تبدیلی کی نئی سوچ

آج دنیا تبدیل اور لوگ بدل چکے ہیں۔ہمارے خیالات، خواہشات ،مقاصد،تہذیب،کلچر اور سب سے بڑھ کر سوچ عجیب صورتحال سے دوچار ہے ،انسانیت نام کی کوئی چیز ہم میں نہیں رہی۔اس نہج تک پہچنے میں کئی محرکات کارفرماں ہیں۔ہم گہری دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ہم دوسروں کی نقل کر کے فخر کرتے ہیں ، اپنی زبان سے دوسروں کی زبان کو ترجیح دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہ ہماری کمزوریاں ہیں ،جن پر نہ صرف قابو پانا ہو گا بلکہ ہمیں بحیثیت قوم ان کا مقابلہ بھی کرنا ضروری ہے۔

پاکستان میں عرصہ دراز سے امن و امان کی صورت حال خراب رہی ہے،کیونکہ ہم اپنے فرائض کو اہمیت نہیں دیتے ، قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے ،جس کا دل چاہتا ہے اس سے آسانی سے کھیل سکتا ہے،حبّ الوطنی کا نام تک موجود نہیں،کسی کام میں ڈسپلن نہیں ہے،ہم نے سوچنا سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ہماری سوچ میں ذاتی مفادات پہلی اہمیت ہے،ہماری زندگی کا مقصد دولت کا حصول ہے،وہ چاہے کسی بھی راستے سے حاصل کرنی پڑے۔ہم اپنی اولاد کو باادب ،تہذیب یافتہ نہیں بلکہ امیر دیکھنا پسند کرتے ہیں،اساتذہ کو اپنے کردار کی فکر نہیں ،بچوں کو اپنی حدود کی تمیز نہیں ،والدین بچوں سے ڈرنے لگے ہیں۔ہم جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں،کس کی سوچ کس سمت ہے، کوئی خبر نہیں،یہی لوگانتہا پسند اوردہشتگردوں کا ٹارگٹ بنتے ہیں، انہیں کوئی بھی کسی مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے ، اس منفی سوچ کے باعث مخالفین اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرکے ان سے اپنے ہی ملک اور عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں ،ان سے ایسے کام کروائے جاتے ہیں جس کا کوئی ہوش مند انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ہر کوئی اپنی سوچ کو درست مانتے ہوئے دوسروں کو بھی اسی انداز میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ہم دوسروں کی نقل کرنے میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی برائیوں کو اپنا رہے ہیں اور وہ ہماری اچھائیوں کو اپنا کر امن اور سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔

ہماری عوام کی سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے کہ ہم ہمیشہ شخصیت پرست رہے ہیں اور جنہیں ووٹ دیتے ہیں اُن کے کردار ، قول و فعل کو بلکل درگزر کر دیتے ہیں۔فوج حکمران بنتی ہے تو جمہوریت کا رونا رویا جاتاہے اور جب جمہوریت آتی ہے تو فوج کو بلایا جاتاہے ،جمہوریت فوج کے سائے تلے وقت گزارتی ہے اور فوج سیاستدانوں کو ڈھال بنا کر اقتدار کو طولت دیتے ہیں۔حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے؟مشاورتیں ہوتی رہتی ہیں،مگرحل سامنے نہیں آتا۔ تین تین دفعہ حکومت کرنے کے بعد بھی ملک کے مسائل کی نشاندھی تک نہیں ہوتی،اُن کا حل تو بہت دور کی بات ہے۔اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے بہت سے اصولوں کو روندا جاتا ہے ۔ایک دوسرٍے کے گناہوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے،یہ ایک المیہ ہے، جب سے پاکستان وجود میں آیا تب سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تمام مسائل کا با خوبی اندازہ بھی ہے اور اُن کے حل سے بھی وقف ہیں مگر ہم انہیں درست نہیں کریں گے ،کیونکہ ہمارے سامنے ہمارے مفادات ہیں۔صرف دو باتوں پر عمل کر لیا جائے تو تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ایک ہر کام میں ڈسپلن اور دوسرا قانون کی پاس داری ،یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے،ہمارے پاس درجنوں ایجنسیاں اور فورسز ہیں، اگریہ درست انداز میں کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیاب نہ ہوں ۔سزا جزاپر سختی سے عمل کیا جائے ،ہمارے ہاں سزا اور عبرت کا نشان صرف غریب کو بنایا جاتا ہے۔ با اثر لوگوں کو عدالت تاریخ پر تاریخ دیتی ہے ،کئی ماہ ریمانڈ میں ضائع کئے جاتے ہیں۔اس قدر سنگین الزامات ہوتے ہوئے بھی کیس کو طول دیا جاتا ہے ۔آخر قانونی کھیل میں انہیں بچا کر ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ان مجرموں سے تفتیش کے دوران بہت سے اہم انکشافات ہوتے ہیں، مگر ان کے آقاؤں کو ہوا تک نہیں چھوتی ۔فوجی عدالتیں بنا دی گئیں ،لیکن ابھی تک کوئی با اثر تختہ دار پر نہیں جڑھایا گیا، کئی سو پھانسیاں دی گئی مگر وہی پیادوں کو ،اصل انہیں چلانے والے سہولت کاردندناتے پھر رہے ہیں۔

ہمیں اب حقیقت کی جانب آ جانا چاہئے،حکمران 2018ء کے الیکشن کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں کہ ہم دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹیں ،انہیں عوام کو بے وقوف بنانے کا فن آتا ہے ،ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے ،یہ کھربوں روپے لوٹ کر اربوں الیکشن پر لگاتے ہیں اور پھر لوٹ مار کے لئے ہم پر مسلط ہو کرہمارا خون چوستے ہیں،جیتنے والا اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ،ہار نے والا دھاندلی کا شور مچا کر نہ صرف اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش کر تا ہے بلکہ مک مکا کرکے ذاتی مفادات کا حصول ممکن بناتا ہے، عوام کب تک آلہ کار بن کر زندگی گزاریں گے،ہمیں اپنی سوچ کے زاویوں کو بدلنا ہوگا،تنقید کی بجائے اصلاح کی جانب بڑھنا ہوگا،منافقت کے لبادوں سے نکل کر حق رائے دہی کا درست استعمال کرنا ہوگا، ہمیں کرپٹ لوگوں کی نہ صرف نشاندہی کرنا ہو گی،بلکہ ان کا محاسبہ بھی خود ہی کرنا ہو گا، اپنے لوگوں میں سے درست کا انتخاب اور کرپٹ کو ووٹ دینے سے انکار کر نا ہو گا،اب یہ انکار ہی ہمار بقاء اور ملک کی ترقی کا باعث بن سکتا ہے ،یہ لمحہ فکریہ ہے ، ہمیں اس سمت سوچنے کی ضرورت ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.