جے این یوتنازعہ: صیا د آنے والا ہے جال میں !

ہندوستانی زبانوں کی مرکز جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے جس طرح ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے ، اس میں دور تک سچائی نظر نہیں آتی ۔فی الوقت جس معاملہ کو بنیاد پر اس یونیورسٹی کی شبیہ مسخ کی گئی ، اس کا بھی خلاصہ بس ہوا چاہتا ہے ۔ اس خلاصہ کے بعد صیاد خود جال میں پھنستے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ الگ بات ہوگی کہ بزعم خود ملک کے وفادار اس جال کو کترنے کی لاکھ جتن کریں گے اور اپنے دفاع کا وہ گھنونا کھیل بھی کھیلیں گے ، جس سے نہ صرف ملکی آئین وقوانین کے ساتھ مزاق ہوگا، بلکہ عالمی سطح پر امن کے دشمنوں کا چہرہ بھی مزید مکروہ صورت میں نمودار ہوگا۔

یوں تو جے این یو آرایس ایس کی نگاہ میں ہمیشہ مبغوض رہی ہے ، تاہم جب سے مرکز میں آرایس ایس نواز سرکار قائم ہوئی ، تب سے اس نفرت کا اظہار گاہے ماہے بڑے گھناؤنے انداز میں ہونے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا نے بھی اس معاملہ میں مرکزی حکومت سے زبردست وفاداری نبھائی ہے۔ افضل گرو کی پھانسی کی برسی پر منعقد ہونے والے جس حالیہ پروگرام کے پیچھے مکمل طور پر منظم طریقے سے جے این یو کی بے باک اور سیکولر شبیہ کو مسخ کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے ، وہ انتہائی شرمناک ہے۔اس ایشو پر جاری ہنگامہ آرائی کے پیچھے ہونے والے کھیل پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ یہاں تک جب میڈیا اہلکاروں سے جے این یو کیمپس اور مباحثہ اسٹیڈیوں میں سچی بات کی جانے کی کوشش کی گئی تو ، وہ بھی اس طرح بدکے کہ گویا جے این کی حقیقی کہانی سن لینا بھی حکومت اور ملک مخالف سرگرمی ہے۔افضل گرو پھانسی معاملہ میں عدالتی نقطہ ٔ نظر کتنا جانبدار رہاہے یا پھراس پرکتنے اشکالات ہوسکتے ہیں ، ان سب باتوں کوکبھی اور کے لیے اٹھا رکھئے ۔ بس یہاں چندبنیادی سوالات کیے جاتے ہیں ۔ اول،افضل گرو کی پھانسی سے متعلق جے این یو کیمپس میں یہ کوئی پہلا پروگرام نہیں تھا۔اس لیے نیے وائس چانسلر ایم راکیش کمار نے بھی اس برس افضل کی برسی پر پروگرام منعقد کرنے کی اجازت دی ۔ پھر عین وقت یہ پروگرام نہ کرنے کا فرمان جاری ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پروگرام نہ کرنے کا فرمان جاری کرنے میں ، کن عوامل کی کارفرمائی ہے ؟اگر ملک میں آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہی جرم تھا تو پھر وی سی نے اس کی اجازت کیوں دی تھی ؟ اجازت دینے کے بعد ، اجازت واپسی کافرمان ، کس سے اشارہ پر جاری ہوا؟دوسرا سوال یہ ہے کہ گذشتہ سال بھی جے این یو میں طلبا نے اس معاملہ پربات چیت کی تھی ، لیکن اس وقت کوئی ہنگامہ نہیں ہواتھا۔ چنانچہ جاری ہنگامہ آرائی کو کیا منظم نہیں کہا جاسکتا ہے کہ جے این یو کی شبیہ مسخ کرنے کوشش کی جارہی ہے ؟آرایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی کی ہنگامہ آرائی اور میڈیا اہلکاروں کی حقیقت نہ سننے کی روش سے بھی یہ صاف ہوجاتا ہے کہ سب کچھ منظم ہورہا ہے۔مرکزی حکومت کو سبرامنیم سوامی کو جے این یوکا وائس چانسلر بنانے میں جو ناکامی ملی، اس کا بھڑاس کچھ طرح نکالا گیا ۔ نیوز چینلوں پر جاری مباحثوں میں آرایس ایس نواز لیڈران صرف یہی راگ الاپتے رہے کہ ملک مخالف سرگرمیوں پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے ہیں اور کھلے لفظوں میں اے بی وی پی کو شہہ دیتے رہے ۔ لیکن مباحثہ میں کئی ایک دانشوروں نے حقیقت حال سے واقف ہونے کا مطالبہ کیا تو انھیں یکسر نظر انداز کردیا گیا اور جس خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا ، وہ تواب مکمل طورپر سامنے آرہا ہے کہ ہندوستان کی مقدس سرزمین پر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے والے وہ طلبا نہیں تھے، جن کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا گیا ۔ بلکہ بزعم خود وفادارِ ملک کے ڈھنڈھورچی ہی بڑی شدومد سے ایسا نعرہ لگا رہے تھے ۔ سوشل میڈیاپر اب ایسے لوگوں کی ویڈیووائرل ہورہی ہے کہ جومنظم طریقے سے چند مخصوص طلبا سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ جوڑرہے تھے ، ان کا ستارہ حقائق کے مدنظر گردش میں نظر آرہا ہے۔

اس ویڈیوکے سامنے آنے سے دوباتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں ۔ اول ، یہ کہ جے این یو کے بیباک کلچر سے مزکری حکومت کو خطرہ ہے کہ وہ اپنے ہر فیصلہ کو بآسانی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی ۔ اس لیے یہاں کی بیباکی کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس بیباکی کے ختم ہوتے ہی آرایس ایس نواز خیموں کا یہاں بھی قبضہ ہوجائے گا، تاکہ وہ منمانے طریقے سے جو چاہے کرے ۔ منظم طریقے سے جے این یو کی شبیہ مسخ کرنے والے گروپ کی ہنگامہ آرائی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں ملک کی سالمیت اور سیکولرزم کی فضا ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی ہے۔ ملک کو قانون کا پاسدار بنانے اور ملک سے محبت کرنے والا ہر فرد مجرم ہے ۔دوم، کشمیری طلبا کو منصوبہ بند طریقے سے ٹارگیٹ کرنے والی بھی ذہنیت آشکار ہوگئی ۔ جے این یو میں پائے جانے والے صاف افراد اور ملک کے دانشوروں نے بھی مباحثوں میں باربارکہا کہ ملک میں مخالف سرگرمیوں سے وابستہ طلبا کے خلاف کاررائی ہو ۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائے ۔لیکن حقیت سے دوری بناکر مباحثے چلتے رہے ۔غداروطن کی ڈگریاں تقسیم ہوتی رہی ۔لیکن اب یہ سوال ہوتا ہے کہ وائرل ہونی والی ویڈیو میں اے بی وی پی کے جو کارکن ملک مخالف نعرہ لگارہے ہیں ، ان کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟تین دن قبل وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بہت سخت بیان دیتے ہوئے ملک کو غداروں سے پاک کرنے کاعندہ ظاہر کیا تھا، کیا وہ اب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والوں کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے۔
 
اگر سیاسی پس منظر میں ذرا سی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ سوال ہوگا کہ جس پی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی چپکتی ہوئی نظر آرہی ہے، اس کا جوازکیا ہے ؟افضل گرو کے معاملہ میں بی جے پی کا جو موقف ہے ، کیاوہی موقف پی ڈی پی کا بھی ہے ؟ اگر نہیں تو، کیسا دہرہ کردار ہے کہ افضل گرو کی پھانسی کو غلط تسلیم کرنے والی پی ڈی ، بی جے پی کی نظر میں محبوب رہے اور کشمیری مبغوض ؟اکالی دل کے نظریات سے بی جے پی کو اتفاق نہیں ، تاہم حکومت سازی میں ساتھ ساتھ ، کیسا تضا دہے یہ؟ جے این کے معاملہ میں کشمیریوں کو جس طرح مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ، اس کے متعلق پی ڈی پی کے لیڈران کو حکومت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ کشمیر طلبا کو ہر جگہ ہمیشہ جذبات پر قابو رکھنا چاہئے ۔

جے این میں متواتر کانگریس نائب صدر سمیت دیگر لیڈروں کی آمد ورفت تو سراسر سیاسی ہے ، اس لیے ان کے بیانات اورکردار سے قطع نظر یہ کہنا ضروری ہے کہ ان لیڈروں کے ساتھ اے بی وی پی کارکنان جے این یو کیمپس میں جس طرح بداخلاقی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، اس کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ یہاں آنے والے چاہے ، جس فکرونظر کے ماننے والے ہوں ،ہمارے مہمان ہیں۔ اس لیے احترام ضروری ہے ، مگر واقعہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے والوں کا کھیل مزہ بھی پولیس تماشائی بنی لیتی رہتی ہے ۔ جے این یو تاریخ کا یہ بھی سیاہ باب ہے کہ منظم طریقے سے’ پاکستان زندہ باد ‘کا نعرہ لگانے والے طلبا جے این یو انتظامیہ کو مطلع کیے بغیر ہی پولس کی معاون بنتے جارہے ہیں ۔ پتا نہیں انھیں حکومت کی طرف سے تعلیم کے بجائے جاسوسی پر مامور کیا گیا ہے یاپھر جے این یو انتظامیہ کی سانتھ گانٹھ چل رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پولس کی آمد کی اطلاع نہ جے این یو پرسیڈینٹ کو ہوتی ہے اور نہ ہی ہاسٹل انتظامیہ ۔یہی وجہ ہے کہ منمانے طریقے سے بے قصور طلبا کی رفتاری عمل میں آرہی ہے اور جاسوسی کرنے والے سینہ پھلانے لگے ہیں ۔ اب جب کہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں تو حوالات میں بند جانباز بے قصور طلبا نکلیں گے ہی، لیکن جال میں پھنسے والے صیادوں کا بھی کرشمہ دیکھنا باقی ہے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92303 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More