حاکم دُور جمہورکے ہوں یا حاکم مطلق العنان
ہوں ہر دور میں ایک نظام کو ترتیب دینا ہی ہوتا ہے اور اس نظام کا ایک اہم
حصہ انصاف ہوتا ہے مگر جہاں عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترتیب کو تدبیر سے
بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں نہ تو توازن برقرار رہتا ہے اورنہ ہی
انصاف ملنے کی توقع باقی رہتی ہے ۔ سابقہ کئی حکومتوں کے اس روئیے نے ملک
کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اب موجودہ جمہوری حکومت نے بھی ہر
شعبے میں تقریباً یہ ہی حکمت عملی کو روا رکھا ہو ا ہے ،تو پھر ہم ملک میں
توازن اور انصاف ملنے کی توقع کس سے رکھیں ۔
یکم فروری کو پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر پانچ روپے کمی اور باقی پیٹرولیم
مصنوعات میں بھی معمولی کمی کی منظوری جمہوری وزیر اعظم نے دی جبکہ اوگرا
نے عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پرسات روپے سے لیکر ساڑھے گیارہ روپے
تک کی کمی کی ہے نیز یہ کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات میں گزشتہ
برس اتنی کمی واقع ہوئی ہے کہ تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کی معیشت کا
بٹا بیٹھ چکا ہے لیکن ہمارے جمہوری حکومت کے سیانے وزیر خزانہ نے ترتیب کو
تدبیر سے بگاڑ کر عوام کو انصاف نہ دینے کا تہیہ کر رکھا ہے موصوف نے
پیٹرول میں پانچ روپے کا سکہ کم تو کیا ہے لیکن دوسری جانب پیٹرولیم
مصنوعات کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ موصوف کو اپنے اور انکے دیگر
اکابرین کے شاہا نہ اخراجات کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے ۔میرا سوال یہ
نہیں ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں ماہ فروری میں صرف پانچ روپے کم کیوں کئے
گئے میرا سوال یہ ہے کہ گزشتہ برس سے کئی مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی
واقع ہوئی ہے لیکن عوام کو اسکے ثمرات سے تا حال محروم کیوں رکھا جارہا
ہے؟جوں ہی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا تھا تو عوام کی اشیائے ضرور یات
خواہ وہ تاجر کے گودام میں پڑے چاول،آٹے،شکر کی بوریا ں ہوں یا ٹرانسپورٹ
کا کرایہ ہو ،سبزی،گوشت کی نقل و حمل ہو ،بچوں کے پینے کے لئے خشک دودھ ہو
ں غرضیکہ ہر اشیاء ضروریات میں اضافہ کرنے میں عوام کے ساتھ بہیمانہ سلوک
کیا جاتا رہا ہے عوام کی قوت خرید اسکی استطاعت سے باہر نکل چکی تھی پھر
مرے ہوئے پہ سو درے کے مصداق الیکٹرک ،ٹیلی فون،گیس کے بلوں میں ضرورت سے
زیادہ ٹیکسز کی بھر مار نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا ا ور اب جبکہ
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی دفعہ کمی کی گئی تو عوام توقع کر لیتے
تھے کہ مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو بھی لگام د یا جائے گا لیکن افسوس عوام
کے ساتھ وہی بہیمانہ سلوک جاری و ساری ہے اور یہ سلوک وہ لوگ کر رہے ہیں جو
اپنے آپ کو منتخب وزیر کہتے ہیں اور واقعی یہ وزیرکسی مطلق العنان حاکم کا
حصہ نہیں ہیں۔ جناب وزیر خزانہ صاحب من مانی کا عنصر اجتماعی مفادات کا
دشمن ہے ثمرات حاصل کرنے کا حق صرف آپکو یاآپکے اکابرین کو ہی نہیں بلکہ یہ
حق اُن کو بھی حا صل ہونا چاہئے جن کی وجہ سے آج آپ ایک اہم فرائض منصبی کا
حصہ ہیں برائے مہربانی آپ نظامَِ ترتیب کو اپنی تدبیر سے نہ بگاڑیں ورنہ
ملک میں نہ تو توازن برقرار رہے گااور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں
گے ۔ |