پی آئی اے : چلے تو نقصان نہ چلے تو اس سے زیادہ نقصان

پی آئی اے کا بحران ٹل گیا، ہڑتال ختم ہوگئی، نقصان کس کا ہوا، نواز شریف، پرویز رشید یا مشاہد اﷲ کا یا سہیل بلوچ اور اس کے حواریوں کو جنہوں نے ملک کے اتنے بڑے اداروے ایک کو ہفتہ مفلوج بنائے رکھا ، اس دوران مالی خسارہ 5ارب روپے ہوا، یہ نقصان ان دونوں کا میں سے کسی کا بھی ہوابلکہ یہ ملک اور قوم کا نقصان ہے۔ مصالحت کرنا ہی تھی تو پہلے ہی کر لیتے۔ قوم اس مالی نقصان سے تو بچ جاتی۔سچ بات تو یہ ہے کہ پی آئی اے کے موجودہ بحران میں حکومت کی گردن میں سریا دکھا ئی دے رہاتھا۔نواز شریف از خود اس حوالے سے سخت زبان استعمال کرتے نظر آئے ان کے وزیر بہ تدبیر پرویز رشید، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، انہوں نے ابتدامیں ہی جس طرح کی گفتگو کی ا س سے صاف نظر آرہا تھا کہ حکومت اس مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنارہی ہے۔کیا نون لیگ نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت نہیں کی، احتجاجی ریلی نہیں نکالی۔ دوسرے یہ کریں تو غلط۔ خود کریں تو درستے۔ کسی ادارے کے لوگ اپنا حق مانگنے کے لیے مطالبات کریں ، حتیٰ کے سڑکوں پر آجائیں اور یہ ان کا جمہوری حق بھی ہے تو آپ ان کی بات سننے کے بجائے یہ کہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو’ ہم ان کے پر کاٹ دیں گے‘۔ خدا کا خوف نہیں ، طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گردن میں سریا کس کو کہتے ہیں ، غرور ، تکبراور طاقت کا نشہ اور کیسا ہوتا ہے۔ ماضی میں جن حکمرانوں نے غریبوں پر ظلم کیا ان کا انجام درد ناک ہی ہوا۔ ایک اور وزیر جنہیں پی آئی اے کے حوالے سے ایکسپرٹ تصور کیا جاتا ہے ان کی گفتگو ہی تیر و نشتر کی بوچھاڑ ہوتی ہے، مخالفین کے لیے خراب زبان استعمال کرنے کے حوالے سے مشاہد اﷲ خان صاحب مشہور ہیں۔ وہ اصل مسئلہ کو ایڈریس نہیں کر رہے بلکہ ان کا زور اس بات پر ہے کہ حزب اختلاف ، کپتان اس بحران کو خراب کررہے ہیں، عقلمند انسان تم اس کا حل نکالو ، خورشید شاہ کیا کررہے ہیں، کپتان کا کیا پروگرام ہے، دیگر سیاسی جماعتیں کیا منصوبہ بندی کررہی ہیں تم ان کے پیچھے لگ گئے ہو، اصل بحران جو تمہارے سر پرمنڈلارہا تھا اس کے حل کے لیے عملی اقدامات نہیں کر رہے تھے۔اس بحران کو تدبر کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا لیکن طاقت کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے جس کا نتیجہ بحران خراب سے خراب صورت اختیار کرتا گیا۔ملازمین کی ہڑتال کو اور بحران کو خراب کرنے میں نواز شریف کا وہ ساتھی بھی برابر کا شریک نظر آرہا ہے جس نے کراچی میں ہڑتالی ملازمین پر تشدت کرنے کا مشورہ دیا، سختی سے پیش آنے کی حکمتی عملی اپنائی، جس کے نتیجے میں دو لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ کیا احتجاج کرنے والوں سے نمٹنے کا یہی حل ہے کہ ان پر گولی چلادی جائے، لاہور کا واقعہ جس پر حکومت آج تک شرمندہ ہے اس کے پاس لوگوں کو مارنے کا کوئی جواز نہیں، عمران خان کے دھر نوں میں یہی کچھ کیا گیا، کراچی ائر پورٹ پر گولی کس نے چلائی، ہڑتال کرنے والے از خود اپنے اوپر گولی چلائیں گے وہ چلاتے تو مخالفین پر چلاتے، اس طرح کی حکمت عملی اور وزیروں کے احمقانہ بیانات نے بحران کو گھمبیر شکل دی۔ شکر ہے عابد شیر علی یا سعد رفیق جیسے سخت گیر وزیروں کو یہ ذمہ داری نہیں دی ورنہ زیادہ فساد سامنے آجانا تھا۔ مسئلہ حل کی جانب جانے کے بجائے پیچیدگی کی جانب بڑھا حکومتی ردِ عمل، حل کی تدابیر کے لیے جس قسم کے بیانات سامنے آئے ان سے حکومت کی سوچوں میں غرور اور تکبر کی بو آرہہ تھی۔ متبادل حل پیش کیا گیا کہ نجی ائر لائن سے طیارے مستعار لے کر فلائٹ آپریشن بحال کیا جائے گا، کچھ روٹ دیگر ائر لائن کے دے دیے جائیں گے۔ لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ ، ایک اور مضحکہ خیز حل کیا سامنے آیا کہ ایک نئی قومی ائر لائن بنانے کا اعلان کر دیا گیا، بہت خوب یہ جو سفید ہاتھی ہے یہ قومی ائر لائن نہیں۔ اسے دفن کرنا اتنا آسان نہیں۔ میاں صاحب کو یہ مشورہ نہ معلوم کس مشیر یا وزیر نے دیا ، انہوں نے کس ماہر سے مشورہ کیا ، بلاسوچے سمجھے اعلان کردیا کہ ہم نئی قومی ائر لائن بنائیں گے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ نئی ائر لائن کو چلانے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ موجودہ قومی ائر لائن کے اسٹاف کو آپ دفن کر دیں گے، ان کا باقی مانندہ سامان تو نئی ائر لائن کو وراثت میں ملے گا وہ خواہ جیسا ہی ہوگا۔ نئے لوگوں کا انتخاب کہا سے ہوگا، کیا وہ مخلوق برائے راست آسمان سے منگوائی جائے گی یا کسی بیرون ملک سے برآمد کی جائے گی نہیں اس کا انتخاب آپ ، آپ کے وزراء کریں گے وہ آپ کی حمایت یافتہ ہوں گے، وہ آپ کی جماعت کے ورکر ہوں گے ، تو یہی رونا تو اس وقت آپ اور ہم رورہے ہیں کہ پی آئی اے میں سابقہ حکمراں جماعتوں نے اپنے ورکر بھرتی کرائے، بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوئیں، کیا گارنٹی ہے کہ اب جو نئی قومی ائر لائن بنے گی اس میں بھرتیاں میرٹ پر ہوں گی۔ ایسا کر کے آپ ایک سفید ہاتھی کو دفن کیے بغیر دوسرا سفید ہاتھی پیدا کردیں گے جو پری میچیور برتھ ہوگی۔مشکلات اور مسائل بڑھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آج آپ الزام لگارہے ہیں کہ سابقہ حکومت نے اپنے دور میں اپنے لوگوں کو بھرتی کیا ، آپ نے بھی تو 2013 کے بعد ایک ہزار لوگوں کو پی آئی اے میں بلازم رکھا ، کیا یہ میرٹ پر ہوا، نہیں؟ کل نئے آنے والے یہی الزام آپ کو بھی دیں گے کہ ایک ہاتھی کو دفن نہیں کیا دوسرا ہاتھی قوم پر مسلط کر دیا ۔

یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر بڑے سرکاری اداروں کو ہر حکومت نے اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو میرٹ کا خون کرتے ہوئے بھرتی کیا۔اب ان اداروں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ پی آئی اے ان میں سر فہرست ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والوں کی کارکردگی صفر رہی ۔ پیپلز پارٹی رخصت ہوئی تو ملازمین کی تعداد 18 ہزار سے زیادہ تھی،طیاروں کی تعدا 38 ہے یعنی ایک طیارے کے لیے تقریبا500 افراد، دنیا کی دیگر ائر لائنز میں طیاروں کی مناسبت سے فی طیارہ سو افراد کافی ہوتے ہیں، بھارت میں یہ تناسب114 افراد کا ہے، ترکی ، سعودیہ، ایمریٹس میں اس سے بھی کم ہے، جب کہ کارکردگی کہیں بہترہے۔ پی آئی اے کو ہر دور میں ہر حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اپنی پسند کے ملازمین اور اس کے سربراہان مقرر کیے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے۔ اس عمل سے ا خراجات کا بوجھ بڑھتا گیا ، کارکردگی کا گراف اس قدر نیچے آگیا کہ یہ ادارہ جس کانام فخر سمجھا جاتا تھا دلدل اور کھائی میں گرتا ہی چلا گیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ ہوائی سفر کرنے والے یہ ہنے لگے کہ ہماری فلائٹ پی آئی اے کے علاوہ کسی اور ائر لائن میں کرائیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ہماری قومی ائر لائن کی وہ کارکردگی تھی جس نے ہوائی سفر کرنے والوں کو اس سے متنفر کر دیا ، خسارہ اور نقصان اپنی جگہ ۔ کرپشن نے اس کی رہی سہی کثر پوری کردی،جہاز پرانے، ائر ہوسٹسز وہی پرانی جن کی عمریں پچاس سے اوپر چلتے ہوئے فوکر جہاز کی طرح ڈولتی ہوئی، غلطی یا مجبوری سے سفر کرنے کی نوبت آگئی تو پورا سفر دعائیں کرتے گزر جاتا ہے ،متعلقین اپنے گھر وں میں دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ سفر خیر سے مکمل ہو۔ حالات اور واقعات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا ہر زی شعور شخص یہ کہے گا کہ پی آئی اے کا کچھ ہونا چاہیے ، حکومت سخت اقدامات لے اس کے سدھار کے، ملازمین کی چھانٹی با عزت طریقے سے کی جائے، غیر ضروری اخراجات کم کیے جائیں، گولڈن شیک ھینڈ دیا جائے ، نئی بھرتی پر پابندی لگادی جائے ،صرف اس ادارے کے لیے ریٹائر منٹ کی حد ساٹھ سے کم کرکے پچاس کردی جائے، پینشن مکمل ہو اور اسی طرح کے جاذب نظر پیکج ملازمین کے لیے ہوسکتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہماری سیاسی جماعتیں ناکام رہی ہیں اس طرح کے اداروں کو سرکاری سرپرستی میں چلانے کی ۔ صرف پی آئی اے ہی نہیں اسٹیل کا کیا حال ہے، ریلوے کا نظام کیا اور کہا جارہاہے۔ سرکاری بسوں کا کیا حال ہے ، پولیس کی ماشاء اﷲ شاندار کارکردگی ہے؟ ہے کوئی ادارہ جو سرکار کی سرپرستی میں ہو اور اس کی کارکردگی کو ہم تسلی بخش قرار دیں ایسی صورت میں ملک و قوم کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس قسم کے اداروں کو پرائیواٹائز ہی کردیا جائے۔ لیکن ہر کام کا ایک سلیقہ ہوتا ہے، بھونڈے انداز سے جو کام کیے جائیں گے ان کا انجام بھی بھونڈا ہی ہوگا۔ اگر نئی قومی ائر لائن بنائی گئی تو یہ بحران ختم نہیں ہوگا، پی آئی اے ملازمین میں پھوٹ ڈال کر ، ان میں بغاوت پیدا کر کے ہوسکتا ہے کہ حکومت اس میں کامیاب ہوگئی کیا ٹوٹ کر آجانے والے آپ کے وفادار رہیں گے؟ وہ نئی ائر لائن میں محنت سے کام کریں گے، نہیں وہ صرف اور صرف اپنی نوکری بچانے کے لیے اپنی وفاداریاں تبدیل کریں گے اور آئندہ بھی ادارے کے لیے نقصان کا باعث ہوں گے۔ خدا کا شکر یہ ہے کہ ابھی تک کسی مشیر نے میاں صاحب کو یہ مشورہ نہیں دیا لیکن مستقبل قریب میں اس پر عمل بھی ہوسکتا ہے کہ ہڑتالیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ گرفتاریاں ہوچکی ہیں، شو کاز جارہ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی یونین نے ہڑ تال کی ، حکومت نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یونین کے تمام عہدیدوں اور کارکنوں کو جیل بھیج دیا ۔ جس اب لازمی ایکٹ کا نفاذ کیا گیا ہے اس زمانے میں بھی اسی طرح کا قانون نافذ کرکے بے شمار لوگوں کو پاکستان کی مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا ۔ ان میں میرے چچا مغیث احمد صمدانی اور میرے دوست چودھری اشرف بھی تھے۔ اس زمانے میں کے پی ٹی یونین کی صدر خورشید صاحب مرحوم ہوا کرتے تھے۔ سخت گرمی ، ہمارے چچا کو سکھر کی جیل بھیج دیا گیا، محبت نے غالب آنا تھا آئی ہم سخت گرمی میں سکھر اور پھر حیدرآباد کی جیل کے بعد کراچی کی جیل میں ان سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ آج زمانہ بدل گیا ہے حکومت اس قسم کی ہمت شاید نہ کرے لیکن سخت موقف سے خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔ پی آئی اے حکومت کے لیے واقعی سفید ہاتھی کی صورت اختیار کر گیا ہے ، اﷲ کی پناہ سالانہ پانچ ارب کا نقصان ،وزیر اعظم کا فرمانا کہ سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک پی آئی اے دس کڑور کھاجاتا ہے۔ یونین کے عہدیداروں کو بھی عقل کے ناخون لینے کی ضرورت ہے۔ جو سیاسی جماعتوں نے ہڑتال کی حمایت کی یہ ان کی سیاسی مجبوری تھی، سیاسی جماعتوں کے اپنے منشور میں خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری کرناہے۔ اس وقت پی آئی اے کی یہ صور ت ہے کہ چلے تو نقصان نہ چلے تو اس سے زیادہ نقصان ملک و قوم کو پہنچ رہا ہے اس سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے نجات حاصل کی جانی چاہیے ۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287904 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More