں تھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے ہمشیہ ہی آگے
بیٹھنے کی ذلالت سے بچائے رکھا :
پیپر شروع ہوتے ہی ہمارے نازک کاندھوں پر دوستی کا بھاری بوجھ آن پڑتا۔
ہمیں سوالنامہ دیکھتے ہی اندازہ ہو جاتا کہ ہم سے پیچھے بیٹھی سہیلی کو اس
میں سے کیا نہیں آتا۔ سو سب سے پہلے ہم سوالات کے پیچھے جوابات کے ہنٹس لکھ
کر پین نیچے پھینک کر اٹھانے کے بہانے محترمہ سے سوال نامہ تبدیل کر لیتے.
ویسے نقل کرنا چونکہ ایسی اچھی بات نہیں تو ساتھ ہی بتائے دیتے ہیں کہ ان
محترمہ نے آج تک کچھ ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جسے تاریخ میں کسی بھی
قسم کے حروف لکھنے کے لائق سمجھا جا سکے :
ہماری قوم کی لائقی اور رٹے کا تو یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ تو پوری کلاس کو
"اوپن بک پیپر" دیا گیا اور ایک بھی سٹوڈنٹ پاس نہیں ہوا۔
مجھے تو وہ دن نہیں بھولتا جب ہم پیپر میں وہی پڑھ کر گئے جو نصاب کا حصہ
ہی نہ تھا۔ ہم تو کچھ تکے مارنے کے قابل بھی نہ رہے اور حد تو یہ ہے کہ پاس
بھی ہو گئے۔ ۔ ;-) اب اللہ جانے ہماری پرچہ خود حل کرنے کی قابلیت ہی ایسی
بھائی استاد کو یا پھر انہوں نے نیند میں ہی پرچہ چیک کر دیا۔
اکثر تو یہ بھی ہوا یہ کہ کسی دوست کے گھر پڑھائی کے لیے گئے اور باقی سب
پاس اور پڑھانے والا ہی فیل ہوا سب میں۔ اس میں بھی شاید قصور ہمارے
امتحانی نظام سے زیادہ اس دوست ہی کا ہوا کہ سارا علم ہم پر ہی صرف کر دیا
اوراپنے پرچے کے لیے کچھ بچا کر نہ رکھا۔
ایک پرچے میں استاد نے کہا صرف اسی کو نمبر ملیں گے جو کام کی اور کم سے کم
بات لکھے گا۔ ۔ اس میں بھی پانچ نمبر اضافی لکھنے کی وجہ سے کٹ گئے ہمارے
;-) اب خود ہی بتائیے خواتین کے ساتھ ایسا مذاق بھلا اچھی بات ہے کیا۔ ؟
ایک سہیلی کا ہیر اسٹائل باقاعدہ ایسا تھا کہ بال آگے آنکھوں پر ڈالے رکھتی
تھی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ دیکھ کہاں رہی ہے اور اسی بہانے " کہیں پہ
نگاہیں کہیں پہ نشانہ لگا لیتی تھی" :
بہرحال بات جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ باہمی نقل وہ واحد ذریعہ ہے جس
سے دوست اور دشمن کی "دوست وہ جو ضرورت میں کام آئے" والے محاورے کے تحت
عین موقع پر ہی پہچان ہو جاتی ہے۔ اکثر سارا سال آپ کے ساتھ کینٹین میں چپک
چپک کر بیٹھنے والے حضرات دوران امتحان آپ کے ساتھ رشتہ دار والا سلوک کرتے
ہیں جو عین خوشی کے موقع پر فساد ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور آپ منہ ہی
دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ آخر انہیں اسوقت لاتعلقی کی کیا سوجھی۔ یہ فریضہ تو
کچھ عرصہ پہلے یا بعد میں بھی ادا ہو سکتا تھا۔ لیکن ظالم نے تب ڈنگ مارا
کہ "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت "
نقل کرنے کے ایسے ایسے طریقے کہ کوئی پرچی بنا کر لا رہا ہے اور کوئی ہیڈ
فون کانوں میں ڈالے جیب میں موبائل چھپا کر نقل کر رہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں
کہ نقل کیلیے بھی عقل چاہیے۔ ہماری کلاس میں ایک محترمہ تو اتنی عقلمند
نکلیں کہ اوپر نام بھی نقل کر کے وہی لکھ دیا :-
ملٹیپل چوائس (MCQs)کی نقل کیلیے تو طے تھا کہ جس کو جواب آتا ہو گا وہ
انگڑائی لینے کے بہانے پانچوں آپشنز میں سے اتنی انگلیاں کھڑا کرے گا جو
جواب ہو گا۔
ہمارے طلبا اس قدر ذہین اور ٹیلینٹڈ ہیں کہ جتنی محنت اور ذہانت سے وہ نقل
کے طریقے ایجاد کرتے ہیں اس سے آدھی محنت بھی پڑھائی اور سلیبس کو سمجھنے
پر خرچ کریں تو انہیں اور ملک و قوم دونوں کو کافی افاقہ ہو۔
ہمارا تعلیمی نظام نقل پر سزا تو دیتا ہے مگر ایسے اقدامات تقریبا ناپید
ہیں جس سے طالب علم نقل کے بجائے عقل سے کام لے۔ سوالات ہی کچھ ایسے ترتیب
دیے جاتے ہیں کہ رٹے رٹائے جوابات سے کام چل جائے اور انفرادی ذہنی قابلیت
کا اندازہ رٹے ہوئے جوابات سے لگایا جاتا ہے جو کہ ایک طرح سے زیادتی یے.
ایسے سوالات امتحان کا حصہ ہونے چاہیے جن میں ہر فرد کا اپنا ذاتی جواب
اسکی قابلیت پرکھنے کے لیے کافی ہو۔ فی زمانہ تو بارہویں کے بعد اسٹوڈنٹ
سوچتا ہے کہ اب کیا کرے اور اس کے بعد میڈیکل یا انجینرنگ کی سیلیکشن بعد
باقی تمام نکمے سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک اچھا پینٹر اور ایک اچھا ڈاکٹر
دونوں علحدہ قابل شخصیات ہیں اور دونوں ہی شعبے ایمانداری سے محنت اور
قابلیت مانگتے ہیں مگر ہمارے ہاں تاثر ہے کہ لائق انسان ڈاکٹر ہے اور نکما
پینٹر۔
دسویں بارہویں تک ہر مضمون کی کچھڑی پکانے کی بجائے اوائل عمری سے ہی شوق
اور قابلیت جانچنے کی پیمانے بنائیں جائیں۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ ہمارے
پاس ماسٹرز تک ہی ہر مضمون کے اسپیشیلیسٹس (specialists)تیار ہوں گے ۔ ورنہ
ماں باپ بھاری فیس دے کر ماسٹرز تک پہنچا تو دیتے ہیں مگر نظام تعلیم کچھ
ایسا بنایا گیا ہے کہ ماسٹرز کو اسپیشلائزیشن کے لیے ابتدائی ڈگری سمجھا
جاتا ہے۔
باقی طالب علموں کو مشورہ ہے کہ ہنسی مذاق اور نقل اپنی جگہ مگر جو آپ سیکھ
رہے ہیں وہ خود آپ کے لیے فائدہ مند ہے اور جہاں آپ نے نقل سے کام چلا لیا
وہاں آپ نے سیکھنے کا عمل ادھورا چھوڑ دیا۔ |