واشنگٹن میںعالمی ایٹمی کانفرنس اور نواز مودی ملاقات!
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
خطے میں دہشت گردی کے پھیلائو اور پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ کی صورتحال میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا معاملہ بھی عالمی سطح پر زیر بحث آ تا رہا ہے۔یہ فکر بھی پائی جاتی ہے کہ کہیں ایٹمی ہتھیاروں کی سیکورٹی کے حوالے سے عالمی سطح پر کی جانی والی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مختلف پابندیوں کا شکار بناتے ہوئے محدود بلکہ'' رول بیک'' کرنے کے اقدامات درپیش نہ ہو جائیں۔'نائین الیون 'کے بعدسابق آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے یہ نوید بھی سنائی تھی کہ ایسا کرتے ہوئے ''پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور کشمیر کاز بچا لئے گئے ہیں'' ۔ کشمیر کاز میں قدم پیچھے ہٹانے کو تو دنیا نے دیکھ لیا لیکن ایٹمی پروگرام کی صورتحال سیکورٹی کی وجہ عوام کے سامنے نہ آ سکی۔امریکہ ،یورپ،روس کی طرف سے پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کی بھرپور مددو تعاون کی سات عشروں سے چلی آ رہی مستقل پالیسی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں اس بات پر گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے ایٹمی معاملے پر بھارت کی یکطرفہ حمایت سے پاکستان کی سلامتی کے لئے سنگین خطرات پیدا ہوتے ہیں۔دنیا میں تنازعات کے پرامن اور منصفانہ حل پر توجہ دینے کے بجائے ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی پر زور دینے سے پاکستان کی تشویش میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے |
|
اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ
امریکہ میں 31مارچ سے شروع ہونے والی دو روزہ عالمی نیوکلیئر سربراہ
کانفرنس کے موقع پر ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم نواز
شریف کی ملاقات ہو سکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکہ،ہندوستان اور پاکستان
خاموشی سے اس عالمی ایٹمی کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور ہندوستان کے
وزرائے اعظم کی ملاقات کے لئے کام کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم
کے کئی بار اتفاق کے باوجودبھارت اور پاکستان کے درمیان جامع مزکرات کا
سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے ،باجود اس کے کہ اس بار جامع مزاکرات کے ساتھ ''باہمی''
کا لفظ بھی جوڑ دیا گیا ہے۔یوں اگر واشنگٹن میں پاکستان اور بھارت کے
وزرائے اعظم کی ملاقات ہو بھی جاتی ہے تو بھی دونوں ملکوں کے درمیان ''
باہمی جامع مزاکرات '' کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کے امکانات محدود ہیں اور
ماضی قریب تک کی صورتحال سے بھی اسی بات کا عندیہ ملتا ہے کہ امریکی سہولت
کاری کے بغیر تنازعات کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مزکرات کو
بامعنی اور بامقصد نہیں بنایا جا سکتا اور اس صورتحال کی بڑی ذمہ داری
بھارت پر عائید ہوتی ہے جس کی پالیسی مزکرات سے گریز کی ہی نظر آتی ہے۔
ادھرامریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے پاکستان کی جانب سے
ٹیکٹیکل نیوکلیائی ہتھیاروں میں ممکنہ اضافے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر
کہا ہے کہ ہم ان نیوکلیائی ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش کا شکار
ہیں، جو ہماری اور پاکستان کے درمیان ہونے والی ہر بحث کا حصہ ہوتے
ہیں۔انھوں نے کہالیکن ہمیں خطے میں ہندستان اورپاکستان کے درمیان موجود
کشیدگی کے حوالے سے بھی تشویش ہے اور ہم ان دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات
دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ ، واضح طور پرکشیدگی میں کچھ کمی لائی جاسکے۔
نیو کلیئر سیکورٹی سمٹ2010سے منعقد ہو رہی ہے جس کا مقصدعالمی سطح پر نیو
کلیئر ویپنز مٹیریل کو محفوظ بنانے کے لئے تعاون کرنا ہے۔ 2010 میں امریکہ
کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے مواد اور قابل استعمال ایٹمی ہتھیاروں کی
سیکورٹی کے لئے باہمی تعاون کا سلسلہ شروع کیا گیا۔یہ سلسلہ2009سے امریکی
صدر باراک ابامہ کی کوششوں سے شروع ہوا تا کہ چار سال میں دنیا میں ایٹمی
مواد کو محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جا سکیں۔2010 واشنگٹن
کانفرنس،2012سیئول کانفرنس ،2014ہیگ کانفرنس،میں گروپ کے ممالک نے اس حوالے
سے سیاسی عہد کیا۔ان کانفرنسوں کے مثبت نتائج میں 12ملکوں کے انتہائی
افزودہ یورینیم اور پلاٹونیم اور دو درجن ایٹمی سہولیات کو منتقل کرنے کی
سہولت فراہم کی گئی، دنیا بھر میں ایٹمی ذخیرہ کرنے والی جگہوں کی سیکورٹی
میں اضافہ کیا گیا،نئی شرائط تیار کی گئیں ایٹمی سمگلنگ نیٹ ورکس کے خلاف
اور مزید کئی اقدامات کئے گئے۔فزیکل پروٹیکشن آف نیوکلیئر مٹیریل (CPPNM)
کی ترامیم کی توثیق کے لئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ان ترامیم سے ریاستیں
پابند ہوں گی ،نیوکلیئر سہولیات اور پرامن ایٹمی استعمال ،ذخیرہ کرنے،منتقل
کرنے وغیرہ کی حفاظت کے لئے۔آئس لینڈ،بوٹسوانا،ترکی ،اٹلی اور امریکہ نے اس
توثیق کی منظور ی دے دی ہے۔2014کانفرنس میں35ملکوں نے نیو کلیئر سیکورٹی پر
عملدرآمد کو مضبوط بنانے کے عہد کا اعلان کیا۔تاہم اس مشترکہ عہد (اعلان)
پر اہم ممالک روس ،چین،انڈیا اور پاکستان نے دستخط نہیں کیئے ہیں۔اس
کانفرنس میں اس عہد کو مضبوط بنانے اور عملدرآمد کو ایٹمی سیکورٹی کے لئے
بنیادی اصول قرار دینے کی کوشش کی جائے گی۔مارچ میں ہونے والی اس کانفرنس
میں فوری اقدامات کے بجائے ایک دیرپا اور موثر نیوکلیئرسیکورٹی کو آ پریشن
کا موثر بنانا ہے،اس کے لئے اس کانفرنس میں طریقہ کار متعارف کرایا جائے
گا۔کہا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس میں تادیبی حوالے سے '' متبادل ،دیگر ذرائع''
زیر غور نہیں لائے جائیں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف اس عالمی نیو کلیئر کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی
کریں گے ۔اس کانفرنس میں تسلیم شدہ ایٹمی ممالک اور غیر تسلیم شدہ ایٹمی
ریاستوں کے درمیان عدم ایٹمی پھیلائو کو روکنے کے سلسلے میں کسی مفاہمت پر
پہنچنے کی کوشش کریں گے۔انہی دنوں سانفرانسسکو میں عالمی کانفرنس کی تیاری
کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری اور
جلیل عباس نے شرکت کی۔امریکی صدر اوبامہ یکم اپریل کو واشنگٹن میں چوتھی
اور حتمی نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ(NSS) کی میزبانی کریں گے۔کانفرنس میں
50ملکوں کے رہنما اور عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہوں گے۔چین کے صدر اور
ہندوستان کے وزیر اعظم بھی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔کانفرنس میں اس سلسلے
کو اور طریقہ کار کو جاری رکھنے پر بھی غور کیا جائے گا۔انہی ونوں امریکی
محکمہ خارجہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا
ہے اور کہا ہے کہ پاکستان ایٹمی سیکورٹی اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ
بنانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔امریکی وائٹ ہائوس کے مطابق
کانفرنس 31مارچ اور یکم اپریل کو منعقد ہو گی۔کانفرنس کے اہم مقاصد میں
ایٹمی دہشت گردی سے بچائو کا موضوع شامل ہے۔کانفرنس میں شریک ممالک ایٹمی
مواد کی حفاظت کے حوالے سے اپنے ملکوں کی طرف سے کئے گئے اور اجتماعی
اقدامات بیان کریں گے۔ان اقدامات میں ایٹمی مواد کا خاتمہ،ایٹمی سمگلنگ کے
خاتمے کے لئے کاروائیوں میں اضافہ،نیوکلیئر سیکورٹی کی تربیت کے لئے سینٹرز
کا قیام،اور نیوکلیئر سیکورٹی کے لئے عالمی سمجھوتوں پر عملدرآمد کرانا
ہے۔یکم اپریل کو اس کانفرنس کا مشرکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان کے کئی اہم مفادات کے علاوہ تشویش کے
امو ر بھی ہیں۔پاکستان کو عالمی برادری کی طرف سے اب تک ایٹمی صلاحیت والے
ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بھارتی جارحیت کے
خطرات کے پیش نظر پاکستان نے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی تیار کئے ہیں۔پاکستان
کی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت خاص طور پر ان ملکوں کے لئے تشویش کا باعث ہے
جو پاکستان کو بھارت کے ایک تابعدار ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے
ہیں۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع سے ہی دنیا کی نظروں میں کھٹکتا چلا آ
رہا ہے ۔خطے میں دہشت گردی کے پھیلائو اور پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کے
خلاف جنگ کی صورتحال میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا معاملہ بھی
عالمی سطح پر زیر بحث آ تا رہا ہے۔یہ فکر بھی پائی جاتی ہے کہ کہیں ایٹمی
ہتھیاروں کی سیکورٹی کے حوالے سے عالمی سطح پر کی جانی والی کوششوں کے
حوالے سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مختلف پابندیوں کا شکار بناتے ہوئے
محدود بلکہ'' رول بیک'' کرنے کے اقدامات درپیش نہ ہو جائیں۔'نائین الیون
'کے بعدسابق آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے
ہوئے یہ نوید بھی سنائی تھی کہ ایسا کرتے ہوئے ''پاکستان کا ایٹمی پروگرام
اور کشمیر کاز بچا لئے گئے ہیں'' ۔ کشمیر کاز میں قدم پیچھے ہٹانے کو تو
دنیا نے دیکھ لیا لیکن ایٹمی پروگرام کی صورتحال سیکورٹی کی وجہ عوام کے
سامنے نہ آ سکی۔امریکہ ،یورپ،روس کی طرف سے پاکستان کے مفادات کو نظر انداز
کرتے ہوئے بھارت کی بھرپور مددو تعاون کی سات عشروں سے چلی آ رہی مستقل
پالیسی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں اس بات پر گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ
عالمی طاقتوں کی طرف سے ایٹمی معاملے پر بھارت کی یکطرفہ حمایت سے پاکستان
کی سلامتی کے لئے سنگین خطرات پیدا ہوتے ہیں۔دنیا میں تنازعات کے پرامن اور
منصفانہ حل پر توجہ دینے کے بجائے ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی پر زور دینے سے
پاکستان کی تشویش میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ بقول شاعر
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں |
|