اُف یہ طوفانِ بدتمیزی!!!
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
گذشتہ کئی ہفتوں سے میں مستقل ’’کہانی اپنے
ہندوستان کی‘‘ کی قسطوں ہی کو مکمل کرنے میں اپنی تمام تر توجہات کو مبذول
کیے ہوا تھااوریہ عزم کرلیا تھاکہ جب تک کہانی کی آخری قسط کو سپردِ قرطاس
نہ کرلوں کسی دوسرے موضوع پر قلم رانی کی زحمت نہیں کروں گا، مگر گذشتہ کچھ
ہفتوں سے جب ہمارے ملک کے ’دیش بھگتوں‘ نے جے این یو کے طلباکے خلاف ملک
میں طوفانِ بد تمیزی اور ہنگامۂ رُستا خیز برپاکردیا،تو احساسات وجذبات کے
بحرِ ذخار میں تموج پیدا ہونے لگا، میں بے خودجذبات کی لہروں میں بہتا
چلاگیا،ان ریلوں نے عزم وارادے کے اس پہاڑ کو متزلزل کردیا، دل کی دھڑکنوں
کے ساتھ ہاتھوں کی انگلیاں از خود رفتہ ہوگئیں اورپھرصفحۂ قرطاس پر دل کے
قلم سے اپنے احساسات وجذبات کی لکیریں کھینچنے لگا، کیونکہ یہ بات صرف جے
این یو کے طلبا کی نہیں ہے، بلکہ بھگوا سپاہیوں کی نظر میں آج اگر کوئی
طالب علم مجرم ٹھہرا ہے، تو یہ کون ضمان لے سکتا ہے کہ کل کووہ کسی دوسرے
طالبِ علم کے چراغِ رَہ زیست کو نہ بجھادے؟یہ مسئلہ اس لیے توجہ کا طالب
نہیں ہے کہ اس میں جے این یو کے طالبِ علم شریک ہیں، بلکہ اس مسئلہ کو جس
طرح مرغن کرکے پیش کیا گیا ہے، اس کو سن کر اور پڑھ کر ہر معتدل فکر رکھنے
والے انسان کا خون جوش مارے گا ہی، اس کے جذبات میں تموج پیدا ہوگاہی،ان کی
مانگیں صرف ملک میں امن وا مان بحال کرنا تھیں اور یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں
تھا کہ اس کو رائی کا پہاڑ بناکر پیش کیا جائے، لیکن یہ ہماری حرماں نصیبی
کہہ لیجیے کہ اس ملک میں لوگ حقیقت سے زیادہ آواز پر توجہ دیتے ہیں ، بلکہ
یہاں صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کا معیار بھی آواز ہی ہے ،یہ آواز جس کے
موافق ہوگی، وہ اس ملک کا ہیرو خواہ وہ کتنا ہی جاہل اور کتنا ہی بڑا مجرم
کیوں نہ ہو اور یہی آواز جس کے مخالف ہو گی وہ ’دیش دروہی ‘ اور اب ملک میں’
دیش دروہی‘ کا لفظ اتنا عام ہوگیا ہے کہ بذاتِ خود اب یہ ایک مذاق لگنے لگا
ہے ۔ ذراسی کوئی بات ہوئی ہر چہار طرف سے یہ آواز آنے لگتی ہے کہ فلاں دہشت
گرد ہے ، فلاں کا فلاں تنظیم اور گروہ سے تعلق ہے ، اس نے اس تنظیم کے فلاں
سربراہ سے بات کی ہے، اس کے گھر سے سائیکل کی دو پرانی چابھیاں برآمد ہوئی
ہیں..... وغیرہ وغیرہ،لیکن حقیقت میں جس شخص پر یہ سارے الزامات عائد کیے
جاتے ہیں، اس بے چارے کو خودبھی ان تنظیموں اور ان کے افراد تک کا نام
معلوم نہیں ہوتا ، چہ جائیکہ اس سے اتصال وارتباط قائم کیے جائیں۔ طلبۂ جے
این یو کا یہ مسئلہ بھی انہی سلسلوں کی ایک کڑی ہے، ابھی ہماری عدلیہ نے یہ
فیصلہ بھی نہیں کیا ہے کہ جن طلبا پروہ سارے بے بنیاد الزامات لگائے گئے
ہیں وہ واقعی مجرم بھی ہیں یانہیں، اس سے پہلے ہی ’دیش بھگت‘ سیاست داں
دھوتی کی دمچی ہلاتے ہوئے بھگوائی لاٹھی ڈنڈے کی زور پر ہمیشہ کی طرح ان کو
بھی دیش دروہی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے،یہی نہیں کچھ’ محبِ وطن‘ نے تو
محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر ان کو گولی مار دینے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ ان
محبِ وطن اور دیش بھگتوں کے ہفوات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، مگر یہ بات
سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ ملک میں آئے دن ایک نیا طوفان کھڑا کرتے ہیں،
خانہ خانہ اور بستی بستی ویران کردیتے ہیں، بچوں کو نیزہ کی انیوں پر
اچھالتے ہیں، نوجوانوں کو آگ کا ایندھن بنادیتے ہیں،بوڑھوں کے لیے موت سے
قبل ہی قبر کھوددیتے ہیں اور عورتوں کی چادرِ عصمت کو تارتار کردیتے ہیں ،
اچانک ان کے دلوں میں حب الوطنی کا یہ جذبہ کہا ں سے امنڈ آتا ہے؟ممکن ہے
سیاست کے بازار میں ملتا ہو،مگراس کا خریدار بھی بھگوائی کے علاوہ کوئی اور
نہیں دِکھتا!
اگر آپ ایک انصاف پسند انسان ہیں ، تو ذرا ماضی میں تاریخ کی گھونگھٹ
اٹھاکر دیکھیے، آپ کو ملک اور آرایس ایس کی پالیسیوں میں ایک لمبی خلیج
دکھائی دے گی ؛ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادکرایا گیا تاکہ دنیا کے
نقشہ پر اس کا اپنا ایک نمایا مقام ہو اوریہاں کی عوام اس کی خوش گوار
فضامیں چین و سکون کی سانس لے سکے، مگر آرایس ایس کی ہمیشہ سے یہی تمنا رہی
ہے کہ اس کی فضا کو زہرآلودکر دو تاکہ لوگ سکون کی سانس نہ لے سکیں، ملک کے
قانون نے اپنے ہر شہری کو انسان ہونے کا درجہ دیا ہے، مگراس نے ہمیشہ اس کے
ایک طبقہ کو غلام ہی رہنے دینے کی بات کی ہے ،اس ملک کے گلدستہ کو گلہائے
رنگا رنگ سے سنواراگیا، تاکہ اس میں ہر طرح کے پھول کھلیں، مگر اس نے ہمیشہ
اس کو خراباں ہی کرنے پر اپنا پورا زور صرف کیاہے اوراس ملک کی عوام نے
اپنے لیے کیسریہ ، سبز اور سفید رنگوں کے امتزاج کا جھنڈا پسند کیا،مگران
دیش بھگتوں کو اپنا جھنڈابھگوا ہی پیارا لگا۔ آپ کو تعجب ہوگا، مگر یہ ایک
تلخ حقیقت ہے کہ آزادی کے تقریباً 52 سال بعد آر ایس ایس کے صدر دفتر
’اسمرتی بھون‘ پر سن 2001 میں ترنگا لہرایاگیااور اُسی سال ناگپور میں جب
کچھ سماجی کارکنوں نے آر ایس ایس کے احاطے میں ترنگا لہرانے کی کوشش کی تو
ان کے خلاف کیس بھی درج کیا گیا۔کیایہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ جو
گروپ ترنگا سے اس قدر نفرت کرتا ہو، اچانک ان کے دلوں میں ترنگا کی محبت
کہاں سے آگئی؟ جب مودی جی نے ترنگا سے اپنا پسینہ خشک کرکے اس کے وقار کو
مجروح کیا، تو اس وقت ان کی ترنگائی محبت کہاں چلی گئی تھی اور کچھ ہی دنوں
پہلے جب گوالیئر میں دستورِ ہند کو نذرِ آتش کیا گیا، جس کے باوصف مودی جی
نے کہاتھا کہ قانون ہی ہماری مذہبی کتاب ہوگا، تو ’دیش دروہی‘ کا فیصلہ
کرنے والے ہمارے یہ دیش بھگت کہاں روپوش ہوگئے تھے؟ عجیب مذاق ہے اگر کوئی
وندے ماترم نہیں پڑھے، تو وہ’ دیش دروہی‘؟واہ رے محبِ وطن تیرے اندازِ عشق
کو سلام !جن نوجوان کوتم دیش کا مستقبل اور روشن ستارہ کہتے ہو،آج انہی کی
پیشانی پر’ دیش دروہی‘ کا لیبل لگادیے، الٹے ہی چال چلتے ہیں دیوان گانِ
بھگوا!
انہی دنوں جب طوفانِ بدتمیزی شباب پر تھا، اے بی پی کی ایک خاتون رپورٹر ان
جاہل وکلا سے بات کرنے کی کوشش کی جو طلبا کے خلاف مارچ کررہے تھے، تو ان
میں سے ایک نے کہا پہلے آپ ’جے ہند‘ اور’ جے ماتادی‘ کا نعرہ لگایے پھر ہم
آپ کے سوالوں کا جواب دیں گے ؛ ایسے ہوتے ہیں ہمارے دیش کے وکلا، کپڑا بھی
کالا اور دل تو کالا ہے ہی ، یہ ہردم انصاف اور قانون کی بات کرتے ہیں، مگر
خود ان کے سارے اعمال قانون کے مخالف ہوتے ہیں اور اب تو ایسا لگنے لگا ہے
کہ ہندوستانی ہونے کا معیار صرف نعرۂ وندے ماترم ہی رہ گیا ہے؛طلبا پریہ
بھی الزام ہے کہ وہ حکومت کا کھاکر اسی کی تعلیم گاہوں میں مفت تعلیم پاتے
ہیں اور پھر اسی کو آنکھ بھی دکھاتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کا
جتنامال ہمارے یہ سفید پوش ہڑپ جاتے ہیں، کیا اس کا دسواں حصہ بھی ان تعلیم
گاہوں پر خرچ ہوتا ہے ، حکومت کے یہ خیرخواہ حکومت کے خزانے میں سے اتنا
مال تو ضرورچرالیتے ہیں کہ ان کئی نسلوں کو کسبِ معاش کی دقت نہ ہو، مگر
کیاکوئی ان پر بھی انگشت نمائی کی جرأت کرتا ہے؟ان سب کو دیکھ دیکھ کبھی تو
یہ جی کرتا ہے کہ ان کی عقلوں پر ماتم کروں جو تعلیم گاہوں کی عزت وآبرو پر
کیچڑ اچھالتے ہیں،ان تعلیم گاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ بتاتے ہیں ، جنہوں نے
نہ جانے کتنے ہی علمِ آفتاب کے ماہ وانجم سے اس گلشنِ بہاراں کو منور کیا
ہے ، جن کے سپوتوں نے ہر دور میں گراں قدر علمی، عملی اور سیاسی خدمات
انجام دے کر پوری دنیا میں ملک کا قد اونچا کیا ہے، آج وہ انہی آفتاب کو
کجلانے کی باتیں کرتے ہیں،کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جن کے آباواجداد نے
ملک کی آزادی میں اپنا سب کچھ نچھاوڑ کردیا، آج انہی کے سپوتوں کو دیش واد
کی سند ان سے لینے کی ضرورت پڑگئی جو ہمیشہ سے ملک کے غدار رہے ہیں،پوری
تاریخِ آزادی میں کبھی کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اس میں کسی بھگوائی کا
ایک قطرہ بھی خون بہا ہو، حقیقت ہے کہ جب جاہلوں کاملک پر قبضہ ہوگا ، تو
گنگا الٹی ہی بہے گی!! |
|