کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت

(14اگست 1947 سے اگست 1960 تک کے 13 سال کی کہانی)
عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کا اعلان 3 جون 1947 کو کیا گیا ہے اور یہ اس لحاظ سے صحیح بھی ہے کہ حکومت برطانیہ کی طرف سے باقاعدہ اعلان اسی تاریخ کو ہوا۔ لیکن یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ 16 اپریل 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کے تمام صوبوں کے گورنروں کی ایک کانفرنس دہلی میں بلائی جو اس وقت تعداد میں گیارہ صوبے تھے۔ صوبہ سندھ کی طرف سے سرفرانسیں مودی نے اس میں شرکت کی اور اس وقت سید ہاشم رضا صاحب بحیثیت سیکرٹری گورنر سندھ اس کانفرنس میں اپنے گورنر کے ساتھ شریک ہوئے اور اس کانفرنس میں یہ قطعی فیصلہ ہوگیا کہ تقسیم ہند کے بغیر چارہ نہیں اور ہندوستان کے آئینی مسائل کا یہی واحد حل ہے اس طرح اس وقت کے وزیر اعظم سندھ سرغلام حسین ہدایت اللہ مرحوم اور ان کے خاص اراکین حکومت کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوگئی تھی کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا ہی چاہتا ہے اور یہ بات بھی اب راز نہیں رہی کہ 3 جون کے تقسیم کے اعلان سے پہلے ہی حکومت سندھ نے حضرت قائد اعظم تک یہ دعوت نامہ پہنچایا کہ پاکستان کے ہونے والے دارالحکومت کے لئے حکومت سندھ کراچی کو وفاقی دارالحکومت کا مرکز بنانے کی پیش کش کرتی ہے جب دہلی میں مسلم لیگ ہائی کمان کو قیام پاکستان کا یقین ہوگیا تو قائد اعظم کے حکم سے مرحوم لیاقت علی خان نے چوہدری محمد علی مرحوم کی نگرانی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے لئے جگہ کے انتخاب کی ایک کمیٹی بنائی تاکہ پاکستان کے صوبوں میں سے کسی جگہ پر وفاقی دارالحکومت کا انتخاب کیا جاسکے چوہدری محمد علی مرحوم نے اس سلسلہ میں پاکستان میں شامل ہونیوالے سب صوبوں کے قائدین اور ارباب اختیار سے وفاقی دارالحکومت کے امکانات پر سلسلہ جنبانی کی مگر حالات کچھ ایسے تھے اور ریڈکلف ایوارڈ کے مظالم اور لاکھوں مہاجرین کی ہجرت اور ان کے قتل عام نے 3 جون کے اعلان کے ساتھ ہی نوزائیدہ پاکستان کے ایسے المناک حالات سے دوچار کر دیا کہ سبجز صوبہ سندھ کے ساتھ ہی نوزائیدہ پاکستان، اپنے جغرافیائی حالات کی وجہ سے صوبہ سرحد انتہائی شمال کی دوری اور پڑوش کے غیر دوست ممالک کی سرحدوں سے قربت اور خود وفاقی حکومت کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان موسمی حالات، دوری اور وفاقی مرکز کے لئے سامان فراہم نہ ہونے کی وجہ سے، اور پنجاب جو زیادہ بہتر طور پر پاکستان کے وفاقی حکومت کا مرکز بن سکتا تھا، تقسیم پنجاب کے بعد لاہور شہر کی ہندوستانی سرحد سے انتہائی قربت اور مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے ہنگامی مسائل سے دوچار تھا۔ اس طرح وفاقی حکومت کا صدر مقام بننے کے قابل نہ رہا۔ اس لئے ان چاروں صوبوں میں سے کسی نے بھی چوہدری محمد علی مرحوم کو اپنے یہاں وفاقی حکومت کا مرکز قائم کرنے کی دعوت نہیں دی اور ہر ایک کی مجبوری بالکل جائز اور صحیح تھی۔

اس کے برعکس حکومت سندھ نے اپنے یہاں کراچی میں وفاقی دارالحکومت قائم کرنے کا فیصلہ ذہنی طور سے 16 اپریل 1947 کو ہی کر لیا تھا اور پھر جب 3 جون کے اعلان کے بعد قائدین پاکستان کو سرگرمی سے وفاقی دارالحکومت کی جگہ کی تلاش ہوئی تو سر غلام حسین ہدایت اللہ مرحوم وزیراعظم سندھ کی طرف سے جولائی 1947 کے پہلے ہفتہ میں جناب آغا شاہی جو جناب سید ہاشم رضا کی طرح قیام پاکستان کے پہلے سے ہی سندھ میں بطور آئی سی ایس افسر مقرر تھے، چوہدری محمد علی صاحب کے پاس دہلی پہ پیشکش لے کر گئے کہ حکومت سندھ بڑی مسرت سے کراچی کو حکومت پاکستان کا وفاقی دارالحکومت بنانے کی پیش کش کرتی ہے۔ قائد اعظم نے جناب آغا شاہی کے ذریعہ حکومت سندھ کی پیش کش کو قبول کرلیا اور اس کو قابل قدر کارنامہ قرار دیا۔

پاکستان کا وفاقی دارالحکومت قائد اعظم کی آمد کے ساتھ ہی 14 اگست 1947 کو کراچی میں قائم ہو گیا۔ گورنر ہاؤس گورنر جنرل ہاؤس بنا دیا گیا اور سندھ کی اسمبلی، پاکستان کی پارلیمنٹ قرار دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کے پشت پر واقع دو منزلہ بلڈنگ جواب ویران حالت میں ہے، پاکستان کے دزرائ کے دفاتر قرار پائی اور مختلف پرانی فوجی بارکوں میں جو انگریزی استعمار کی یاد گار تھیں۔ مختلف وفاقی محکموں کے دفاتر قائم کئے گئے۔ سندھ گورنمنٹ سے درخواست کر کے ان کے بعض دفاتر کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا اور وفاقی محکمے وہاں بسائے گئے۔ پھر بھی اس وقت کی حکومت جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی دنیا کی سب سے بڑی مسلم حکومت تھی اس کو مسلسل اپنے دفاتر کی وسعت کے لئے کافی جگہ درکار تھی جس کا فوری اور معمولی بندوبست یہ کیا گیا کہ سیمنٹ کی چادروں سے دفاتر کی کچھ ایک منزلہ قطاریں وزرائ کے عارضی دفاتر کے سامنے بنادی گئیں اور کچھ عرصہ بعد تغلق ہاؤس کے نام سے کئی منزلہ عمارت وفاقی حکومت نے تعمیر کی جو کسی ایک بھی وارت کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی نہیں تھی، وزارت خارجہ جیسا اہم ترین محکمہ کلفٹن میں مہتہ پیلس نامی ملڈنگ میں اس طرح قائم کیا گیا کہ اس کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کچھ اور عمارتیں بھی حاصل کرنی پڑیں وزرائ اور عمال حکومت اور ان کا بڑا چھوٹا اسٹاف جو ہزاروں کی تعداد میں تھا اور روز بروز بڑھ رہا تھا، ان کے رہائشی مسائل پیچیدہ شکل اختیار کرتے جا رہے تھے تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود، قابلِ صد ستائش ہے اس وقت تکالیف برداشت کرکے بے سرد سامانی میں بھی مسلمان قوم کی اہلیت حکمرانی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اور پاکستان کی بنیادوں کو اس طرح مستحکم کیا کہ اڑوس پڑوس کے جو بد خواہ دوربین لگا کر ہماری حالت زار کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ وہ سب شدید مذامت اور محرومی کے شکار ہوگئے جب انہوں نے ان حالات میں بھی پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر ہوتے دیکھا تو پنڈتوں کا علم نجوم پارہ پارہ ہو گیا۔

جب کوئی ناممکن چیز وجود میں آجائے تو ہم اس کو معجزہ کہتے ہیں اور یہ معجزہ پاکستان کے استحکام کی صورت میں ظاہر ہوچکا تھا، اسی لئے اس کا بڑا سچا نام مملک خداداد پاکستان ہے تقسیم پاکستان کے وقت جو سازش حکومت برطانیہ اور ہندوقیادت نے مل کر کی تھی اور جس کے نمایا کردار لارڈماؤنٹ بیٹن، ریڈکلف، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردارپٹیل کی شکل میں تاریخ میں اپنے کارنامے ریکارڈ کراچکے ہیں، ان کی خواہش تھی کہ یہ کٹاپٹا اور بے وسائل پاکستان جلد از جلد ختم ہو جائے۔ پنجاب کی ہولناک تقسیم اور لاکھوں مہاجروں کے لٹے پٹے اور کٹے ہوئے قافلے حکومت پاکستان کی کمرتوڑ دیں اور ایک کروڑ کے قریب مہاجرین کی آباد کاری، نوزائیدہ پاکستان کے لئے موت کا پیغام بن جائے اور مزید پاکستان کو اپنے وفاقی مرکز کے لئے کوئی جگہ بھی میسر نہ آئے لیکن پروردگار کو مسلمان قوم کو کامیاب اور سرخ رو بنانا تھا جس نے بالآخر تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔

دستوری اور آئینی طور سے کسی ملک کا وفاقی دارالحکومت، آئینی منظوری کے بعد بنایا جاتا ہے اور پھر اس میں دارالحکومت اپنا کام شروع کرتا ہے لیکن کراچی کو وفاقی دارالحکومت کسی آئینی فیصلے سے پہلے ہی عملاََ قرار دیا گیا۔ کیونکہ پاکستانی قوم حب وطنی کے جذبے سے معمورتھی اور سندھ کے محب وطن عوام، ایک دن کی تاخیر کے بغیر، حکومت پاکستان کو کراچی کی آغوش میں لینے کے لئے ہر طرح سے تیار تھے۔ اس طرح 14 اگست 1947 سے 23 جولائی 1948 تک پاکستان کا وفاقی دارالحکومت، کراچی میں بطور مہمان رہا اور اس کے بعد 23 جولائی 1948 کو پاکستان کے بانی و گورنرجنرل پاکستان(قائد اعظم محمد علی جناح ) نے ۔
The Pakistan Establishment of the federal Capital order – 1948.
جاری کیا اور اس تاریخ سے کراچی پاکستان کا آئینی دارالحکومت قرار پایا۔ اور اس سے پہلے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 22 مئی 1948 کو کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے دارالحکومت بنانے کی قرارداد منظور کی تھی۔

یہ تمام تر فیصلے قائد اعظم محمد علی جناح، جو کہ پاکستان کے بانی تھے ان کے آرڈر سے ہوا اور قائد اعظم پاکستان بننے کے بعد 11 ستمبر 1948 یعنی 1 سال 28 دن کے بعد ہی وفات پاگئے۔جب پاکستان کے دارالحکومت کو بنانے کے لئے اجلاس رکھا گیا تھا اس وقت تک کوئی اپنے صوبے میں دارالحکومت بنانے کے لئے تیار نہیں تھا اور جب بانی پاکستان کراچی کو آئینی طور پر دارالحکومت بنا گئے تھے تو بعد میں کراچی سے اسلام آباد، دارالحکومت کو کیوں منتقل کر دیا گیا۔ اور جب 22 مئی 1948 کو کراچی کو سندھ سے الگ کرکے دارالحکومت بنانے کی قراردادمنظور ہوگئی تھی تو اب کس بات کا جھگڈا ہو رہا ہےکراچی کیا اب بھی سندھ کا ہی شہر ہوگا؟دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے پیچھےکن لوگوں کی سوچ شامل ہیں وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بانی پاکستان کے فیصلہ اور آئین کے خلاف یہ کام کیا؟
Ammar Abbas
About the Author: Ammar Abbas Read More Articles by Ammar Abbas: 4 Articles with 2428 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.