زعفرانی دہشت گردی:حیدر آباد یونیورسٹی سے جواہر لال یونیورسٹی تک

جموں کشمیر کے پمپور مقام پر عسکریت پسندوں کے حملہ میں ایک دہشت گرد کے علاوہ پانچ فوجی ہلاک ہوئے جن میں سے ایک پون کمار کا تعلق نہ صرف ہریانہ بلکہ جے این یو سے بھی تھا ۔ وہی ہریانہ جس میں ریزرویشن کی مانگ کو لے کر چلنے والی تحریک نے ابھی تک ۱۲ لوگوں کی جان لے لی ہے۔ پون کمار جے این یو کا طالبعلم تھا جہاں کشمیر کے نام پر ایک مصنوعی زلزلہ برپا کردیا گیا اس طرح گویا آگ اور خون کا دریا دہلی سے لے کرہریانہ ہوتا ہوا سرینگر پہنچ گیا ہے۔اس دوران جن نام نہاد شیردل زعفرانی وکلاء نے جے این یو ایس یو کے صدر کنھیا کمار پر سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف چھتیس ہزاری کورٹ کے احاطے میں پولس سے ملی بھگت کرکے بزدلانہ حملہ کیا تھا وہ بھیگی بلی بن کر نہ جانے کس سرنگ میں دبک گئے ہیں ۔ اسی کے ساتھ عمر خالد کو بدنام کرنے کی خاطر جعلی ویڈیو نشر کرنے والے ٹی وی چینلس کا منہ بھی کالا ہوگیا ۔
اس سنگین صورتحال میں ساری قوم نے جب بڑی امید کےساتھ۵۶ انچ کی چھاتی والے وزیراعظم کی جانب دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ دہلی کا سنگھاسن چھوڑ کر مشرق کی دور دراز کی ریاستوں چھتیس گڑھ ، اڑیسہ،بنگال کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور واپسی میں اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی سے ہوتے ہوئے دہلی لوٹنے والے ہیں تاکہ ان کی آمد سے قبل سارا معاملہ اپنے آپ ٹھنڈا ہوجائے۔ اس دورے پر وہ کسانوں کو خطاب فرماکر اپنے خلاف بُنی جانے والی سازشوں کا رونا رورہے ہیں اور اس سے ملک کے کمزور ہونے کی دہائی دے رہے ہیں حالانکہ ان دونوں میں کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔اسی کے ساتھ وہی پرانا گھسا پٹاجذباتی استحصال کا راگ کہ لوگوں کو ایک چائے والے کا وزیراعظم بننا کھل رہا ہے حالانکہ گزشتہ دوسالوں میں انہوں نے صدر اوبامہ کے علاوہ کسی کو چائے نہیں پلائی ۔ یہ وہی براک اوبامہ ہیں جنہوں نے حال میں پاکستان کو ایف ۱۶ طیارے عنایت فرما کر مودی جی کو ناراض کردیا ۔ مودی جی کو چاہئے تھا کہ وہ چائے کے ساتھ کچھ نمک پارے بھی اوبامہ کے منہ میں ٹھونس دیتے تاکہ اس نمک حرامی کاارتکاب نہ ہوتا۔

مودی جی نے اپنے طوفانی دورے کے دوران ممتا بنرجی سے ملنے کے بعد کسی مٹھ میں وعظ و نصیحت بھی کی حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ چندی گڑھ جاکر ہریانہ کے وزیراعلیٰ کھٹر سے ملاقات کرتے اور جاٹ مظاہرین کو امن وشانتی کا اپدیش دیتے ۔ وارانسی میں بی ایچ یو کے اندرنمائشی بھاشن بازی کے بجائے دہلی کے اندرجے این یو میں جاکرپولس کے مظالم کا شکار طلباء کے دکھ درد میں شریک ہوتے ۔انتظامیہ اور میڈیا کی سانٹھ گانٹھ سے ان کو دئیے جانے والے زخموں پر مرہم رکھتے یا کم ازکم دہلی کے چھتیس ہزاری کورٹ میں آکر اپنے بھکتوں کو دن دہاڑے قانون اور دستور کی دھجیاں اڑانے سے منع کرتے ۔ کشمیر کے اندر محبوبہ مفتی کے ساتھ مل حکومت سازی کی جوڑ توڑ کرنےکے بجائے وہاں کی عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے تاکہ دائمی امن قائم ہوسکے لیکن وزیراعظم کی نہ یہ خواہش ہے اور نہ ان میں ایسا کرنے کی جرأت ہے۔ ان کا اپناسنگھ پریوار اور ان کی اقتدار پسندی انہیں کسی صورت میں بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔

مودی جی کی انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی سازش کو اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو شک کی سوئی ان کے اپنے ہندوتوا پریوار ہی کی جانب مڑجاتی ہے جو دانستہ اور نادانستہ طور پر آئے دن ان کیلئے ایک نئی قبر کھود کر تیار کردیتا ہے۔ پہلے تو ادیتہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے لوگوں نے لوجہاد اور گھرواپسی کے نام پر آتنک پھیلایا اور ساری دنیا میں ہندوستان کو بدنام کیا ۔ اس کے بعد گئو ہتیا اور عدم رواداری کا بے مثال مظاہرہ کرکے حکومت کی جڑوں کو بالکل کھوکھلا کردیا گیا ۔ ان ہنگامہ آرائیوں پر حکومت ابھی قابو بھی نہیں پاسکی تھی ریزویشن کے لئے زبردست مظاہروں نے سر ابھارا۔ اس کے نتیجے میں گجرات ، آندھرا پردیش اور ہریانہ میں تشدد کی آگ بھڑکی اتفاق سے ان تینوں صوبوں میں بی جے پی یا اس کی حلیف ٹی ڈی پی کی حکومت ہے ۔ لیکن اس فتنہ سامانی کے بازارمیں پر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے غنڈوں نے بازی مارلی ۔ان لوگوں نے پہلے تو حیدرآباد یونیورسٹی اور پھر جے این یو کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔

جے این یو کے معاملے میں تو زعفرانی سیاست کی بےمثال مٹی پلید ہوئی ہے ۔ اے بی وی پی والوں نے ایک ایسے بے ضرر احتجاج کا سیاسی فایدہ اٹھانے کی کوشش کی جو گزشتہ تین سالوں سے ہورہا ہے اور ملک میں اس کی کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ افضل گرو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف مظاہرےکواس سال بھی جازت مل گئی تھی مگر آخری وقت میں اسے اے بی وی پی کے دباو کے تحت نئے وائس چانسلر نےمنسوخ کردیا۔ اگریہ نہ کیا جاتا تو وہ غیر اہم واقعہ اپنے آپ دب جاتا لیکن زعفرانی ابن الوقتوں نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور خود اپنے جال میں پھنس گئے ۔ اب تو حال یہ ہے کہ سابق سالیسیٹر جنرل سولی سوراب جی نے برملا اعتراف کرلیا ہے کہ افضل گرو کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنا کوئی جرم نہیں ہے ہاں اس کا بدلہ لینے کی دھمکی دینا ہوسکتا ہے۔ اس طرح گویا ان تمام لوگوں کیلئے جو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف مظاہرے کرنا چاہتے ہیں احتجاج کا دورازہ کھل گیا۔ آئندہ سال یقیناً ایسے کئی مظاہرے ہوں گے۔

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کےناتجربہ کار رہنماوں نے جو غلطی کی سو کی لیکن مرکزی حکومت نے جب ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی پولس کے بیجا استعمال کیا تو گویا کریلا نیم چڑھا ہوگیا۔ ان احمقوں کو چاہئے تھا کہ وہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے رپورٹ طلب کرکے معاملے کو رفع دفع کردیتے لیکن نےانہوں نے اس بے ضرر مظاہرے سے صرفِ نظر کرنے کے بجائے اسے قومی مسئلہ بنا دیا ۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس کے ڈانڈے آئی ایس آئی اور حافظ سعید تک سے جوڑ دئیے اور تو اور جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنھیا کمار کو گرفتار کرلیا ۔ کنھیا کا قصور تو صرف یہ تھا جب اسے اجازت کی منسوخی کی اطلاع ملی تو وہ مودی جی کی مانند راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے مظاہرہ گاہ پر پہنچ گیا ۔اس نے وہاں تقریر بھی کی جو مظاہرین کا غم وغصہ کم کرنے کیلئے ضروری تھی لیکن اس میں کشمیر یا افضل گرو کی بابت کوئی ایسی بات نہیں کی جس کا ہندتوا نواز فائدہ اٹھا سکیں ۔

اس کے باوجوداے بی وی پی والے کب ماننے والے تھے ان لوگوں نے کنھیا کمار کی ویڈیو کے پیچھے کشمیر میں ہونے والے ایک مظاہرے کی آواز لگاکر اسے اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعہ نشر کرنا شروع کردیا ۔ اس طرح گویا کنھیا کمار کو ملک کا غدار بنا کر پیش کیا گیا ۔ بہت جلد وہ جھوٹ کھل گیا اور جو چینل اسے جعلی ویڈیو کو نشر کررہے تھے ان کے مسابقین نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ اس کے بعدپولس اور زعفرانی غنڈوں کی ملی بھگت سے ظلم وتشدد کا ننگا ناچ شروع ہوا ۔ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ افضل گرو کی پھانسی کی مخالفت کرنا عدالتی فیصلے کی توہین ہے ان لوگوں نے عدالت کے احاطے میں دستور اورقانون کو اپنے قدموں تلے روندا ۔پولس نے کنھیا کمار کو لاکر زعفرانی وکلاء کے حوالے کردیا اور وہ اس پر ٹوٹ پڑے ۔ اس غیر معمولی واقعہ کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور کہا کہ اگلے دن جب کنھیا کمار کی دوبارہ پیشی ہو تو عدالت کو محفوظ کیا جائے اور اپنے نگراں روانہ کئے ۔

دوسرے دن پھر وہی کھیل دوہرایا گیا ۔ عدالت کے تمام دروازوں پر غنڈوں نے قبضہ کرلیا ۔ صحافیوں تک کو زدوکوب کیا گیا ۔ ان کے کیمرے چھین لئے گئے اور نعرہ لگایا گیا کہ ’’فون بھی توڑیں گے اور بون(ہڈی) بھی توڑیں گے‘‘۔ کنھیاکمار پر دوسرے دن پھر حملہ ہوا ۔ سپریم کورٹ کی ٹیم کسی طرح اپنی جان بچا کر لوٹی مگر اس کی رپورٹ کو دبا دیا گیا اس کے باوجود آر کے دھون جیسے باضمیر وکیل نے این ڈی ٹی وی پر حکومت کے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دی اور سرکار کوہ و صلوٰتیں سنائی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود کنھیاکمار کو ضمانت نہیں ملی بلکہ اس کو افضل گرو کے کمرے میں قید کردیا گیا ۔ اس کے برعکس کنھیاکمار پر حملہ کرنے والے بی جے پی کے رکن اسمبلی او پی شرما کو ضمانت مل گئی۔ جن وکلاء نے کنھیاکمار پر حملہ کیا تھا ان کی ویڈیو ذرائع ابلاغ میں نشر ہوتی رہی ۔ ان کی عوامی پذیرائی بھی ہوتی رہی لیکن دہلی پولس ان کو شناخت نہ کرسکی اور چند نامعلوم افراد کے خلاف شکایت درج کی گئی ۔ دارالخلافہ دہلی کے اندرقانون کی ایسی دھجّیاں تو شاید ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں اڑائی گئی ہوں گی۔

اس مرحلے میں سنگھ پریوار کو اپنی غلطی کا جو احساس ہوا وہ بھی ناقص تھا۔ اسے لگا کہ کنھیا کمار ہندو ہے اور اس کی گرفتاری سے ممکن ہے ہندو رائے عامہ ہمارے خلاف ہوجائے اس لئے اس نے جے این یو معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا فیصلہ کیا اور پہلے پروفیسر ایس اے آر گیلانی پر ہاتھ ڈالاگیا۔ گیلانی صاحب کو افضل گرو کے مددگار کے طور پر بھی پہلے گرفتار کیا گیا تھا لیکن عدالت عالیہ نے انہیں رہا کردیا تھا ۔ اس موقع پر بھی کمال منافقت کا مظاہرہ ہوا۔ گیلانی صاحب کے خلاف ایک ویڈیو ٹیپ عدالت میں پیش کی گئی لیکن اسٹیج پر ان کے ساتھ بیٹھنے والے غیر مسلمین کی گرفتاری تودرکنار انہیں پہچاننے سے بھی پولس نے انکار کردیا اور مزید دو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ۔

پروفیسر گیلانی کو پھنسانا آسان نہیں ہے اس لئے عمر خالد کا ہواّ کھڑا کیا گیا ۔ وہ عمر خالد جو ٹیلی ویژن چینلس پر انٹرویو دے رہا تھا اور تن تنہا پوری زعفرانی ٹیم کا ناطقہ بند کئے ہوئےتھا اچانک دہشت گرد بنا دیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ تیس ہزاری کورٹ کے اندر کنھیا کمار کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے بعد بھیزی ٹی وی کے نامہ نگار نے بڑی بے حیائی کے ساتھ عمر خالد کے والد ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس سے سوال کرڈالا کہ وہ عدالت میں حاضر کیوں نہیں ہوتا۔ اگر اس نامہ نگار کے کیمرہ مین کو عدالت میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود دو مرتبہ مارا پیٹا جائے تو کیا وہ خود عدالت میں پہنچ کر اپنے آپ کو بلی کا بکرہ بنائے گا؟ اس سے آگے بڑھ کر ایک اور احمقانہ سوال یہ کیا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کی حرکات کیلئے معافی مانگیں گے ؟ یہ مطالبہ تو کوئی عدالت کسی مجرم سے بھی نہیں کرسکتی کجا کہ کسی ایسے ملزم کے والدسے اس کا مطالبہ کیا جائے کہ جس پر اوٹ پٹانگ الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ناتھو رام گوڈسےنے مہاتما گاندھی کے قتل کی معافی نہیں مانگی ۔ گوپال گوڈسے اپنے قاتل بھائیکو حق بجانب ٹھہراتے ہیں اور گوڈسے بھکت اس کامندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سب دیش بھکتی ہے اور عمر خالد کا افضل گرو کیلئے نعرہ لگا دینا دیش دروہ ہے ؟ انصاف کا ایسا ترازو تو آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔

جے این یو میں جو حماقت بی جے پی سے سرزد ہوئی اس کا نتیجہ تو اسے آئندہ انتخاب میں یقیناً بھگتنا پڑے گا مگر اس پیشگی قسط ابھی سے اس کو ملنے لگی ہیں ۔ جے این یو کے اندر جب کنھیا کمار کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہوا اور انسانی زنجیر بنائی گئی تو وہ طلباء بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جو سرخ نظرئیے کے خلاف ہیں ۔ وہ تمام لوگ دراصل زعفرانی غنڈہ گردی کے خلاف متحد ہوگئے تھے ۔ ہوا کے رخ کی اس تبدیلی کا دوسرا اثر براہ راست اے بی وی پی پر پڑا جب اس کے تین بڑےعہدےداران نے استعفیٰ دے دیا ان میں جے این یو یونٹ کا نائب صدر بھی شامل تھا۔ بی جے پی بھی ان شعلوں سے محفوظ نہ رہ سکی اس کے آئی ٹی سیل کے سربراہ نے بھی یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ ان حالات میں زعفرانی ٹولے میں دم گھٹنے لگا ہے۔ بڑی بے حیائی کے ساتھ اس مہم میں جٹے ہوئے ذرائع ابلاغ کے سرخیل زی ٹی وی کے ایک باضمیر صحافی سدھارتھ ورداراجن نے بھی علی الاعلان استعفیٰ دے کر یہ ثابت کردیا کہ اب اس کاغذ کی ناو کے دن لد چکے ہیں اور اس کا غرقاب ہونا یقینی ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ آر ایس ایس اور بی جے پی کا پینگیں بڑھانے کی کوشش کرنا اس احساس کا ثبوت ہے کہ ان کیلئے ملت کونظر انداز کرکے ملک پر حکومت کرنا ناممکن ہے۔ ایسے میں اگر وہ افضل گرو کی پھانسی کا صحیح استعمال کرتے تو بڑا سیاسی فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس معاملے میں ظلم عظیم کا ارتکاب کانگریس پارٹی نے کیا تھا۔ عدالت کے فیصلے ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں لیکن افضل گرو کو ناقص ثبوت کے باوجود نام نہاد قومی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے تختۂ دار تک پہنچا دیا گیا ۔ اس موقع پر کانگریس پارٹی نے اپنے آپ کو بی جے پی سے بڑادیش بھکت ثابت کرنے کیلئے کمال بے ضمیری کامظاہرہ کیا تھا۔قومی انتخاب میں خون ناحق رنگ لایا کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اوروہ ذلیل و رسوا ہوکر اقتدار سے بے دخل ہوئی ۔

بی جے پی اگر کانگریس کی عبرتناک شکست سے سبق سیکھکر مسلمانوں کو قریب کرنے کیلئے چند زرخرید علماء کو بیساکھی بنانے کے بجائے افضل گرو کےمعاملے میں کانگریس کو بے نقاب کرتی تو ممکن کچھ مسلمان اس کے جھانسے میں آ جاتے۔ اگر افضل گرو کی ہڈیاں قبر سے نکال کرایک تابوت میں افضل گرو کے اہل خانہ کے سونپ دی جاتیں اور ان کی وادی میں تدفین ہوجاتی تو کشمیرمیں سنگھ پریوار کی زہر افشانی کا اثر کسی قدر زائل ہوجاتا ۔ لیکن بی جے پی نے افضل گرو کے خلاف ماحول بنا کر کانگریس کا جرم اپنے سر باندھ لیا اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی اب حال یہ کہ بی جے پی کانگریس کے کئے کی سزا بھگتنے کی تیاری میں مصروف ہوگئی ہے اور اپنے لئےسیاسی پھانسی کا پھنداتیار کررہی ہےحالانکہ پنجاب میں انتخابی فائدہ اٹھانے کیلئے بینت سنگھ کے قاتل کو بچایا جارہا ہے ۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار لوگوں کو رہا کیا جارہا ہے تمل ناڈو میں راجہو گاندھی کے قاتلوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے کم از کم یہ رویہ کنھیا کمار اور عمر خالد کے ساتھ بھی اختیار کیا جانا چاہئے لیکن اس کے لئے جس فہم و فراست کی ضرورت ہے اس سے سنگھ پریوار محروم ہے ۔

سنگھ پریوار کے سارے مسائل کی جڑ اس کی ناعاقبت اندیش اورکم ظرف قیادت ہے ۔یہ لوگ ہر ہنگامے کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اوربغیر سوچے سمجھےکسی بھی پلیتہ تو شعلہ دکھا دیتے ہیں ۔ ابتداء میں ان کو اندازہ نہیں ہوپاتا کہ آگے چل کر اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ پھر جب ان حماقت خیز اقدامات کے نتیجے میں فساد پھوٹ پڑتا ہے جیسا کہ ہریانہ میں رکن اسمبلی سینی کے بیان سے پھوٹ پڑا تو قوت فیصلہ کی کمی ان کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ جب حالات پوری طرح بے قابو ہو جاتے ہیں تب جاکر انہیں ہوش آتا ہے اور اس وقت تک بہت بڑا خسارہ ہوچکا ہوتا ہے۔ جو کچھ ہریانہ، آندھرا اور گجرات میں ہوا وہی ایف ٹی ٹی آئی ، حیدر آباد یونیورسٹی اور جے این یو میں بھی ہوا لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ایک کے بعد ایک نت نئی غلطیوں کو دوہراتے ہوئے اپنے انجام بد کی کی جانب رواں دواں ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ مشیت کو بھی یہی منظور ہے ورنہ کوئی صاحب عقل ایسی حماقت کیسے کرسکتا ہے؟جے این یو پانچ طلباءبشمول عمر خالدجن پر بغاوت کا الزام ہے کیمپس میں لوٹ آئے ہیں مگر سنگھ پریوار کے راہِ راست پر آنے کے آثار نظر نہیں آتے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449611 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.