سُن داستان میر ی شب ِظلمت کا سبب بننے والے

 ’’ہیلو‘‘
’’رشید احمد نعیم ؟؟‘‘
’’جی بیٹا!بو ل ر ہا ہو ں ‘‘
’’ا نکل مجھے کچھ کہنا ہے ‘‘
’’جی بیٹا !بو لیے ‘‘
’’کیا آپ میر ی گزارشات اپنے کا لم میں شا ئع کر د یں گے ؟‘‘ ’’بیٹا! آپ بات کر یں،قابلِ اشاعت ہو ئیں تو پو ری کو شش کروں گا کہ ان کو قرطا س پر بکھیر کر ا یڈیٹرصا حب کی خد مت میں پیش کر دوں ۔آگے ان کی مر ضی اور صوابد ید پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ا خبا ر کی ز ینت بنا تے ہیں کہ نہیں ۔ میرا شما ر ابھی کا لم نو یسو ں میں نہیں ہو تا ۔ میں تو صحا فت کا اد نی ــ سا طا لب علم ہو ں۔ ابھی سیکھنے کے مر ا حل سے گزر رہا ہو ں مگر ا یڈیٹرصا حب تک آپکی آواز پہنچا نے کی ہر ممکن کو شش کر وں گا ‘‘ ’’ انکل! در اصل آپ سے اس لیے ر جو ع کیا ہے کہ آپ نے حا ل ہی میں ا یک کا لم بد عنو ا نی اور بد ا نتظا می کا دوسرا نام پنجا ب ایگز میشن کمیشن لکھا ہے جو ہم بچوں کو تو سمجھ نہیں آسکا مگر ا سا تذہ ا کر ام کو یہ کہتے ہو ئے ضرور سنا ہے کہ حقا ئق کے مطا بق لکھا ہے ۔ ا متحا نا ت کے ا نعقا د کے سلسلے میں ہو نے والی بد ا نتظا میو ں اور بد عنو ا نیو ں کا بھر پور ا حا طہ کیا ہے ۔ اسی ا خبا ری ترا شے سے آپکا نمبر لیکر فو ن کر ر ہا ہو ں‘‘ ’’جی بیٹا ! آپ با ت کر یں ‘‘
’’انکل ! میں اور مجھ جیسے لا کھو ں بچو ں نے پنجا ب ا یگز میشن کمیشن کے تحت پا نچو یں کا ا متحا ن دیا ہے اس میں جو سو ا لیہ پر چہ جا ت د ئیے گئے ہیں وہ ہماری ذہنی سطح سے مطا بقت نہیں رکھتے تھے ۔ ہم بچو ں کویہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ paper setterنے کس تر قی یا فتہ ملک کی سر ز میں پر بیٹھ کر کن امید واروں کو سا منے رکھ کر پر چہ جا ت تر تیب دئیے ہیں ۔کیو نکہ سو الا ت کو اس قدر پیچید گی سے تیار کیا گیاتھا ۔کہ ۱۰؍۹سا لہ بچے اسے سمجھنے سے قا صر تھے ۔ اگر اس امتحا ن کے ذر یعے اسا تذہ کی ا ہلیت و کا ر کر د گی جا نچنا مقصودہے تو پھر ہمیں قر با نی کا بکرا کیو ں بنا یا جا رہا ہے ؟؟ براہ راست اسا تذہ سے ٹیسٹ لیا جا ئے اور ان کی تر قی واپ گر یڈیشن اس ٹیسٹ سے مشر وط کی جا ئے مگر اسا تذہ کی گر دن زنی کے لیے ہمیں بطور سیڑھی استعمال نہ کیا جا ئے ۔ اگر اس امتحان یا ٹیسٹ کو بنیاد بنا کر اہمارے مستقبل پر کُند چھری چلانی ہے تو پھر ہم بچوں کا مطالبہ ہے کہ یہی ٹیسٹ ارکانِ اسمبلی سے بھی لیا جائے اور اُن کی اسمبلی رکنیت کو اِسی ٹیسٹ کی کامیابی سے مشروط کر دیا جائے ہم سو فیصد دعویٰ سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ 70/80 فیصد ارکانِ اسمبلی اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے اور انشاء اﷲ ٹیسٹ میں ناکامی کی صورت میں اسمبلی نشست سے محروم ہونے والوں میں ہما رے وزیرِتعلیم سرِفہرست ہو ں گے انگلش بی کا سوالیہ پر چہ جو ہمیں دیا گیا ہے وہ تر قی یا فتہ مما لک کے بچے حل کر سکتے ہیں یا پھر مہنگے ترین سکو لز کے وہ بچے جنہیں پیدا ئشی طو ر پر ہی تمام سہو لیات ز ند گی اور تعلیمی ما حو ل میسر ہو تا ہے ۔ پسما ند ہ علا قے سے تعلق ر کھنے والا طا لب علم روانی سے اردو بول اور لکھ نہیں سکتا ۔ انگلش میں مضمو ن نو یسی کے جو ہر کس طر ح د کھا ئے گا ؟کلاس پنجم کے لئے PEC کے دانشوروں کا بنایا ہوا انگلشB کا پیپر ہمارے سامنے آیا تو دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے کیونکہ جو کچھ بھی یاد کیا ، لکھ لکھ کر دیکھا ،امی ابو کو زبانی سنایا ، نیند سے بوجھل آنکھوں کو جن جن سوالات پر گاڑا وہ سب رو ٹھ گئے ۔کتاب میں موجود سبھی اسباق نے منہ موڑ لیا ،یاد کی گئی کہانیاں اور مضامین ان دیکھی راہوں میں کھو گئے ، مشقوں میں دیئے سوالات یادِ ماضی بن کے رہ گئے اور سچ میں ایسے لگا جیسے ہمارا حافظہ واقعی چھن چکا ہے ہم طلبا اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں طے شدہ مواد یاد رکھتے ہیں اسے باربار دہراتے ہیں تب جاکر اسے زبانی لکھ پانے کے قابل ہوتے ہیں ہم میں سے 50 فیصد کی ابھی اردو میں بھی ایسی مہارت نہیں ہوتی چہ جائے کہ انگلش میں مضمون نویسی میں جوہر دکھانے کا مظاہرہ کیا جائے یہ فہم و فراست سے عا ری لوگ بچو ں کے مستقبل سے کیو ں کھیل ر ہے ہیں؟خداکے لیے پنجاب ایگز میشن کمیشن کے منحو س ادارے کو ختم کیا جا ئے اور امتحا نات کا نظا م محکمہ تعلیم کے سپرد کیا جائے ورنہ تعلیمی قا بلیت واہلیت دم تو ڑجائے گی اور تعلیم جیسی بنیا دی ضرورت غریب کے لیے خواب وحسر ت کا روپ دھار لے گی ۔کیونکہ اس طر یقہ ِامتحان میں کا میابی کا انحصار اہلیت وقابلیت یا تعلیمی صلا حیت پر نہیں ہے بلکہ ’’تیرتُکا‘‘ یا دولت پر ہے ۔ نو ٹو ں کی بر سا ت یا سفارش کی نو ازشات کے سا ئے تلے کا میابی کے میڈل سینے پر سجا ئے جا رہے ہیں ’’نوٹ وکھا میرا مو ڈ بنے‘‘کی ضرب المثل شا ید اسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر تخلیق کی گئی تھی ۔ ہم بچوں کی وزیر اعلی پنجاب سے درخواست ہے کہ امپو ر ٹڈملا زمین پر نہیں بلکہ مقامی ما ہر ین ِتعلیم پر مشتمل ایک تحقیقا تی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس بات کا جا ئزہ لے کہ پانچو یں جماعت کے سوالیہ پرچہ جات بچوں کی ذہنی سطح سے مطا بقت رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگرجواب نفی میں آئے تو پھر ہماری اور ہمارے والد ین کی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو نے کی خواہش کے ان قا تلو ں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے جو کرتے کراتے کچھ نہیں اور قومی خزانے کو بھاری تنخوا ہوں اور مراعات کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں انکل اب تو ہماری مظلو میت پر کسی شاعر نے نظم بھی لکھ ڈالی ہے
پرچہ انگلش 5th کلاس
بچے بیٹھے سب حیران اے ہے Pec دا امتحان
انگلش دا جد پرچہ ہویا کلا کلا بچہ رویا
منہ اُس ہنجواں نال ہے دھویا سمجھ نہ آوے کدرے جان
اے ہے Pec دا امتحان
ہر پرچے دا معیار تے ویکھو دو دھاری تلوار اے دیکھو
بچے رون تے تکن سانوں اک لفظ اے لکھ نہ پان
اے ہے Pec دا امتحان
ہرسوال سی اک پہاڑ اینی ڈاڈھی مار نہ مار
بچے دا وی تک معیار صدقے جانواں تیرے جوان
اے ہے Pec دا امتحان‘‘
بچے کی بات سن کر میں تو حیران ہوں کہ کیا بولوں؟
جس ملک میں پوری اتھارٹی بھرپور اختیارات کے باوجود PIA کے ورکرز کی طرف سے کی گئی ہڑتال کو ٹھیک طرح سے Manage نہ کر پائے، جہاں دہشت گردی کا جن منہ زور گھوڑے کی طرح بے قابو ہو،جہاں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا ہو ،جہاں بے روزگاری لوگوں کی جان لے رہی ہو،جہاں ملازمین اپنی پروموشن کا انتظار کرتے کرتے ریٹائر ہو جائیں ،جہاں روٹھ کر گھرسے نکلی ہوئی کرکٹ سالوں واپس نہ لائی جاسکے، جہاں پی ایچ ڈی،ایم فل اور میٹرک سبھی کو ایک ہی پلڑے میں رکھا جائے، جہاں اساتذہ کو اپ گریڈیشن کی جھوٹی سچی خبروں میں الجھانے میں فخر سمجھا جائے ،جہاں سائنسدان اور ناخواندہ کا و وٹ وزن میں برابر ہو ، اگر ہم یہ سب برداشت کر سکتے ہیں تو وہاں 9 سال کے پانچویں کلاس کے طلبا کو نصاب میں سے پیپر دے دیا جاتا تو کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑتا اور نہ ہی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ۔
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 110168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.