مسئلہ تختی ہے

وہ شخص جو ایسا کام کر دکھائے جسے دنیا کرنے سے قاصر ہو اُسے ذہین کہا جاتا ہے اور وہ شخص جو ایسا کام کر جائے جس کے بارے میں دنیا سوچ بھی نا سکے اُسے لیڈر کہتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کے مخالف بھی اُس کی خوبیوں کے قائل ہو گئے اور رنگ و نسل کے امتیاز کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اُسے اپنا لیڈر کہنے لگے اُس نے لیڈر کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
ــ''لیڈر اور سیاستدان میں صرف یہی فرق ہے کہ سیاستدان آنے والے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر آنے والی نسل کے بارے میں"۔

ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے ہاں لیڈروں کی اس قدر بہتات ہوگئی ہے کہ اب لیڈر تلاش کر نا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ ایسے لیڈر ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ اگر بیرونِ ملک کسی سے بات کرتے وقت اگر آپ غلطی سے اُسے یہ بتا دو کے میرا تعلق پاکستان سے ہے تو یقین مانیں وہ آپ سے تھوڑا دور ہٹ کر کھڑا ہو گا اور کوشش کرے گا کہ آپ سے کم ہی بات کرے۔ برُے حالات ہیں مگر ایسے بھی بُرے نہیں جتنے ہم خیال کرتے ہیں بلکہ ہمارے خیال سے بھی کہیں بد تر ہیں اور اگر یہ عمل یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں ہماری قبروں پر تھوکا کر یں گی۔ فتنہِ دجال تو بہت دور کی بات ہے قبروں میں پڑی ہماری ہڈیاں ہماری اپنی اولاد کی لعنتوں کا نشانہ بنیں گی۔

پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے جو گل کھلائے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے دنیا نے ہمارے بارے میں جو رائے قائم کی ہے وہ اعدادو شمار کی زبان میں کچھ یوں ہے۔ گلوبل فنانس میگزین ۲۰۱۵ ء کے مطابق پاکستان غریبوں میں دنیا میں ۵۲ نمبر پر ہاتھ میں کٹورا لیے امراء کے دروازوں پہ کھڑا ہے۔علم کے حوالے سے بھی ہمیں شرمندہ ہونے کی کوئی خاص ضرورت نہیں اس وقت ہماری شرحِ خواندگی ۵۲ فیصد ہے اور اس ۵۲ فیصد میں ہم اُن لوگوں کو شامل کرنا نہیں بھولے جو اپنا نام لکھنا جانتے ہیں۔کرپٹ ترین ممالک میں بھی ہم خاص خاص رہے ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۱۵ ء کی رپورٹ کے مطابق ہمیں ۱۰۰ میں سے ۳۰ نمبروں سے نوازا گیا ہے اور کرپٹ ملک کہلوانے کی اس دوڑ میں ہم نے بنگلہ دیش اور انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے ہی بہت سے کارنامے ہمارے حکمرانوں کے ماتھے کا جھومر ہیں جن کا ذکر بار بار یا ایک ہی بار کردینا مناسب نہیں۔ آج اپنے حکمرانوں کی سوچ کا ایک چھوٹا سا پہلو آپ کے سامنے رکھوں گا موضوع کی مناسبت سے انداز ذرا بدلا بدلا سا محسوس ہو گا مگر اس بات کا میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو میری باتوں سے حقیقت کی بوضرور آئے گی۔
ایسی ذہنیت ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کی ہی ہو سکتی ہے جو قومی خزانے کو اپنی جائز منقولہ ملکیت سمجھتے ہیں اور اُسے بلا تاخیراپنے گھروں اور اکاونٹس میں منتقل کر لیتے ہیں۔پہلے تو عوام پر کچھ خرچ ہی نہیں کیا جاتااور اگر کیا بھی جائے توصرف ایسی جگہ کیا جاتا ہے جہاں خرچ کرنے والے کے ذاتی مفادات وابستہ ہوں یعنی جہاں اُس کا نام ہو۔ یہ کسی ایک حکومت کا مسئلہ نہیں تھوڑا بہت اوپر نیچے کر کے ہر کسی کے دور میں یہی چلتا آیا ہے۔ ہر نئی حکومت پہلی حکومت کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو بغیر سوچے سمجھے بند کروا دیتی ہے اور ساتھ ہی یہ رونا شروع کر دیتی ہے کہ پچھلی حکومت نے قومی خزانے کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اب خزانہ خالی ہے جس کی وجہ سے ہم ان منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے اور اس طرح اربوں کھربوں روپے کے وہ پراجیکٹ نامکمل حالت میں ہی مکمل طور پرشکست وریخت کی نظر ہو جاتے ہیں۔ نقصان کس کا ہوا؟ نئی حکومت کا یاپرانی حکومت کا؟

نقصان کسی بھی حکومت کا نہیں ہوا۔ خسارے میں رہے تو صرف عوام اور یہ آج یا کل کی کہانی نہیں بلکہ اس قوم کے ساتھ برسوں سے ایسا ہو رہا ہے ۔پچھلی حکومت کے منصوبوں کو بند کرنے کی وجہ فنڈز کی عدم دستیابی نہیں بلکہ سنگِ بنیاد پہ لکھے پرانی حکومت کے عہدہ دار اور پارٹی کا نام ہے اور ایسے ہی کئی نام ہزاروں نہیں تو سینکڑوں منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ نئی حکومت گوارا ہی نہیں کرتی کہ پیسے ہم لگائیں اورسنگِ بنیاد پہ نام کسی اور کا ہو۔ مسئلہ فنڈز نہیں بلکہ اپنے نام کی تختی کا نا ہونا ہے اور جب تک یہ تختی کا رولا ختم نہیں ہوگا خسارہ اس قوم کا مقدر ہے۔
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 32 Articles with 26504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.