زراعت ۔کسان تباہ۔۔۔۔ذمہ دار کون۔۔۔۔؟
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
بلا شعبہ زراعت پاکستان کی معشیت میں ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے فصلوں کی دیکھ بھال پر
اٹھنے والے اخراجات اور زرعی کپاس ،دھان ،گنا،آلو،گندم ،مونجی،مکئی اور
دوسری فصلوں کے کم نرخوں کی وجہ سے آج کسان پریشان ہے اور اس سے وابستہ
تمام افراد حکمرانوں کی بے حسی، انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی نظر اندازی
کے باعث تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔جب سے پاکستان وجود
میں آیا اس وقت پاکستان کی زراعت کی پوزیشن 53فیصد تھی ۔جو اب حکمرانوں کی
نظر ہوتے ہوئے 21فیصد رہ گئی ۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سرمایہ کاروں نے
زراعت کے شعبہ کی طرف دھیان نہیں دیا۔ کیا یہ حکمران نہیں جانتے کہ اگر سب
سے بڑی معشیت زراعت تباہ ہو جائے گی تو ملک ترقی کیسے کرے گا۔ پاکستان کا
تقریباً 80فیصد رقبہ قابل کاشت ہے لیکن اس میں سے محض 20سے 43فیصد رقبے پر
کاشت ہو رہی ہے ۔زرعی ملک پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کا عالم یہ
رہا ہے کہ ملک کی غذائی ضروریات کو ملکی وسائل سے پورا کرنے اور کاشت کا
رقبہ بڑھانے کی بجائے اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کر کے امپورٹ کیا جا رہا
ہے ۔پاکستانی حکمرانوں اور زرعی ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے ۔کہ
ہمسایہ ملک بھارت سے ہم نے ایک سال میں 15ارب کا ٹماٹر منگوایا ہے ۔ ضرورت
اس بات کی ہے کہ کیاہمارے کسان ٹماٹر کاشت نہیں کر سکتے یا پھر پاکستانی
حکمرانوں کو پاکستانی ٹماٹر پسند نہیں ۔ بہت افسوس ایسے حکمرانوں پر جو
ایسی منصوبہ بندی کرتے ہیں پاکستان میں تمام فصلوں کو کاشت کرنے کے وسائل
موجود ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو اپنے دیس کی فصلوں اور کسانوں سے محبت
نہیں ہے ۔ یہ حکمران غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو کھوکھلا کرنا چاہتے
ہیں ۔ اگر یہ حکمران کسانوں کو تمام فصلوں اور سبزیوں پر سبسڈی دیں تو
پاکستان زرعی لحاط سے دنیا کا سب سے بہترین ملک بن سکتا ہے ۔ ان کی غلط
پالیسیوں کی وجہ سے دوسرے ملکوں سے لائی جانے والی اشیاء کو ڈیوٹی فری کر
دیا جاتا ہے ۔ جس سے ملک کو بہت سا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔
کاشت کار تنظیموں کے دھرنوں کے اثر سے حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں
کامیابی حاصل کرنے اور شعبہ زراعت سے وابستہ 67فیصد آبادی کی حمایت حاصل
کرنے کیلئے 341ارب پر مشتمل کسان پیکج کا اعلان کردیا ۔لیکن وہی ہوا جس کا
ڈر تھا ۔بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے اپنی تقریروں
میں اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس پیکج کی بھر پور مخالفت کی تھی ۔
یہ سیاسی جماعتیں بھی نہیں چاہتی کہ کسان کا فائدہ ہو سکے ۔ وزیر اعظم نے
دھرنوں اور کسانوں کی سختہ حالی کو دیکھ کر کسان پیکج کا اعلان تو کر دیا
مگر دوسری سیاسی جماعتوں سے یہ پیکج ہضم نہیں ہو سکا۔ اس سے ثابت یہ ہوتا
ہے کہ پاکستان میں موجود تمام سیاستی جماعتیں صرف کسانوں کے ساتھ ہیں مگر
جب ان کے فائدہ کی کوئی بات ہو تی ہے تو یہ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔سیاسی
جماعتوں میں یہ دوغلا پالیسی کب ختم ہو گی ۔ اور کب کوئی کسانوں کے بارے
میں سوچے گا۔
اگر ہم نے اپنے کسانوں اور زراعت کے شعبہ کو بچانا ہے تو زراعت کے شعبہ کو
ترقی دینے کے ٹھوس پالیسیز کی ضرورت ہے۔ جس سے کسان کی ترقی اور خوشحالی کے
لئے جدوجہد کی جا سکے ۔جس سے کسان کو بچایا جا سکے ۔جس سے کسانوں کے گھروں
کو دوبارہ شادباد کیا جا سکے۔ جس کسانوں کے بجھے چہروں پر دوبارہ رونق آسکے۔
ایسی پالیسیز بنائی جائیں جس سے کسان کو زیادہ سے زیادہ رلیف مل سکے ۔کسانوں
کو اس کی فصل پر سبسڈی دی جائے جس سے کسان اپنی پیداوار کو بڑھا سکے ۔
کیونکہ اگر کسان کو رلیف ملے گا تو شعبہ زراعت بھی ترقی کرے گا۔شعبہ محکمہ
زراعت کے نمائندوں کو چاہئے کہ وہ کسانوں کو اپنی سروسز فراہم کریں اور
کسانوں کو زیادہ پیداوار بڑھانے کے لئے ان کی معاونت کریں ۔اور کسانوں کی
فصل کا معائنہ کریں اور ان کو اچھی اور معیاری ادویات کا استعمال بتائیں ۔تاکہ
ان کی فصل کیٹرے مکوڑے،اور سنڈیوں سے بچ سکے۔اور پیداوار میں اضافہ ہو سکے
۔ اگر اسی طرح منصوبہ بندی نہ کی گئی تو زراعت کا شعبہ تباہ ہو جائے گا۔جس
سے پاکستان کی زرعی ترقی کا نقصان ہو گا۔ اور کسان کی بھی ترقی نہیں ہو سکے
گی۔اگر ان کو بچانا ہے تو ان کے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے شعبہ
زراعت اور کسان دونوں کو بچایا جا سکے۔آج کسان اور زراعت کا شعبہ مکمل طور
پر تباہ ہو چکا ہے ۔ ان کو بچانے کے لئے حکومت کیامنصوبہ بندی کر رہی ہے۔
اس شعبہ کو بچانے کے حکومت کو سنجیدہ طور پر کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ ورنہ
یہ کسان تو پہلے ہی مر رہا ہے کہیں یہ محکمہ اور اس کے نمائندے بھی سڑکوں
پر نہ آجائیں ۔اگر یہ محکمہ اور کسان خوشحال نہیں ہوتے تو اس کی ذمہ داری
کس پر ہوگی ۔ اگر ان کو نہ بچایا گیا اور ان کو وسائل میسر نہ کیے گئے تو
ان کی تباہی کی ذمہ داری حکومت اور حکومتی نمائندوں پر ہو گی ۔خدارا ہمارے
ملک کے کسانوں کی حالت پر رحم کرو اور ان کو خوشحال بنانے کے لئے کچھ
اقدامات کرو۔ |
|