تھانہ کروڑوں میں بِکتا ہے!

 پولیس کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ’’ ایک ایک تھانہ کروڑوں میں بکتا ہے، پھر لوگ پیسے پورے کرتے ہیں ․․․‘‘۔ پولیس کا محکمہ کرپشن کے لحاظ سے اس قدر بدنام ہے کہ کوئی بھی سروے ہو، کرپشن میں سرِ فہرست اسی کا نام آئے گا، مستقل طور پر خود کو ایک اہم مقام پر قائم رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے بہت سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ یہ کام کرنا پڑتا ہے، ہر اونچ نیچ پر دھیان دینا پڑتا ہے، ہر خامی اور خوبی پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ اس پورے بندوبست میں چھوٹی سی غفلت بھی اپنے مقام سے گرا سکتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ پولیس پر کرپشن کے الزامات لگانا ایک فیشن ہے، جو اٹھتا ہے وہ بغیر ثبوت کے پولیس کو کرپٹ قرار دے دیتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک زیادتی دکھائی دیتی ہے، کہ سنی سنائی باتوں کو حقیقت تسلیم کرکے کسی کو غلط کہہ دیا جائے، حق یہ بنتا ہے کہ پہلے ثبوت ہاتھ میں ہوں پھر بات کی جائے۔ مگر کیا کیجئے کہ پولیس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سوائے کچھ حکومتی عہدیداروں اور چند سرکاری یا پولیس افسروں کے، کوئی طبقہ بھی پولیس کے لئے کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خود حکمران بھی کہ پولیس جن کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت چوکس رہتی ہے، اور ان کی سخت سکیورٹی کا بندوبست کرتی ہے، وہ بھی پولیس پر برسنے اور سرزنش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ خود بڑے پولیس آفیسر بھی اپنی ہی پولیس کے خلاف بولتے اور ایکشن لیتے رہتے ہیں۔ محکمہ میں صاحبانِ کردار آٹے میں نمک کے برابر ہی ہونگے۔

بات ثبوت کی ہورہی تھی مگر پولیس کا محکمہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں پوری قوم یکسو اور مطمئن ہوکر یہ سوچ رکھتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں نمبر ایک محکمہ پولیس ہی ہے۔ آوازِ خلق کو نقارہ خدا جاننے کے فارمولے کو تصور میں رکھا جائے تو یہاں یہ فارمولا پورے آب وتاب کے ساتھ عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی اکثر اوقات پولیس کے بارے میں شکایات منظر پر آتی رہتی ہیں اور عدالتیں معاملات میں ملوث پولیس افسران کی سرزنش کرتی رہتی ہیں۔ مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس افسران جب اپنے ماتحتوں کے کئے کی سزا بھگتنے عدالت جاتے ہیں تو اس کے بعد بھی پولیس میں اصلاح کے عناصر دکھائی نہیں دیتے، اگر کسی کیس میں کسی معزز جج نے کسی پولیس افسر کو ڈانٹ پلائی یا کوئی سخت حکم دیا ، یا آئندہ کے لئے کوئی وارننگ دی تو اگلے دنوں میں پھر وہی پولیس افسر اسی قسم کے کسی اور مقدمے میں کسی دوسرے جج کے روبرو پیش ہوتے ہیں، وہ بے عزتی کو کچھ نہیں جانتے۔ بلکہ عدالت سے وہ اپنے ذہن میں مدعی کے خلاف مزید انتقام بھر کر آتے ہیں، اور باہر جاکر کسی اور طریقے سے یا کوئی دوسرا حربہ استعمال کرتے ہوئے، مدعی کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے پولیس کے عمومی رویوں کی بات نہیں کی، بلکہ ایک خاص صفت کا ذکر کیا ہے، کہ سب سے اہم صفت اور خوبی یہی پائی جاتی ہے اور اسی کی بنا پر پولیس کرپشن میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ وہ ہے رشوت ستانی۔ پولیس جہاں رشوت لیتی ہے، وہاں وہ رشوت دیتی بھی ہے، بقول چیف جسٹس ایک ایک تھانہ کروڑوں میں بکتا ہے، یہ بات سو فیصد درست ہے، یقینا پولیس میں چند افسران ایسے بھی ہونگے جو اپنی تعیناتی کے لئے خرچ نہیں کرتے، اسی لئے ایسے لوگوں کو ’کھُڈے لائن‘ لگا دیا جاتا ہے، جو لوگ ہاتھ پاؤں مارنے والے ہیں، وہ کھڈے لائن کو سزا گردانتے ہیں، اس لئے وہ ’اوپر‘ لاکھوں روپے دے کر تعینات ہوتے ہیں اور فطری طور پر اس رقم سے کئی گنا زیادہ پوری کرتے ہیں، اگر انہوں نے روپے نہ کمانے ہوں اور دیانت داری سے کام کرنا ہو، تو انہیں تعیناتی کے لئے رشوت دینے کی کیا ضرورت ہے، وہ تو جہاں بھی حکومت بھیج دے چلے جانا چاہیے۔ پولیس افسر یا اہلکار کسی تھانے میں تبادلے کے لئے ، یا کسی ’منافع بخش‘ مقام کے لئے اپنا تبادلہ کرانے والے کو پیسے دیتا ہے تو رشوت لینے والے بھی یا تو حکومت میں ہوتے ہیں یا پھر اعلیٰ افسر۔ دوسری طرف پیسے لگا کر پورے کرنے والا کاروبار صرف تھانوں میں ہی نہیں ہوتا، بلکہ تمام منافع بخش سرکاری اداروں میں یہی کام ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کاروبار میں خسارہ کے امکانات صفر فیصد ہیں، اسی لئے یہ کاروبار ترقی کے لحاظ سے بامِ عروج پر ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472719 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.