ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہئے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

قرآن کریم (سورۃ المائدہ آیت ۸۹) واحادیث شریفہ کی روشنی میں قسم کھانے سے متعلق چند ضروری واہم مسائل پیش خدمت ہیں :
٭ اﷲ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، مثلاً تیری قسم یا تیرے سر کی قسم۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص قسم کھانا ہی چاہے تواسے چاہئے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کے نام ہی کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔ (بخاری ومسلم) نیز حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی ، گویا اس نے کفر وشرک کیا۔ (ترمذی، ابوداود) لہذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہئے ، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اﷲ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔

٭ آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کو یمین منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے قسم کھائی کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا، پھر وہ کام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے۔ قسم کا کفارہ یہ ہے: دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔ ہاں اگر کسی شخص نے ناجائز امر مثلاً نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی تو اس کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، لہذا اس کو نماز پڑھنی ہی ہوگی البتہ کوئی کفارہ اس کے ذمہ نہیں ہوگا۔

٭ کسی گزشتہ واقعہ کو اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے اور حقیقت میں وہ غلط ہو، مثلاً کسی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص آگیا ہے، اس پر اعتماد کرکے اس نے قسم کھالی، پھر معلوم ہوا کہ وہ نہیں آیا ہے۔ اسی طرح بلا قصد زبان سے قسم کے الفاظ نکل جائیں جیسے لا واﷲ، بلی واﷲ، قسم خدا کی۔ اس طرح کی قسم کھانے کو یمین لغو کہا جاتا ہے۔ ایسی قسم کھانا بڑا گناہ تو نہیں ہے، البتہ آداب گفتگو کے خلاف ہے لہذا اس طرح کی قسم کھانے سے بھی حتی الامکان بچنا چاہئے۔

جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے:
جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے شرک، والدین کی نافرمانی اور کسی کا ناحق قتل کرنے کی طرح جھوٹی قسم کھانے کو بھی بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ (صحیح بخاری) مثلاً کسی شخص نے کوئی کام کرلیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے ، اور پھر جان بوجھ کر قسم کھالے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ اس طرح کی جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے اور دنیا وآخرت میں وبال کا سبب ہے۔ ایسے شخص کے لئے اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔ اگر یہ جھوٹی قسم قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کرکھائی جائے تو اس کاگناہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ جھوٹی قسم انسان کو گناہ اور وبال میں غرق کردینے والی ہے اس لئے اس قسم کو یمین غموس کہا جاتا ہے۔ یمین کے معنی قسم اور غموس کے معنی ڈبو دینے والے کے ہیں، یعنی وہ قسم جو انسان کو ہلاک کرنے والی ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ تو نہیں ہے، لیکن گناہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ سے معافی اور توبہ واستغفار ضروری ہے۔ البتہ حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایا ہے کہ جھوٹی قسم پر توبہ واستغفار کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔

اگر کسی شخص نے جھوٹی قسم کھالی، پھر وہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرتا ہے اور اﷲ کے سامنے اپنے کئے ہوئے گناہ پر نادم بھی ہے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی کرتا ہے تو اس کی آخرت میں کوئی پکڑ نہیں ہوگی ان شاء اﷲ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرے تو اﷲ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردیتا ہے یہاں تک کہ شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے وہ بھی دنیا میں معافی مانگنے پر معاف کردیا جاتا ہے۔ سورۃ الزمر آیت نمبر ۵۳ میں فرمان الٰہی ہے: کہہ دو کہ : " ا ے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے(یعنی گناہ کر رکھے ہیں) اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ یقین جانواﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے" اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر ۴۸ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: بیشک اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ آخرت میں اﷲ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرے گا یا نہیں ، ہمیں معلوم نہیں، لہٰذا ہمیں دنیا میں رہ کر تمام گناہوں سے بچنا چاہئے کہ نہ معلوم کونسا گناہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے۔ جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا یقینا گناہ کبیرہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص صرف اور صرف دو فریق کو جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کے لئے جھوٹی قسم کھاتاہے اور پھر اﷲ سے معافی بھی مانگتا ہے تو اس کی آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی ان شاء اﷲ۔

خلاصۂ کلام: ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہئے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائیں۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے، حضور اکرم ﷺ نے چار بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے، یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 25 Articles with 33292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.