کیپ ورڈ ۔مغربی افریقہ ۔۔۔حصہ دوم ۔۔دلچسپ سفر
(munawar ahmed khurshid, LONDON)
کیپ ورڈ۔۔مغربی افریقہ ۔۔حصہ دوم
ایک دلچسپ اور ایمان افروز سفر
۔خاکسار ایک دفعہ ایک کام کے سلسلہ میں کیپ ورڈ جانا پڑا۔
یہ ایک بہت ہی غیر معروف ملک ہے۔ اس ملک کو دنیا کے نقشے میں تلاش کرنا بھی
خاصا دشوار ہے۔ ۔اسی وجہ سے اس ملک کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول بھی
قدرے مشکل تھا۔ (آجکل تو انٹر نیٹ نے ایسے بہت سےمشکل مراحل کوبہت ہی
آسان کردیا ہے)۔اس ملک کی مذھبی ،سیاسی اور معاشی صورت حال اور کیفیت سے
میں بالکل لاعلم تھا۔ میں اس کے شہروں، قصبوں، گلیوں ،کوچوں اور اس کے
باسیوں کے متعلق اپنی سوچ وفکرکےمطابق اپنے ذہن میں خاکے بناتااور مٹاتا
رہا۔اسی ادھیڑ بن میں کافی وقت گزر گیا۔
اس ملک کے بارے ک میں نے کبھی سنا تک نہ تھا۔اس لئے وہاں پرکسی شخص سے میں
ساتھ شناسائی کیسے ہو پاتی۔ملک بھر میں کوئی احمدی بھائی بھی نہ تھا۔اس لئے
نہ کوئی جماعتی رشتہ اور نہ ذاتی تعارف تھا۔
اب سوال یہ تھا۔ کیپ ورڈ میں کہاں جاؤں۔ کس کے پاس جاؤں۔کیسے جاؤں۔ گیمبیا
میں تواس ملک کا سفارت خانہ بھی نہ تھا۔ورنہ ایمبیسی سے ہی کچھ معلومات
حاصل کرلیتا۔اس ملک کی ایمبیسی سینیگال میں تھی۔ اس لئےویزہ بھی سینیگال سے
ہی لینا تھا۔اس مقصد کے پیش نظرسینیگال گیا۔ایمبیسی میں جا کر کیپ ورڈ کا
ویزہ حاصل کیا۔ایمبیسی سے اپنی نادیدہ منزل کے بارے میں کچھ معلوماتی پمفلٹ
لےلئے۔اگر چہ یہ زیادہ تر پرتگیزی زبان میں تھے۔پرتگیزی سے میں نا بلد
تھا۔چند ایک کتابچے فرانسیسی میں تھے۔جنہوں نے کسی حد تک میری دستگیری کی
اور ملک کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات فراہم کیں۔
پرتگیزی زبان
یارمن ترکی است ومن ترکی ندانم۔
دوسری مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ اس ملک کی زبان پرتگیزی تھی ۔جس سے میں
بالکل نابلد تھا۔
خاکسار اگر چہ اللہ تعالی کے فضل سے نو زبانوں میں کسی حد تک بات چیت
کرسکتا ہے۔لیکن پرتگیزی زبان ان میں شامل نہ تھی۔اس لئے اہل کیپ ورڈ سے
رابطہ کی فکر دامن گیر تھی۔کیونکہ کیپ ورڈ میں عام لوگ پرتگیزی زبان بولتے
ہیں ۔جواس ملک کی سرکاری اور مادری زبان ہے۔پھرکریول زبان بولتے ہیں ۔یہ
زبان بھی دراصل پرتگیزی زبان ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔دوسری زبانوں کے
بولنے والے اس خطہ ارضی پر نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کیونکہ ہر انسان کسی بھی چیز کو اس کی افادیت اور اہمیت کی بنا پر ہی حاصل
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسی طرح لوگ کسی بھی زبان کو اس کی مذھبی ، معاشی یا
سیاسیی دلچسپی اور ضرورت کے تحت ہی سیکھتے ہیں۔ یہاں اس زبان کے علاوہ
شاذہی کوئی دوسری زبان بولتا ہوگا۔اس لئے زبان کے بارے میں خاصی فکر لاحق
تھی۔
ایک دوست دیار غیر میں ۔۔دلچسپ لطیفہ
ہمارے ایک بزرگ حاجی ایّاز احمد خان صاحب ہنگری تشریف لے گئے۔اس وقت انہیں
اس ملک کی زبان بالکل نہیں آتی تھی۔آپ بازار تشریف لے گئے۔ ایک ریستوراں
میں پہنچے۔ آپ نےسوچا ۔سردی بہت ہے۔انڈا بہتر رہے گا۔اس دوراں ایک بیرا
حاضر ہوا۔اور آرڈر کے لئے پوچھا۔حاجی صاحب کو لوکل زبان میں انڈے کے نام کا
علم نہ تھا ۔آپ نے اپنے ہاتھ سے گول گول اشارے کر کے دکھائے۔بیرا گیا۔اور
جلدی سے ابلے ہوئے آلو لے آیا۔حاجی صاحب نے منفی انداز میں سر ہلا کر
بتایا۔کہ آلو نہیں چاہیے۔پھر آپ نے ٹیبل کور جو سفید رنگ کا تھا ۔اس کی طرف
اشارہ کیا۔پھر ہاتھ سے اس کی شکل بناکر اسے سمجھایا۔بیرا سر ہلاتا ہوا چلا
گیا۔اور تھوڑی دیر کے بعد کوئی اور سفید رنگ کی مٹھائی لے آیا۔حاجی صاحب نے
پھر اشارہ سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔مگر ناکام رہے۔آخر انہیں ایک ترکیب
سوجھی۔انہوں نے اونچی آواز سے مرغ کی اذان کی آواز نکالنی شروع کی۔اس پر
بیرہ فوری طور پر سمجھ گیا ۔دوڑتا ہوا کچن میں گیا۔اور گرم گرم انڈے لاکر
پیش کردیے۔
آغاز سفر
خیر سیٹ بک کرائی۔حسب پروگرام چند احباب جماعت کے ساتھ گیمبیا کے بانجول
ایئر پورٹ پرپہنچے ۔پھر ان دوستوں کی دعاؤں کے ساتھ اپنی منزل کو روانہ
ہوا۔یہ گیمبیا أیرویز کا ایک چھوٹا سا جہاز تھا۔اتفاق سے میری ساتھ والی
سیٹ پر ایک گیمبین نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔علیک سلیک کے بعد اس سے تعارف ہوا
۔تو اس نے بتایا کہ وہ کیپ ورڈکے دارالحکومت پرایا میں کوئی کام کرتا
ہے۔میں نے اس سے مختلف معلومات حاصل کرنا شروع کردیں۔وہ شریف آدمی حسب
توفیق مجھے کیپ ورڈ کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نوجوان کو دیکھ کر مجھے بڑی
خوشی ہوئی۔اور ساتھ ایک سہارے کا احساس سا ہوگیا۔کہ چلو یہ گیمبین دوست
میرے کام میں وسیلہ بن سکتا ہے۔میں نے اپنی ڈائری نکالی۔اور اردو زبان میں
پچاس کے قریب مختلف جملے لکھے۔اور اس نوجوان سے ان کا پرتگیز ی زبان میں
ترجمہ پوچھ کر لکھ لیا۔پھر ایک سے سو تک کی گنتی بھی لکھی۔اور اپنے اس سبق
کو رٹنا شروع کردیا۔تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا۔اس بہانے یہ وقت بخوبی گزر
گیا۔جہازPRAIA ایئر پورٹ پر اترا ۔ مسافر امیگریشن والوں کے پاس
پہنچے۔گیمبین دوست تو چونکہ اس ملک اور ماحول کا عادی تھی۔ جلد ہی نظروں سے
اوجھل ہوگیا۔اور مجھے ایک بار پھر ایک نئی فکر میں ڈال گیا۔
اتفاق سے ان دنوں پرایا میں کسی افریقن تنظیم کی کوئی اہم میٹنگ ہورہی
تھی۔میں بھی ان مہمانوں کی لائن میں کھڑا تھا۔ اس لئے امیگریشن والوں نے
مجھےبھی اس گروپ کا حصہ سمجھ لیا۔ اوربغیر کسی پوچھ گچھ کی ہی اس پل صراط
سے پار کردیا۔
کہاں جاؤں اور کیسے جاؤں
اب مختصر سے ایئر پورٹ سے باہر نکلا۔ اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش
کی۔اور سوچا ۔اب کیا کریں۔ میں نے کہاں جانا ہے۔اتنی دیر میں ایک ٹیکسی
میرے قریب آکر رکی اور ڈرا ئیور نے مجھے اپنی زبان میں مجھ سےپوچھا کہاں
جانا ہے؟میں نے پرایا شہر کا نام لیا۔کیونکہ مجھے بس یہی نام یاد تھا۔ میں
نے اپنی جہاز والی ڈائری نکالی اور اسے پڑھ کر کرائے کے بارے میں پوچھا۔ اس
نے بتایا ۔کہ سنک سکوڈو (پانچ سکوڈو۔کیپ ورڈ کی کرنسی)
میرے پاس سینیگال کی کرنسی (سیفا ) موجود تھی۔سینیگال کی کرنسی سینیگال کے
سب قریبی ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔اس لئے میں نے سوچا تھا ۔یہ کرنسی کیپ
ورڈ میں بھی استعمال ہو جائےگی۔
ٹیکسی ڈرایئور نے میرے ہاتھوں میں سیفا دیکھا اور بغیر کچھ کہےچلا گیا۔ جس
سے پریشانی کا اضافہ ہوگیا۔
اس کے بعد دوران دس ،بارہ کے قریب ٹیکسیاں میرے پاس آکر رکیں۔اور وہی سوال
جواب کرنے کے بعدتیزی سےمجھ پر خاک ڈالتی ہوئیں اپنی راہ لیتیں۔اب ایئر
پورٹ سے تقریباً سب ٹیکسیاں چلی گئیں۔ اس ایئر پورٹ پر شاذ ونادر ہی جہاز
آتے ہیں اس لئے اب تو أئرپورٹ سٹاف بھی جا چکا تھا۔اور میں اکیلا دھوپ میں
اپنے دو بیگ تھامے بڑی بے بسی کے ساتھ دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔اپنی اس بے
بسی اور غریب الوطنی کا نقشہ کھیچنا۔ اب میرے بس کی بات نہیں۔
اتنی دیر میں ایک ٹیکسی شہر کی طرف سے ایئر پورٹ کی طرف آئی۔اور میرے قریب
آکر رک گئی۔ اور اس میں ایک آدمی اتر گیا۔اتنے میں دو مسافر نہ معلوم کدھر
سے نمودار ہوئے اور ٹیکسی والے سے شہر جانے کے لئے بات چیت کرنے لگے۔میں
ہمت کرکےان کے پاس گیا ۔اور انگریزی میں انہیں سلام کیا۔تو انہوں نے انگلش
میں مجھے جواب دیا۔ مجھے کچھ ہمت ہوئی اور میں نے اپنی بپتا ان کے سامنے
کہہ سنائی۔ان کو میری حالت زار پر رحم آیا اور ان میں سے ایک صاحب نے پانچ
سکوڈو نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دئے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔اور کہا
یہ سکوڈو تو میرے صرف ایک مسئلہ کا حل ہیں۔کہنے لگے اب کیا ہوا؟ میں نے
بتایا میں اس شہر میں نووارد ہوں۔مجھے کسی ایسی جگہ کا پتہ بتائیں۔ جہاں
میں شب بسری کرسکوں۔وہ نوجوان مجھ پر بڑے ہی مہربان تھے۔انہوں نے مجھے اپنے
ساتھ اسی ٹیکسی میں بٹھا لیا اورپرایا شہر کو روانہ ہوگئے۔اور شہر میں پہنچ
کر مجھے ایک متوسط درجہ کے ہوٹل کے گیٹ پر اتار دیا۔
میں نے خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔کہ کم ازکم کوئی چھت تو ملی ہے۔
ہوٹل میں ریسیپشن پر جاکر کمرہ کے بارے میں معلومات لیں۔ کمرہ کا کرایہ
میری جیب کے مطابق کافی حد زیادہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔کمرہ کی چابی لی
اور سامان کمرہ میں رکھا ۔کپڑے بدلے اور بازار کو نکل گیا۔ یہ ہوٹل بازار
کے بالکل قریب تھا۔ اب بھوک بھی ستا رہی تھی۔اس ہوٹل میں کھانا کھانا تو
میرے بس کی بات نہ تھی۔میرا بجٹ تو مجھے صرف چھوٹے ریستوران میں پیٹ بھرنے
کی اجازت دے سکتا تھا۔ خیربازار چلا گیا ۔اب نہ توزبان آتی ہے۔نہ کھانوں کے
نام آتے ہیں۔کافی دیر تک بازار میں گھومتا رہا۔
سفر ہے شرط مہمان نواز بہتیرے
میں جب بازار کی طرف نکل گیا۔رستہ میں کئی چھوٹی بڑی گلیاں آئیں۔یہاں کے
مکانوں کا انداز تعمیر ہم لوگو ں سے کافی مختلف ہے۔ان کے ہاں جگہ کی قلت کے
پیش نظر صحن کا کوئی خاص رواج نہیں۔اس لئے عموما ً کمروں کے دروازے گلیوں
میں ہی کھول لیتے ہیں۔ میں ان گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ایک مکان کے سامنے
سے گزرا۔میں نے دیکھا ایک بڑی عمر کی خاتون کھانا پکا رہی تھی۔اور اس کے
قریب چند کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔میں نے سوچا۔یہ ریستوراں ہے۔ میں اندر چلا
گیا۔اس خاتون کو انگریزی میں سلام کیا۔اس نے اپنی زبان میں کچھ بات کی ۔جسے
میں نہ سمجھ سکا۔میں نے اسےاشارہ سے بتایا ۔کہ میں نے کھانا کھانا ہے۔اس نے
کسی کو آواز دی۔جس پر
قریبی کمرے سے ایک نوجوان باہر آگیا۔وہ میرے پاس آیا۔مجھے اپنی زبان میں
کہنے لگا ۔کیا بات ہے۔میں نے انگریزی میں اسے بتایا ۔میں پرتگیزی زبان نہیں
بول سکتا۔اس پر اس نے انگریزی میں بات چیت شروع کردی۔مجھے یہ جان کر کہ یہ
نوجوان انگریزی بول لیتا ہے۔ بہت خوشی ہوئی۔اس نے مجھے بتایا کہ یہ
ریستوراں نہیں ہے ۔بلکہ ہمارا گھر ہے۔ اس پرمیں نے اسے کہا ۔میں اس شہر میں
نووارد ہوں ۔کیا وہ میری کسی ریستوراں کی طرف راہنمائی کرسکتا ہے۔اللہ اس
کا بھلا کرے ۔میرے ساتھ چل پڑا۔رستہ میں میں نے اسے بتایا ۔میں مسلمان
ہوں۔اس لئے میں نے ایسا کھانا ہے ۔جس میں کوئی حرام چیز نہ ہو۔مجھے وہ ایک
متوسط درجہ کےریستوراں میں لے گیا۔میں نے آملیٹ کے لئے کہا۔وہ نوجوان بھی
میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔میں نے اس نوجوان کو بھی کھانے کے لئے دعوت دی ۔مگر
اس نے انکار کردیا۔میں نے کافی اصرار کیا۔ مگر نہ مانا۔ لیکن میرے پاس
بیٹھا رہا۔میں نے اسے اپنے بارے میں بتایا کہ میرے دو مسائل ہیں۔ایک تو میں
نے ہوٹل میں نہیں رہنا۔کسی سستے کمرے میں رہنا ہے۔دوسرے میں مسلمان ہوں
۔اگر مجھے کوئی اپنے گھر میں میری پسند کا کھانا بنادے۔تومیں اس کی ادائیگی
کردوں گا۔
کہنے لگا۔کھانے کے بعد ہمارے گھر چل کر میری ماں سے بات کرتے ہیں۔امید وہ
آپ کو کھانا پکا دیا کرے گی۔اور مکان کا مسئلہ بھی میں آپ کا حل کردوں گا۔
اس کے بعد ہم لوگ اس کے گھر گئے۔اس کی والدہ میرا کھانا پکانے پر راضی
ہوگئی۔اور پھر ہمیں ایک سرائے میں کمرہ بھی مل گیا۔اور سب سے بڑی بات یہ
ہوئی کہ مجھے اس نوجوان کی صورت میں ایک ترجمان بھی مل گیا۔جتنا عرصہ میں
اس ملک میں رہا یہ نوجوان میرے ساتھ ساتھ رہا ۔اس نوجوان کا نام Nilinto
تھا۔جب میں واپس گیمبیا کے لئے آیا۔ ان سب کو خوش رکھے۔اس کے بعد میرا ان
سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
|
|