بان کی اوپر نیچے کی جگہیں کچھ ناموں سے
مشہور ہیں جیسا کہ بٹہوے کی ڈاؤو،اب اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ یہاں
مغلائی(مغل،مستری) خاندان کے کچھ گھر ہیں اور یہ جگہ بھی بڑےبڑے پتھروں میں
گری ہوئی ہے اب نام دینے والے نے پتھر توڑنے والوں سے منسوب کیا یا پتھروں
کی ؔڈاؤو(ڈھکی ہوئی جگہ)کی وجہ سے اسے اس نام سے نوازا،اس ڈاوو کا نقشہ کچھ
یوں ہے کہ اگر ساحل سیری کی طرف سے دیکهیں تو سامنے ایک دندا ہے جیسے باوے
غلام حیدر کا دندا کہا جاتا ہے یہ غلام حیدر نہایت سادہ طبیعت کے اور ہمہ
وقت خندہ پیشانی رکهنے والے بزرگ ہیں سانپ اور بچهو کا منتر بھی خوب ازبر
کیے ہوئے ہیں اکثر یہ خدمت خلق گهر بیٹھے ہی انجام دے دیتے ہیں یہ بات
مشہور ہے کہ رستے میں اگر کوئی ندی نالہ نہ آئے تو ان کا مریض ان کے پاس
آئے بغیر ہی ٹهیک ہو جاتا ہے اور ان کا منتر بغیر کسی وائی فائی کے مریض کے
گهر تک رسائی حاصل کر لیتا ہے. یہاں اسی دندے کی ایک آڑ بن جاتی ہے اب اگر
اسی طرح کهڑے رہ کر پیٹھ پیچھے دیکھا جائے تو دو بڑے بڑے پتھر پہاڑ نما ہیں
جن کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سے عقب والے گهروں کے لوگ دیکھ نہیں پاتے شاید
اسی قدرتی آڑ کو کسی نے ڈاوو کہا ہو لیکن ہم ڈاوو دراصل پانی کے اس گہرے
حصے کو کہتے تھے جہاں ہم اس لیے دور سے چهلانگ لگاتے تهے کہ ہمیں کچھ بهی
سطح بان سے لگے گا نہیں بلکہ چهلانگ مارنے والے کو کہتے تھے ڈاووئ نے
بشکہار(درمیان) مار اوے. کافی عرصہ یہاں تیراکی کا شوق پورا کیا گیا لیکن
بٹہوے کی اصل وجہ جان نہ پائے۔ یہاں سے تھوڑا اور نیچے کی طرف جاہیں تو
دائیں ہاتھ عید گاہ اور بائیں ہاتھ مشتاق بٹ کا گهر رہ جاتا ہے. یہ گهر
کبهی صرف ایک ہی کمرے پر مشتمل تها بیٹے جوان ہوئے محنت رنگ لائی گهر کمرے
سے کمروں میں بدل گیا لیکن عید گاہ آج بھی آٹھ صفوں پر مشتمل میدان کی شکل
میں ویسی ہی ہے جیسی انیس سو اٹھہتر میں تهی اڑتیس سال میں آبادی آٹھ گنا
بڑه چکی ہے اور عید گاہ کے آس پاس جو پیلی تهی وہ آٹھ گنا ہی کم ہو چکی ہے
برادرم زاہد بنظیر نے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا یہ وہ پیلی تھی جس میں پہلی
بار انیس سو تینتیس میں نماز عید ادا کی گئی تھی. یہ پیلی گو شاملاٹ تهی
لیکن انیس سو ستتر میں بابے ملاں سید کے مورثی رقبے کے ساتھ گرداوری میں
شامل ہو چکی تھی بعد ازاں اس خدا ترس بابے نے صوفی بیرولی اور ماسٹر فیض
محمد کی خواہشات کے نتیجے میں یہ جگہ عید گاہ کے لیے وقف کر دی جسے کچھ ہی
ماہ بعد امام جامع مسجد سیری ارشاد احمد جہانگیری نے اسے مکمل شکل دینے
کیلئے چار دیواری پهیرا دی آج مندرجہ بالا چار افراد میں سے کوئی بھی نہیں
لیکن ان کی کاوشیں اور ان کے عطیات بطور صدقہ جاریہ آج بھی جاری و ساری ہیں.
اس سے آگے جاتے ہوئے جو جگہ آتی ہے وہ جگہ چیراں نی پڑاٹی کے نام سے مشہور
ہے ۔ یہاں بڑے بڑے پڑاٹ یعنی پتھروں کی سیلیں ہیں اس وجہ سے پڑاٹوں کو
پڑاٹی کہا اور یہاں بسنے والے ایک خاندان سے منسوب کرتے ہوئے چیراں نی
پڑاٹی کہنا شروع کر دیا چیروں کو دیگر زبانوں میں ماہی گیر ماچهی اور فیشر
کہا جاتا ہے ،چیروں کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور بان کا یہ حصہ دوسری
جگہوں سے ذرا زیادہ گہرا تھا اور گہرائی کی وجہ سے مچھلی بھی یہاں زیادہ
تھی اس وجہ سے اس خاندان نے یہا ں بستی بنا لی اور مقامی زبان میں چیر
مشہور ہوئے ،اب یہ جگہ تو وایسی ہی ہے لیکن چیر وائی فائی کی وساطت اور
روپے پیسے کی وجہ سے سدھن بن گے ۔ اب نہ تو پڑاٹی کی ویسی گہرائی رہی نہ
ماچهیوں کی مچهی باقی رہی اب نام کے ساتھ ساتھ کام بھی بدل گے خدا کی قدرت
سمجھ لیجیے کہ جہاں چیر سدهن ہو گئے وہاں ہی بر لب بان ایک راجپوت راجہ
ڈهول والا مشہور ہو گیا. |