جناب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد
چوہدری صاحب! آپ یقیناً پاکستان کے معاملات اور مسائل پر گہری توجہ مرکوز
کئے ہوئے ہیں اور شائد ہی پاکستان اور اس کے عوام کا کوئی ایسا مسئلہ ہو جو
آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہو لیکن اس کے باوجود چند مسائل و معاملات ایسے ہیں
جو آپکی بھرپور توجہ کے مستحق ہیں اور میں اپنے کالم کے ذریعے آپ کی توجہ
اس جانب مبذول کرانے کی جسارت کررہا ہوں، یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں
آج کا ہر پاکستانی پریشان ہے اور میرے چند دوستوں اور قارئین نے بھی اس
جانب آپکی توجہ مبذول کروانے کے لئے کہا ہے۔ جناب والا! سب سے اہم اور
ضروری توجہ کا حامل مسئلہ قومی ہیرو اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان
سے وابستہ ہے۔ سابقہ مشرفی آمریت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کو غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی طور پر ان کے گھر
میں پابند سلاسل کر رکھا ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب! ان کا جرم بھی آپ سے ملتا
جلتا ہے، انہوں نے بھی آپ ہی کی طرح اس ملک اور قوم کے لئے دن رات، انتھک
محنت کی اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر عسکری حوالے سے ناقابل تسخیر
کردیا۔ اس جرم کی سزا انہیں اس طرح دی جارہی ہے کہ پہلے تو ان سے پاکستان
کی سالمیت کے نام پر بلیک میلنگ کر کے ”اقبال جرم“ کروایا گیا اور بعد ازاں
ان کی ”سکیورٹی“ کے نام پر انہیں مسلسل قید و بند میں رکھا جارہا ہے، اس
وقت صورتحال یہ ہے کہ حالانکہ ہائی کورٹ نے انہیں ایک آزاد شہری تسلیم کر
کے انہیں ہر جگہ آنے جانے کی آزادی دے رکھی ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو وہ
خود کہیں جا سکتے ہیں اور نہ کوئی انہیں مل سکتا ہے۔ انہیں پاکستان سے محبت
اور اس کی خدمت کے ”جرم“ میں قید تنہائی کی سزا دی جارہی ہے۔ جناب افتخار
چوہدری صاحب! آپ تو خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے ہیں، آپ کو
یقیناً وہ دن بھی یاد ہوں گے جب آپ اور آپ کے اہل خانہ پر بھی ایسی ہی
پابندیاں تھیں اور نہ تو آپ کسی سے مل سکتے تھے اور نہ کوئی آپ سے، آپ کے
گھر کے باہر بھی ایجنسیوں والے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، جناب آپ نے تو وہ دن
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نسبت بہت تھوڑے عرصے کے لئے گزارے اور برداشت کئے
لیکن وہ تو عرصہ دراز سے یہ کٹھنائیاں برداشت کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب
ہائی کورٹ کے حکم کے بعد میں ان سے ملنے گیا تب بھی انہوں نے یہی کہا کہ
چیف جسٹس صاحب میرا دکھ بخوبی جانتے ہیں اور وہ یقیناً میری مدد کریں گے،
اسی سلسلہ میں شائد انہوں نے آپ کو ایک خط بھی ارسال کیا، چند دن پہلے بھی
وہ آپ کی جانب سے کسی سو موٹو ایکشن کے انتطار میں تھے، ڈاکٹر صاحب جانتے
ہیں کہ آزاد عدلیہ کسی بھی معاشرے کے لئے کتنی ناگزیر ہوتی ہے اور اسی لئے
ان کی بھی آخری امید، اس دنیا میں، اللہ تعالیٰ کی عدالت سے پہلے، صرف اور
صرف آزاد عدلیہ اور جناب والی سے ہے۔ جناب والا! آپ خود تصور کیجئے کہ جب
آپ نے مشرف اور اس کے حواری جرنیلوں کے سامنے ”ناں“ کی تو یقیناً آپ کے ذہن
میں یہ بات بھی ہوگی کہ اگر عدلیہ ہی آزاد نہ ہوئی تو یہ ملک کیسے ترقی کرے
گا؟ علامہ اقبال اور جناح کے خوابوں کو تعبیر کیسے ملے گی؟ جناب نے اسی لئے
اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر وہ کام کیا جو گزشتہ
ساٹھ برسوں میں کوئی عادل نہ کرسکا، اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے
پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر وہ کام کیا جو پوری امت مسلمہ میں سے کوئی بھی
شخص نہ کرسکا، تو کیا ہم آج اپنے قومی ہیرو، اپنے محسن کو اس لئے بے یارو
مددگار چھوڑ دیں کہ اس کے پیچھے وکلاء کی طاقت نہیں ہے، کہ ڈاکٹر صاحب نے
اس ملک اور قوم کو بچانے کی خاطر سارا الزام بلیک میلنگ اور اوچھے ہتھکنڈوں
کی وجہ سے اپنے سر لے لیا تھا؟ جناب چیف جسٹس صاحب! آپ سے بڑھ کر اور کسے
معلوم ہوگا کہ پولیس، فوج اور ایجنسیوں کے قبضہ میں موجود کسی بھی شخص کے
”اقبالی بیان “ کی کیا قانونی حیثیت اور وقعت ہوتی ہے؟ جناب والا! اس وقت
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، جس میں جناب
جسٹس اعجاز چوہدری صاحب انہیں پاکستان کا ایک آزاد شہری تسلیم کرچکے ہیں
لیکن حکومت بیرونی دباﺅ اور اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کے لئے کسی بھی عدالتی
فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نظر نہیں آتی، ایسے میں اگر انصاف کی کوئی امید،
کوئی کرن موجود ہے تو وہ آپ سے ہے، جناب! جس طرح آپ سی سی پی او لاہور کے
مسئلہ پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب خواجہ شریف صاحب سے رابطے میں ہیں
اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مسئلہ بھی آپ سے اسی
توجہ کا تقاضا کرتا ہے، جناب والا! حکومت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سکیورٹی
فراہم کرنے کی پابند و ذمہ دار ہے لیکن ”سکیورٹی“ کے نام پر انہیں قید کرنے
کا کوئی جواز نہیں، ویسے بھی ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے
ہیں کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مت آئیں، اگر آئیں بھی تو کم
از کم پاکستان کے لئے کچھ نہ کریں؟ کیونکہ وہ اگر پاکستان کے لئے ایسی
”مجرمانہ خدمات“ سرانجام دیں گے تو ان کو بھی سزا کا حقدار سمجھا جائے گا!
جناب چیف جسٹس صاحب! دوسرا اہم مسئلہ جس کی جانب میں آپکی توجہ مبذول
کروانے کی جسارت کرہا ہوں وہ ٹریفک اور وی آئی پی موومنٹ ہے۔ جناب والا!
لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں جہاں پہلے ہی ٹریفک کے بے شمار مسائل
موجود ہیں، وہاں جب وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے تو ٹریفک میں پھنسے ہوئے شہری
ایک عذاب اور کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، میلوں لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں جن
میں مریض بھی ہوتے ہیں اور طالب علم بھی، اپنے دفتروں اور نوکریوں پر جانے
والے بھی، ہسپتالوں میں جاکر مریضوں کو دیکھنے والے، آپریشن کرنے والے
ڈاکٹر بھی اور غریب دیہاڑی دار بھی، آپ شاید تصور نہیں کرسکتے کہ جب ایک
گھنٹہ ٹریفک رکی رہے تو شہری اس ”وی وی آئی پی“ کو کیسی کیسی بددعائیں دیتے
ہیں، کسی کیسی گالیاں دیتے ہیں، ٹریفک کے عذاب میں مبتلا اکثر لوگ یہ کہتے
ہیں کہ خدارا! یہ ”وی وی آئی پی“ اتنے بڑے قافلوں کو لیکر ہماری زندگی
اجیرن کرنے کی بجائے ہیلی کاپٹر استعمال کرلیں تاکہ انہیں گھنٹوں کے حساب
سے ٹریفک میں پھنسے رہنے کی اذیت سے چھٹکارا مل جائے۔ جناب والا! مرکزی اور
صوبائی حکومتوں سے نہ تو کسی کو کوئی امید ہے اور نہ ہی وہ اپنی روش بدل
سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عوام جو اب صرف آپکی طرف امید بھری نظروں سے
دیکھتے ہیں، آپ سے تو درخواست کر ہی سکتے ہیں کہ آپ کی جان تو انہیں اپنی
جان سے بھی عزیز اور پیاری ہے، آپ کو تو ایسے کسی پروٹوکول کی ضرورت نہیں
ہے کہ آپ کے ساتھ بھی پندرہ بیس گاڑیوں کا قافلہ ہو اور آپکے قافلہ کے
گزرنے کے لئے بھی آدھ گھنٹہ پہلے ٹریفک بند کردی جائے اس کے باوجود اگر
دہشت گردی جیسے مسائل کی وجہ سے اتنی زیادہ سکیورٹی کا ساتھ ہونا ضروری بھی
ہو تو آپ تو عوام کو مزید پریشانیوں سے بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال
کرسکتے ہیں، جناب چیف جسٹس صاحب! آپ دو دن سے لاہور میں تشریف فرما ہیں اور
آپ کے لئے بھی اسی طرح ٹریفک روکی جاتی ہے جس طرح باقی ”وی وی آئی پی“
لوگوں کے لئے اور ٹریفک میں پھنسے لوگ جس طرح دوسرے ”وی وی آئی پی“ حضرات
کو کوس رہے ہوتے ہیں ان کے جذبات آپ کے قافلے کو دیکھ کر بھی ایسے ہی تھے!
جناب والا! جعلی ڈگریوں والا معاملہ بھی آپکے سامنے ہے، جمشید دستی کو
سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری ثابت ہونے کے باوجود ایک اور موقع دیدیا کہ اگر
موصوف استعفیٰ دیدیں تو ہمیشہ کے لئے نا اہل ہونے سے بچ سکتے ہیں، اسی
فیصلے کی بنیاد پر موصوف کو پہلے وزیر اعظم کا مشیر مقرر کردیا گیا اور
دوبارہ نہ صرف پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا بلکہ وزیر اعظم سمیت پوری حکومتی
مشنری جمشید دستی کی الیکشن مہم میں جھونک دی گئی، اسی طرح کچھ دیگر جعلی
ڈگری والے سیاستدانوں کو استعفیٰ دینے کا موقع دے کر انہیں دوبارہ پارلیمنٹ
میں پہنچنے اور عوام کے ساتھ دو نمبریوں کی اجازت دے دی گئی۔ جناب چیف جسٹس
صاحب! پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنی کم عقلی اور کم مائیگی کی وجہ سے
سپریم کورٹ کا یہ نکتہ سمجھنے سے یکسر قاصر رہی کہ جب ان دھوکہ باز
سیاستدانوں کی دھوکہ بازیوں کا پردہ چاک ہوگیا تو انہیں ہمیشہ کے لئے نا
اہل کیوں قرارنہ دیا گیا؟ جناب والا طوالت سے بچنے کے لئے آج اتنی ہی
عرضداشت ہے، اگر زندگی رہی تو کچھ اور مسائل کا تذکرہ آئندہ کرنے کی جسارت
کروں گا....! |