بی جے پی کاحال کچھ اس طرح ہوگیاہے یااس
طرح خودہی اس نے کرلیاہے کہ نہ تواپنے ہی اس سے خوش ہیں ،نہ اتحادی جماعتیں
۔ اپوزیشن سے سخت ٹکراسے مل رہی ہے،پارلیمنٹ کاپوراکاپوراسیشن ہنگامہ کی
نذرہوجاتاہے۔گرچہ یہ بھی’ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے‘۔بی جے پی نے اپوزیشن
کارول نبھاتے ہوئے نعرہ لگایاتھاکہ’ استعفیٰ نہیں توسنسدنہیں‘۔اب وزیراعظم
انتخابی ریلیوں میں یہ بتارہے ہیں کہ کانگریس پارلیمنٹ چلنے نہیں دے رہی
ہے۔گویاکہ مودی جی ملک کی ترقی کیلئے بے چین ہیں لیکن گاندھی پریواران کے
منصوبے کے آڑے آرہاہے۔اگربی جے پی کوترقیاتی ایجنڈے سے کوئی غرض ہوتی
توملزم وزراء کوبرطرف کرتی،ان گرگوں پرلگام لگاتی جنہوں نے ملک کوبدنام ہی
نہیں کیابلکہ وہ ترقیاتی ایجنڈے سے عوام کی توجہ ہٹانے کی خدمت انجام دے
رہے ہیں۔ اصل میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ توان کے اپنے لیڈران ہیں۔خودحکومت
کی روش بھی کچھ ایسی ہے کہ اس سے ترقی کی امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں
بلکہ فرقہ پرستی کے فروغ کی جتنی حدیں ہوسکتی ہیں،تعلیمی بھگواکرن سے لے
کرسماجی اورمعاشرتی بھگوان کرن ،ساری حسرتیں باقی تین برسوں میں ہی نکال لی
جائیں گی۔
اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ حزب اختلاف کے نشانہ پرتوہے ہی ،ملک بھی ناراض
ہے۔غریب عوام سے لے کرچھوٹے تاجر،کمپنیاں سب شکوے کررہی ہیں۔کل تک ملک کے
جس اکثریتی طبقہ کوبڑی امیدیں وابستہ مودی سرکارسے وابستہ تھیں اورگویاکہ
مودی جی کے آنے کے بعدوکاس کی گنگابہے گی،وہ سب ممکن ہے کہ سردھن رہے ہوں
گے۔ویسے بھی ہمیں اس کاکوئی شکوہ نہیں ہے ،ہم تویہ دن دیکھنے کیلئے تیارہی
تھے کہ ملک کے اتحاد،رواداری اوریکجہتی کی فضاکومکدرکیاجائے گا،تعلیمی
پالیسی سے لے کرہرمحاذپرفرقہ پرستی کازہرگھولنے کی کوشش کی جائے گی، چنانچہ
ایساہو بھی رہاہے،سروہ پیٹیں جنہوں نے ووٹ دے کران لوگوں کے ہاتھوں میں
اقتدارسونپ دیاجنہیں سوائے ہندتوراشٹریہ کے اورکچھ نہیں نظرآتا،مہنگائی نے
عام آدمی کی کمرتوڑرکھی ہے ۔سیکولرزم ،جمہوریت اوررنگارنگی ان کی ڈکشنری سے
باہرہیں،انہیں بس ایک ہی پاٹھ یادہے۔
چنانچہ دہلی اوربہارمیں ووٹروں نے اس کے ازالہ کی کوشش بھی کی۔بی جے پی کے
کئی سنیئرلیڈروں کے باغیانہ تیورصاف بتاتے ہیں کہ پارٹی میں سب کچھ خیریت
نہیں ہے،صرف چندہاتھوں میں اقتدارنے انہیں مایوس کیاہے ،’اولڈایج ہوم ‘کے
مکینوں کے باغیانہ سرسے بی جے پی پریشان ہوتی نظرآئی ہے ۔اگر بنگال،آسام
اورپنجاب میں وہی ہوگیاجوبہاراوردہلی میں ہواتویہ آوازاورمضبوط ہوگی
اوراگریہ یوپی میں بھی ہوگیاتوپارٹی اورڈکٹیٹرقیادت کیلئے 2015کی
طرح2016اور2017بھی ڈراؤناخواب ثابت ہوں گے۔پارٹی کے علاوہ اتحادی جماعتیں،
چندلوگوں کے آمرانہ رویئے سے ناراض ہیں۔شیوسیناتوکھل کروزیراعظم سے چبھتے
سوال کرتی رہی ہے۔چنانچہ آج ہی اتحادی جماعتوں نے سخت پیغام امت شاہ
کودیاہے ۔اکالی دل نے کہا ہے کہ ہمیں ہلکے میں نہ لیں،ہمارے ساتھ ویسا ہی
سلوک کریں جیسا واجپئی کرتے تھے۔واضح ہوکہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے اندر
بہتر تال میل کیلئے اتحادیوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی اوربی جے پی کو’بڑابھائی
جیسا ‘بتایاتھالیکن الٹے ہی ’بڑے بھائی‘کوچھوٹے بھائیوں نے اپنی حق تلفی
پرسخت سست سنادیا۔بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی شیو سینا نے کہا کہ بی جے
پی اپنے ساتھیوں کو اہمیت نہیں دے رہی ہے جبکہ چندر بابو نائیڈو نے کہا کہ
بی جے پی کو اپنی شراکت کو مضبوط کرنے کی سمت میں کام کرنا چاہئے،پنجاب میں
اتحادی اکالی دل نے بھی این ڈی اے کے اندر بہتر کوآرڈینیشن اورتال میل کی
کمی کااعتراف کرتے ہوئے بی جے پی سے اپنی ریاستی یونٹ کو قابو میں رکھنے
کامطالبہ کیا۔واضح ہوکہ راجیہ سبھا میں ان اتحادیوں کی اہمیت زیادہ ہے،
جہاں بی جے پی کواپنی ہر پالیسی یا بل کیلئے ان کے تعاون کی ضرورت پڑتی
ہے۔ایسے میں جب کہ نہ تواپنے ہی خوش ہیں اورنہ بیگانے مطمئن ہیں۔اسے اپنی
آمرانہ پالیسی اوربھگواایجنڈے پرنظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ یہ خودبی جے پی
کیلئے بہترثابت نہیں ہوگا۔ |