دنیا بھر میں یہ رجحان عام ہے کہ مستحکم
اور مسلمہ سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ اور گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور
سیاسی قیادتوں پر عوام کا اعتماداُٹھتا جا رہا ہے ۔جب جمہوری اداروں اور
سیاسی پارٹیوں کو اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو لوگوں کی بے قراری ،
اضطراب اور بے چینی اور زیادہ پریشان کن صورت سختیار کر لیتی ہے ۔ دوسرا
بڑا مسئلہ بے یقینی کے اس دور میں جمہوری اداروں کی پائیداری اور افادیت کے
بارے میں شکوک و شبہات کا ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدان
اور قومی ادارے دونوں ہی صحیح انداز میں کام نہیں کر پا رہے ۔ پی آئی اے کی
حالیہ غیر قانونی ہڑتال نے انتہائی گھمبیر صورتحال پیدا کر دی تھی ۔
ملازمین اور افسران کا روئیہ انتہائی منفی تھا جس سے نہ صرف مسافروں کو
اضطرابی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا بلکہ مالی طور پر بھی بہت بڑا نقصان
اٹھانا پڑا ۔ اس قسم کے روئیے قانون کی بالادستی پر حملے کے مترادف ہیں جو
کام دہشت گرد کرتے آ رہے ہیں وہی کام اِن لوگوں نے کیا اور پھر ایک عرصہ تک
غیر محب وطنی کا مظاہرہ کیا اس پر مستزاد یہ کہ احتجاجی ریلی کے دوران دو
ملازموں کی ہلاکت بڑی افسوسناک ہے ۔ مقدمہ ہڑتالی ذمہ داران کے خلاف بھی
درج کیا جانا چاہیئے تھا ۔حقیقت میں غیر قانونی ہڑتال کی نمائندگی کرنے
والے افراد ہی مجرم ہیں جنہوں نے یہ ریلی منعقد کر کے مسئلہ کھڑا کیا ۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا حال کتنا بدحال ہے کہ جس کے جی مین جو آئے وہ کر لے
کسی ضابطے کی پرواہ نہیں بعض سیاستدان احتجاجوں کو جمہوریت کا حسن قرار
دیتے ہیں ۔
نہیں چاہیئے ہمیں ایسی جمہوریت جس سے ملک و قوم کو نقصان پہنچے اور لوگ
اپنی منانے کے لیے غیر جمہوری روئیہ اختیار کریں اور قومی اداروں کو
انتشارو افتراق سے دوچار کر کے عوامی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بنیں ۔
لگتا ہے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔ غیر
آئینی و غیر قانونی ہڑتال کرنے والوں کی حمائت میں سیاستدانوں کے ہمدردیوں
بھرے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم غیر جمہوری روٹیوں پر متفق ہیں اگر ایسا
ہی ہے تو پھر جمہوریت لانے کے لیے قوم کے اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ
۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا زور ابھی ٹوٹتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ جس
کی اصل وجہ سیاستدانوں کی دوغلہ پالیسی اور مفاد پرستی ہے ۔ کسی خرابی یا
مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آ جائیں ۔
مگر ہمارے ہاں ایسا ہونا ہی مشکل ہے بلکہ اپوزیشن کی حتی الوسعٰ کوششیں
ہوتی ہیں کہ وہ قانون شکنوں میں جان ڈالنے کے لیے منفی حربے استعمال کریں
طالبان کو اسی روئیے کے باعث طاقت ملی ہے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے مابین
محاذ آرائی اور کشمکش سے ہی ہماری ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہے اور انکی طرف
سے دہشت گردی کے ذریعے ہمیں کھربوں کا نقصان بھی اُٹھانا پڑ رہا ہے ۔ سب سے
بڑا دشمن امریکہ ہے جو اندرون خانہ بھارت کو ہماری پیٹھ پر چھری گھونپنے کی
شہ دیتا آ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ڈھانواڈول ہے ۔
امریکہ نے کہا تھا مسٹر مشرف اگر آ پ نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو آپ کے ملک کو
پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے گو وہ عملی طور پرتو ایسا نہیں کر سکا مگر
بھارت کی پیٹھ پر تھپکی دے کر ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی سر توڑ
کوشش کر رہا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارا آرمی چیف قلندر ہے جس نے دشمنوں کی سازشیں
اور چالیں سمجھ لی ہیں اور وہ ان چال بازوں اور سازشیوں کے سامنے سیسہ
پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو چکے ہیں آرمی چیف نے عزم کر لیا ہے کہ وہ دہشت
گردی کے عفریت کو جلا کر خاک کر دیں گے ہماری ہمدردیاں اور دعائیں ان کے
لیے ہی ہیں ہم شب و روز دعائیں کرتے ہیں کہ اﷲ رب العزت ہمارے آرمی چیف کو
ڈھیرساری کامیابیاں عطا فرمائے ۔ لگتا ہے کہ طاغوتی قوتیں وزیر اعظم کو
مجبور کر رہی ہیں کہ وہ آرمی چیف کی سروس میں توسیع کے احکامات جاری نہ کرے
۔ اسی لیے آرمی چیف نے اپنا عزم دھرایا ہے کہ ہمیں کراچی کے امن کے لیے جس
حد تک جانا پڑا جائیں گے ۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ رب جلیل آرمی چیف کو اس عزم
کی تکمیل کے لیے ہمت و جرائت عطا فرمائے ۔آمین ثمہٰ آمین |