فیض کرم
من تصنیف
منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ الله علیہ
ملنے کاپتہ:
مہر علم دین۔ محمد شفیع
کتب فروش نیا بازار۔
قصور پنجاب
بار اول
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلام حضور رح کے ذخیرہء کتب سے' منشی کرم بخش
مرحوم کا شعری مجموعہ' ۔۔۔۔ ابر رحمت۔۔۔۔ ملا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے' کہ
یہ اپنے وقت کے صوفی کا کلام ہے۔ اس کا ابتدائیہ ایسے حضرت کا تحریر کردہ
ہے' جو پنجابی یا اردو کے اہل قلم نہیں ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ منشی
کرم بخش مرحوم رح کے متعلق بہت سی اور ضروری' معلومات میسر آئی ہیں۔
بقول محمد نواز خاں' ریٹائر سب انسپکٹر پولیس' حیدر آباد دکن اسسٹنٹ' ساکن
قصور' کوٹ پیراں ضلع لاہور' منشی کرم بخش مرحوم رح نے یکم مارچ 1934 بروز
جمعرات کو انتقال کیا' بوقت انتقال ان کی عمر' 64 سال تھی. اس لحاظ سے ان
کا سن پیدائش 1870 ٹھہرتا ہے۔ ان کی اولادوں میں چھے بیٹے اور ایک بیٹی
تھی۔
خوشی محمد ولد نور دین' پتوانوالہ' قصور کےمطابق ان کے بیٹوں کے نام
خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد' صادق محمد اور غلام محمد تھے۔
منشی کرم بخش مرحوم رح کوٹ پکا قلعہ کے رہائشی تھے۔ بقول محمد بخش بساطی
فروش قصور منشی کرم بخش' نور دین پتوانوالہ کے بھٹہ پر منشی تھے۔ حاجی محمد
امین ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن دھوری کی تحریر کے مطابق' چالیس پچاس روپیہ
مشاہرہ پر سارے کنبہ کی پرورش فرماتے رہے۔ یہ بھی کہ ابر رحمت' ان کی
اٹھارہ برس کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حاجی محمد امین ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن
دھوری کی یہ تحریر' 14-9 -1940 کی ہے۔ گویا یہ کلام 1916 اور 1934 تک کا
ہے۔ بے شک ان کے بچے لائق تحسین ہیں' جو انہوں نے منشی کرم بخش مرحوم رح کے
ذخیرہ کو جمع کرنے کا پربند کیا۔
الله انہیں جزا دے۔
ابتدائی کلمات تحریر کرنے والوں نے' منشی کرم بخش مرحوم رح کے اچھے کردار
رکھنے کی شہادت دی ہے۔ ان شہادتوں اور کلام کے مطالعہ سے' یہ امر پوشیدہ
نہیں رہتا' کہ مرحوم کھرے انسان اور مزاجا طبعا صوفی تھے۔ وہ کن کے مرید
تھے اس ذیل میں عنایت الله خاں کا کہنا ہے۔
میں نے ایک دفعہ عرض کی تھی کہ آپ کے پیشوا صاحب کا اسم گرامی کیا تھا۔
لیکن آپ نے فرمایا کہ میں فقط ایک ہی ان کا خادم ہوں۔ بتانے کے متعلق حضور
نے منع فرمایا تھا۔
ابر رحمت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ صفحہ160 تک ہے۔ صفحہ160 حاشیہ میں
درج ہے۔
گیلانی پریس ہسپتال روڑ لاہور میں باہتمام منشی کرم بخش پرنٹر و پبلشر
چھپکر
قصور شہر سے شائع ہوئی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا حصہ صفحہ160 تک کی کتابت اور اشاعت وغیرہ کا
بندوبست منشی کرم بخش مرحوم نے خود کیا۔ باقی کا اہتمام ان کی اولاد نے
کیا۔ گویا یہ کام 1934 تک ہو چکا تھا۔
...........
ابتدائیہ کی تحریروں کے کچھ اقتباس پیش ہیں۔
آپ اکثر پچیدہ مسائل پر بحث کرتے اور سیاسی معاملات پر تبادلہءخیالات کرتے
رہتے۔ ہمیشہ خیالات کا نتیجہ خدا کے سپرد کر دیتے کہ انسان کو قدرت کے
قانون میں دخل نہیں۔ تاہم فعل مختار کے پورے پورے حامی تھے۔ جہاں تک میرے
علم میں ہے۔ مالکان کو ملازمت کے سلسلہ میں کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں
دیا۔
بندہ فدا حسین سچدیو
جنرل سیکرٹری
انجمن انصار المسلمین
قصور
ص: ب
اٹھارہ برس کی محنت شاقہ کے بعد چمنستان نبوت سے گلہائے عقیدت چن چن کر ایک
بیش بہا گلدستہ پنجابی اشعار میں ترتیب دے کر ۔۔۔۔۔ ابر رحمت ۔۔۔۔۔ نام
رکھا۔لیکن اتنی فرصت نہ ملی۔ کہ جیتے جی ۔۔۔ ابر رحمت ۔۔۔ اشاعت پذیر ہوکر
باران رحمت بن سکے۔
ساری عمر ایک بھٹہ پر منشی رہے۔ چالیس پچاس روپیہ مشاہرہ پر سارے کنبہ کی
پرورش فرماتے رہے۔
حاجی محمد امین
ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن
دھوری
14-9 1940
ص: ج ۔ د
انتقال یکم مارچ 1934 بروز جمعرات عمر بوقت وصال 64 سال
اولادیں
چھے لڑکے ایک لڑکی
بندہ محمد نواز خاں
ریٹائر سب انسپکٹر پولیس حیدر آباد دکن اسسٹنٹ
ساکن قصور
کوٹ پیراں ضلع لاہور
گویا
1870
تا
1934
ص:2
لڑکوں کے نام
خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد' صادق محمد' غلام محمد
نے ورقا ورقا اکٹھا کرکے کتابی صورت میں تیار کیا۔
تابعدار خوشی محمد ولد نور دین پتوانوالہ۔ قصور
ص: 3
منشی کرم بخش نور دین پتوانوالہ کے بھٹہ پر منشی تھے۔
محمد بخش بساطی فروش
قصور
حکیم پیر محمد قصور نواں بازار باشندہ جالندھری
شعبان 1356 ھج 21
مولوی امام دین ساکن قصور نواں بازار بقلم خود
نے ابتدائی کلمات تحریر کیے ہیں۔
..........
ابر رحمت
فیض کرم
من تصنیف
منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ الله علیہ
ملنے کاپتہ: مہر علم دین۔ محمد شفیع کتب فروش نیا بازار۔ قصور پنجاب
بار اول
در مطبع گیلانی الیکٹرک پریس ہسپال لاہور باہتمام بابو ضمیر احمد خاں پرنٹر
زیور طبع یافت
پہلا حصہ صفحہ160 تک ہے۔ صفحہ160 حاشیہ میں درج ہے۔
گیلانی پریس ہسپتال روڑ لاہور میں باہتمام منشی کرم بخش پرنٹر و پبلشر
چھپکر قصور شہر سے شائع ہوئی۔
کتاب کا دوسرا حصہ ص 160 سے شروع ہوتا ہے۔
پیشانی پر دوسرا حصہ درج ہے
..........
اس شعری مجموعے کے حواشی' اس کتاب کے کاتب نے تحریر کیے ہیں' جس سے یہ
کھلتا ہے' کہ اگلے وقتوں کے کابت' محض مکھی مارنے والے یا نقل بامطابق اصل
نقل کندگان ہی نہ تھے' عالم فاضل بھی ہوا کرتے تھے۔ گویا خوش نویسی' تعلیم
کا حصہ تھی۔ مجھے ٹھیک سے یاد ہے' کہ خوش خطی کے الگ سے نمبر ملا کرتے تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے' کہ پرانی منڈی کے سامنے والے بازار میں' تھوڑا سا آگے جا
کر' پھولوں والے چوک سے کافی پیچھے دائیں جانب' ایک دوکان کی بالائی منزل
پر' محمد حسین شاہ مشتاق المعروف شاہ جی بچوں کو پڑھاتے تھے' ساتھ ہی
رسالہ۔۔۔۔۔ کیفر کردار۔۔۔۔۔۔۔ نکالا کرتے تھے۔ دبلے پتلے' قد کے پورے پورے
تھے۔ عمر رسیدہ تھے۔ ان کا گھر کوٹ حلیم خاں میں تھا۔ اب چوں کہ نقشے ہی
بدل گیے ہیں' لہذا پہچان نہ پاؤں گا۔ ممکن ہے' ان کے پوتے یا ان اولاد آج
بھی وہاں موجود ہو۔
حواشی میں معنی وغیرہ درج نہیں کیے گیے' بل کہ علمی مباحث کیے گیے ہیں۔ یہ
حواشی' پون صدی سے زیادہ عمر رکھتے ہیں۔ گویا یہ پون صدی سے پہلے کی اردو
ہے' اس لیے اس کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان کے مطالعہ سے کم از کم'
نو امور سامنے آتے ہیں۔
1-
رموز میں صرف تین یعنی سکتہ' سوالیہ اور فجائیہ استعمال میں آتے تھے۔ اور
کے بعد سکتہ کا استعمال رواج میں تھا۔ رموز کے رواج میں نہ ہونے کی وجہ سے'
تحریر میں بےاعتدالی تھی۔ یہ چیز میں نے بہت ساری مکتوبی اورقلمی تحریروں
میں دیکھی ہے۔
2- لفظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔
3- الپ پران کا استعمال ترجیع میں تھا
4- کچھ مکتوبی صورتیں بھی الگ سے تھیں۔ مثلا خواہ کی جگہ خواہے لکھتے تھے۔
اسی طرح کھانا کو کھانہ' مقام کی جگہ مکام' کہے کی جگہ کھے وغیرہ لکھنا
مستعمل تھا۔
5- بہت سی جگہوں پر تخاطبہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
6-- حواشی میں لکھی گئی اس تحریر پر ناصحانہ چلن غالب ہے۔ مولویوں کو نشانہ
بناتے بناتے خود مولوی بن جاتے ہیں۔
7- اس عہد کے مولوی پیر صاحبان کی حالت زار سامنے آ جاتی ہے۔
8- بہت سے سماجی رویے اور اطوار کھل گیے ہیں۔
9- کچھ تاریخی حقائق بھی کھلتے ہیں۔
مجموعی طور پر ان حواشی کا مطالعہ' لسانیاتی اعتبار سے خالی از دل چسپی
نہیں اور اس تحریر کالسانیاتی تجزیہ' بےشک ادبی خدمت کے مترادف ہو گا۔
...........
حافظ شیرانی اور کئی ایک دوسرے محقیقن کا خیال رہا ہے' کہ اردو کا ماخذ
پنجابی ہے۔ یہ نظریہ درست نہیں۔ پنجابی ایک علاقائی زبان تھی اور ہے۔ اس کے
برعکس اردو برصغیر کی زبان ہونے کے ساتھ' بیرونی ولائتوں میں بھی مستعمل
تھی۔ یہ الگ سے موضوع ہے اور اسے ہندی' بغدای اور یونانی تہذیبوں کے تناظر
میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے' کہ زبانیں ایک دوسرے سے اثر لیتی
آئی ہیں۔ اگر اس نے اثر لیے' تو اثر مرتب بھی کیے۔ ابر رحمت میں بھی اردو
اور پنجابی کا اشتراک موجود ہے۔
..........
بہت سے اردو لفظ ابر رحمت میں استعمال کیے گیے ہیں۔ مثلا
اول جان اسلام تے قائم ہونا فطرت جان اسلام انسان پیارے ص129
بعض مصرعے پنجابی کم اردو زیادہ ہیں۔ مثلا
باقی طفل ہے عام جہان دلبر مشکل عشق والی دلبر کار پیارے
کرم ہو غلام مسکین عاجز تیرا ہے آقا بخشنہار پیارے
ص316
اک ظالم ظلم عظیم میاں کرے نال جو شرک کریم میاں نہیں پاسی رحم رحیم میاں
ایہو غصہ ہے سرکار
دنیا کیسی دیکھی یار
ص 268
کر اپنا آپ اعتبار میاں توں اپنا آپ ہیں یار میاں خود دشمن خود دلدار میاں
ص324
قبلے باطنی دی طرف رخ کرنا نگاہ باطن حضوری شمار پیارے
ص320
اک مست الست مستان میاں
ص272
بندہ عاجز عذر نہ کائی کر فضل جناب الہی
ص392
اپنا اٹھا نہ سکے ضامن بنے لوکائیدا
ص152
اردو مصادر اور سابقے لاحقے ابر رحمت ہی کیا اور بہت سی پنجابی شعر و نثر
میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا
چارے لفظ نماز نیاز عاجز تحفہ عاجزی باہجہ درکار ناہیں
سبہ چھوڑنا عدم نوں عدم بھائی سچی بات جے ہووے بدکار ناہیں
بےخیالی نماز ہووے خیال والی نہ پڑھن جیہی مندی کار ناہیں
ص215
اردو محاورے اس تصنیف میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ رائی بھر فرق نہ ہونا کا
پنجابی استعمال ملاحظہ ہو
تدوں فرق نہ رہندا رائی دا ص151
آئینہ بنانا: رب آئینہ محمد بنایا میاں
سلام سنانا: دے شان سلام سنایا میاں
سلام سنانا سلام بلانا
کرناٹک' کاٹھیاواڑ' دکن اور کئی دوسرے علاقوں میں آج بھی مستعمل ہے
اسم اور صفت کا' ایک ساتھ استعمال ملاحظہ فرمائیں۔
غصے قہر قہار تے رحم غالب کر رحم رحیم وسار ناہیں ص198
اس مصرعے میں صرف دو لفظ تے اور وسار پنجابی کے لفظ ہیں
دونوں زبانوں کی تلمیحات تقریبا ایک سی ہیں۔ مثلا
نمرود فرعون کر ضد اپنی کافر ہو کے رب کہا گئے
منصور ہو مست الست عاشق اناالحق دا نام سنا گئے
لا تقنطوامن الرحمتہ الله رب سچے فرمایا
خوشیاں کر کر پاک محمد سجدہ شکر بجایا
ابر رحمت میں' منشی کرم بخش مرحوم کا اردو کلام بھی' شامل کر دیا گیا ہے۔
اس پر پنچابی زبان کے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے' اپنے اس کلام کے حوالہ سے
اردو کو نئے مرکبات دیے ہیں۔ گویا انہوں نے ایک ساتھ' دو زبانوں کی خدمت کی
ہے۔
ہیچ نگاہ' باغ مظہر' شان سوایا' سیس نوایا' بازیچہ نیکاں' حال بیحال' روح
گلزار' پیر صقل' وصل کا جام' فقیری کے قدم
ان کی تشبیہات بھی ادبی حسن و چاشنی لیے ہیں۔ دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔
تھے مثل موتی کےدانت میاں
.......
رخسار تھے سرخ انار میاں
استعارتی زبان' اپنی اصل میں شاعری کا کمال ہوتی ہے۔ باطور نمونہ ایک
استعارہ ملاحظہ ہو۔
مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء
ابر رحمت کے عنوانات پانچ طرح کے ہیں۔
اردو
پنجابی
عربی
فارسی
مخلوط
عنوانات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے' کہ منشی صاحب مرحوم ان چاروں زبانوں سے
قرابت رکھتے تھے۔ بعض عنوان پنجابی نما فارسی ہیں۔
..................
اردو کلام
آغاز
بسم الله الرحمن الرحیم
ہوا وحدت کی مخزن سوں اول اسرار بسم الله
جو ہے ساری کتابوں میں سرے سردار بسم الله
پیشانی باغ مظہر ہو عجب شان مکان پر
ہوا احدت کی گلشن سوں اول گلزار بسم الله
پسارا اک نقطے کا ہوا معمور روتن سوں
ہوا یک رنگ ہو ہو ہو فمن نقطہ و بسم الله
کیا جب حکم مردوں کو جو اس نے کم بازنی کا
اناالحق کی خوشحالی سے اٹھے دم مار بسم الله
ولی سب پیر اور پیراں ملائک جن اور حوراں
جھلک محبوب کے خط کا ہوا سنگار بسم الله
ص2
عنوان پنجابی کلام اردو
۔۔۔۔۔۔۔
چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں
ہو عاقبت تھیں شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں
گیا اک دن گورستان بھائی ڈٹھی اک کھوپری انسان بھائی دیکھ حالت ہوئی حیران
بھائی
سن حال زبان گفتار میاں
کبھی ہم بھی تھے انسان بھائی تھے زندہ وچ جہان بھائی گودمائی کے نازان
بھائی
تے صد ہا دوست یار میاں
کبھی والد جان نثار بھائی تھی بھائیونکی بہار بھائی کبھی فوجوں میں سردار
بھائی
تھا مجلس میں اعتبار میاں
کبھی گھوڑوں پہ اسوار بھائی تھے ملتے محرم راز بھائی کبھی لاکھوں مددگار
بھائی
لکھاں ملنے کا انتظار میاں
کبھی کرتے ناز وادا بھائی کبھی سوئے پلنگ بچہا بھائی گھر والے جان نثار
بھائی
لئی عیش میں عمر گزار میاں
کبھی محلوں کے سردار بھائی کبھی پھرتے وچہ بازار بھائی کبھی مکتب بیٹھے یار
بھائی
تھے باغوں کے سنگار میاں
کبھی چلتی تھی زبان بھائی دل میں تھا دل میں یہ گمان بھائی نہ چھوڑیں گے
جہان بھائی
کیتا آخر موت لاچار میاں
کبھی عجب لباس سنوار بھائی جا بیٹھے وچہ احباب بھائی سب کہتے عزت دار بھائی
کل دنیا سے ہشیار میاں
تھے مثل موتی کےدانت میاں اور چشم آہو کی جان میاں نہ حمد وثنا زبان میاں
تھے بخشش کے انتظار میاں
تھی قوت بےبہا بھائی تھا رستم ہیچ نگاہ بھائی لی ہم نے موت بھلا بھائی
تھے چلتے پاؤں بھار میاں
کبھی نوشو تھے برات بھائی تھی دنیا کل جہات بھائی آخر موت کئے سب مات بھائی
ہے لقمھ اجل سنسار میاں
کبھی نوری چہرہ دیکھ بھائی سب صفتاں کر دے دیکھ بھائی ہے خوب چہرے پہ ریکھ
بھائی
رخسار تھے سرخ انار میاں
کل نعمت جو جہان بھائی تھی آتی دستر خوان بھائی نہ محشر دا دیہان بھائی
تھے سجدہ سے بیزار میاں
جب ہوئی بند زبان بھائی نہ ہوں نہ ہاں پچہان بھائی نہ اکھیں وہ زبان بھائی
مل خاک گئے خاکسار میاں
جب آئےاس سنسار بھائی پھر ہوئی سب وچار بھائی سب جھوٹا تھا گھر بار بھائی
کر منت وقت گزار میاں
اس جگ کا یہ دستور بھائی ہو نیک عمل منظور بھائی تن بدیوں کا ہو چور میاں
نہ منت ہو درکار میاں
کرم اک نصیحت مان بھائی نہ کر عمل کا مان بھائی یہاں ٹوٹ جائے سب تان بھائی
جا اچھے عمل گزار میاں
تو دیکھ ہماراحال بھائی ہے ہویا حال بیحال بھائی بدعمل کیتا نڈھال بھائی
تو خوب سمجہا سنسار میاں
کرے کلمہ بیڑا پار میاں ہو اس سے روح گلزار میاں سب کفر ہو جا فرار میاں
تو دے کچہ نام غفار میاں
یاد رکھ خدا ہمیش کرم دل غیراں نہ دکھا کرم دے تجہ کو رب پناہ کرم
وہ سب کا بخشنہار میاں
ہو محشر سے شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں
ص122
غزل
حمد ربانی کہو زبانی میم کا اعلی پایا ہے
صفت ثنا محمد سرور دو جگ شان سوایا ہے
کن فیکون کہا جب رب نے میم کا نور ہویدا ہوا
میم کی برکت سے رب نے ارض وسما بنایا ہے
اس میم کو دریتیم کیا کونین کا رہبر یہ ہی بنا
بوبکر و عمر عثمان و علی پر میم کا پر تو آیا ہے
برکت میم کی ظاہر ہوئی آئے شیر خدا جگ میں
طاقت ہمت نے جسکی سب کفر کا سیس نوایا ہے
محی الدین محبوب سبحانی شہر جیلاں کا والی جو
قادر رب نے قادر کرکے عالی قدر بنایا ہے
تھی ڈالی یہ گلشن کی بو اس میں تھی سب بھیدونکی
سب میم کی اس میں برکت تھی جس جگ کا شاہ بنایا ہے
مہدی کو بھی میم محمد مولا کرکے مہر دیا
یہ مخفی را ربانہ ہے جو خاصوں میں سمایا ہے
یہ مردہ دل کیا خبر رکھے کہ زندہ کی ہے شان کیا
طالب الله والے کو سب طالب دید سمایا ہے
دل مردہ کو بغل دبا کر بندیخانے بند ہوئے
سیر چمن کی کرتا ہے جسدل میں رب بسایا ہے
عقل فکر سب چکر کھائے دنیا اس بھنور میں
قدرت کا یہ ہے بازیچہ نیکاں رب بچایا ہے
طاقت بخش کریم کرم کو صفت محمد دل سے ہو
دنیا دین کا جسکی خاطر رب نے بوٹا لایا ہے
تعریف مرشد
پانی سے پانی نیارا بنا
خودی چھوڑ کر ہم میں سب آ ملا
عقل اور علم تیرے کس کام کا
نہ بندہ بناں جب تک تلک کا
جب آدم کو مولا نے پیدا کیا
تو صدقہ کرم اپنے فرما دیا
خواہش ہو جس چیز کی وہ کہو
ہے وہ چیز کیا جو یہاں پر نہ ہو
تو خواہش کو اپنی ذرا کر ادا
کروں بخشش عالی میں تیرا خدا
ہوا سن کے آدم یہ دل میں حیران
لگا سوچنے پھر نہ چلے زبان
تو آدم نے جبریل سے یہ کہا
کیا مانگوں مولا سے مجہکو بتا
تو فرمایا جبریل نے یہ کہ عقل
یہ ساری ہے بھیدونکی کنجی اصل
کری عقل مولا نے اس دم عطا
وسیلہ ہوا جب کہ جبریل آ
وابتغوا الیہ الوسیلتہ قرآن میں
وصیلہ کی حاجت ہے ہر آن میں
مرشد کی صورت تو حقی ہے جان
کفر توڑ کر وہ ملاوے رحمان
مرشد ہی کنجی ہے اسرار کی
طالب کے دل کی خبر جس نے لی
جو مرشد ہے کامل وہ حق کا ہے نور
دل کے اندھیرے کو کرتا ہے دور
مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء
آنکھوں سے مولا نہیں ہوتا جدا
وہی نظر آتا ہے چاروں طرف
مرشد سے ہووے یہہ حاصل حرف
مرشد پہنچاتا ہے عرش بریں
جو ہیں طالب مولا اہل یقین
مرشد دکھاتا ہے چودہ طبق
مرشد کرے صاف روح کی اٹک
مولا ارض و فلک میں سماتا نہیں
مگر دل سے طالب کے جاتا نہیں
یہ طالب کا چھوٹا سا جو ہے وجود
ہے کل کائنات اس میں ہر دم موجود
رب کی سناتا ہے مرشد ندا
سنا کر تو طالب یہ دل سے سدا
خیالات باطل کو جڑ سے اکھاڑ
کرے وہ منور قلب کی بہار
دکھا دیتا ہے اصل رب کا نشان
تو طالب پھر ہوتا ہے سیدھا روان
نفس مار کر پھر وہ زندہ کرے
ہو زندہ نہ عادت درندہ کرے
مرشد کے کہنے کی تکلیف جو
جڑا اس کی دیدار الله کا ہو
تو فرمان مرشد کو دل سےاٹھا
یہ فرمان کر دے گا تم کو جلا
مرشد کے کہنے پہ جو چل گئے
دو جگ کے دکھ ان کے سب کٹ گئے
نہ مرشد کی مانی جنہوں نے کبھی
پڑے غضب میں ایکدن وہ سبھی
کرے صقلی گر کی طرح پیر صقل
برسوں کی منزل کرے پل میں حل
کامل دکھاتا ہے ہر جا خدا
نہ ہو حق سے طالب کبھی پھر جدا
اندھے کو اندھا اگر مل گیا
تو اندھے سے اندھے نے پھر کیا لیا
مولا نہ دیکھا تو رولا پڑا
رولے میں دونوں کا دل ہی جلا
کرم گر ہو خواہش خضر سنگ کی
نصیحت وہ رکھ یاد مرشد جو کی
ص291 تا 293
نکتہ
اسم الله جسم الله الله حاضر جان لے
بات الله ذات الله ذات حاضر مان لے
معنی الله الله حاضر کر یقین اور مان لے
گر نظر آتا نہیں تو دیکھتا ہی جان لے
کنہ مولا مت نکالو مت کرو یہ جستجو
یہ عقل تجھکو نہ بخشی دیکھ لے الله کو تو
دان دینا نام لینا یہ وصل کا جام ہے
جو ملے مولا سے نعمت کرم سب انعام ہے
ص274
الله والے کو فقیری دو قدم
ہیں فقیری کے قدم دراصل دو
خوف اور امید بن الله کا ہو
غیر عورت اور دولت کو نہ چھو
یہ قدم پہلا حقیقی جان تو
دوزخ اور جنت کو دل سے دے اٹھا
قدم طالب کا کرم یہ دوسرا
ص375
عنوانات
نوٹ
ایک ہی عنوان' جو ایک سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں' انہیں صرف ایک بار درج کیا
گیا ہے۔
عاجزی جناب باری تعالی ص2
در صفت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ص2
در بیان ذکر ابلیس ص3
در بیان حضرت آدم عیلہ السلام ص4
در مناقبت چہار یار رسول مقبول رسول صلی الله علیہ وسلم ص4
در صفت جناب حضرت امام حسن حسین رحمتہ الله علیہ ص5
در صفت روح ص6
دربیان طلب اشیائے دنیا ص7
یالیھا الرسول باغ ما انزل عیک ص7
مناقب پیران پیر رض ص8
شکریہ ماں باپ
الجنتہ تحت اقدام امھاتکم ص9
تعریف حضرت رہنما یعنی پیشوا صاحب ص10
دربیان بھید مولی ص11
در بیان دعاء ص11
در بیان نمودن و برائے شامت نفس ص12
در بیان علم ص13
در بیان شریعت۔ طریقت۔ حقیقت۔ معرفت ص14
کافی 15
در بیان علم حقیقت ص16
مقابلہ حکمت ص17
در بیان معراج شریف ص18
در بیان چالاکی نفس ص20
در بیان حرص ص22
در بیان ناشکری ص22
در بیان درجہ اخلاق ص23
در بیان صفت ڈیرہ دار ص24
صفت فقر ص25
در بیان تعظیم قبرستان و طریقہ ختم ص26
در بیان بعد مرگ ص 27
در بیان دوزخ ص28
در بیان عشق ص29
در بیان شیر فروش ص31
عرش شیر فروش ص31
جواب فقیر ص32
حال شیر فروش ص 32
دوبارہ فقیر کا دوکان پر آنا ص32
ہفت اقسام نفس ص33
ہر چہ باشم دست ما در درست تو ص36
خیالات تصوف ص 38
در بیان نقش فروشاں
ولا تشترو بایتی ثمنا قلیلا ص41
در بیان علم نجوم ص 42
علم کیمیا ص43
جھوٹی ہاں سے ہاں ملانی ص46
انصاف منصف ص48
دردمند فقیر ص49
صحبت مرداں ترا صالح کند ص51
نیکی دی بریائی ص53
کرت گھن یعنی احسان فراموش ص53
قدرتی انصاف ص56
نیک دے نیک خیال ص58
پنج بنا اسلام ص60
حکایت ص61
دنیا کا صابر بادشاہ ص64
نصیحت راہبر ص66
خواب دنیا ص68
روح کو فنا نہیں بت کو بقا نہیں ص69
ہدایت نامہ مرداں ص70
کرامت شاہ عبد القادر جیلانی ص73
مسلہ نکاح ص79
وچہ وراثت چوتھا حصہ بیٹیاں دے پڑپائیں ص84
باہجہوں فضل نہیںچھٹکارائی ص86
دوبارہ گور ص92
مینوں رکھ لے اجدی رات وے 93
مینوں کالی آ گئی رات وے ص93
میری نوری ہو گئی رات وے ص93
میتے فضل کیتا سو آپ وے ص 94
ھدی اللمتقین الذین یومنون ص96
ایمان ہے تو جہان ہے ص 98
کرامت میراں محی الدین رحمتہ علیہ ص99
صفت دولت ص101
بیان عشق مجازی ص103
بیان عشق حقیقی ص110
نتیجہ حب صادق الله جل شانہ112
اقرار باللسان ص115
چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں ص122
ایہہ مال مولی دا سا رائی ص123
اندزہ عمر ص124
دربیان عشق شوق سلطانی ص124
اشرف الخلوقات انسان ص126
ان الانسان کان جھولا ص127
دربیان الہام مہربان رحمان ص129
صفت اوصاف نیک مرداں ص132
جواب فقیر صاحب ص133
جواب بادشاہ ص133
دعا کرنا فقیر صاحب ص133
فرمان فقیر صاحب ص133
صفت فقیر در زبان بادشاہ ص134
جواب فقیر ص134
دربیان بخوف بےغیرت ص137
سوال بادشاہ ص138
جواب شاہزادہ ص138
داستان شاہزادہ ص139
مقابلہ امر ربی و نفس امارہ ص141
تنبیہ نفس ص142
نماز پنچگانہ ص144
حکایت حضرت بایزید بسطانی ص145
دربیان طلب عقل آدم علیہ السلام ص146
کافی ص146
قاضی اور فقیر کی دربار نبی میں حاضری ص149
حکمت الہی ص159
دوسرا حصہ
معجزہ حضرت عیسی علیہ السلام ص161
اصلی طریقہ دعا بدرگاہ باری تعالی ص163
عاجزی دا پھل ص166
حکایت
واتبعوا الیہ الوسیلتہ ص169
رمز حقیقی ص171
بسم الله الرحمن الرحیم ص174
دعا بدرگاہ احم الراحمین ص229
اعظم درجات ص230
بندہ بننے کا طریقہ ص 238
دنیا دے جھگڑے ص239
عاجز دی پکار ص243
قدرت کے پسارے ص244
لا تتحرک ذرتہ الا باذن الله ص245
سو ہتھ رسہ سرے تے گنڈھ ص247
فقیر کے اوصاف ص249
بیمار بادشاہ کی حکایت ص250
عرض حکیم کی باشاہ کے حضور میں گزارنی ص250
حکیم کی دوا کا بادشاہ کو فائدہ نہ کرنا اور بادشاہ کا حکیم کو سولی کی
دھمکی دینا ص251
حکیم کا وطن چھوڑنا جنگل میں فقیر کا ملنا حکیم کا عاجزی کرنا اور فقیر
تدبیر بتانا ص251
فرمان فقیر باحکیم ص252
حکیم کا وطن جا کر حاضر دربار ہونا اور شہر کے فقیروں کی دعوت کرنا ص252
فقیر کو دوبارہ دھمکی دینا ص252
حکیم کا پھر وطن چھوڑ کر فقیر کے پاس جانا اور فقیر سے جوٹھا ٹکڑا لے کر
آنا ص252
فقیر کا جوٹھا ٹکڑا بادشاہ کو کھلانا اور بادشاہ کا صحتیاب ہونا ص254
آسمان سے گرا کھجور میں پھنسنا ص254
امیروں اور وزیروں کا دل ہی دل میں غصہ کھانا ص255
فقیر کی بادشاہ کے ساتھ ہمکلامی ص256
فقیر کی داستان ص256
مقولہ شاعر ص257
عرض شیطان روز محشر ص262
نسخہ برائے گناہ ص264
ظاہر ظلم باطن میں صفائی ص265
دنیا کیسی دیکھی یار ص266
مذہب دی لڑائی ص270
حکایت سوداگر ص273
چپ کرکے وقت لنگھا میاں ص275
عاشق خونپرست ص275
سکھ سجدے باہجھ کس پایائی ص278
صاحب جو چاہے کر دا ای ص279
مولا کریم کی کرم نوازی ص280
دربیان تکبر و ہنکار ص283
سجدے دی برکت ص284
عمر دا قصہ ص286 ص
کل شئی یرجع الی اصلہ ص288
تعریف مرشد ص291
ہر حال میں رب کو یاد رکھ ص292
الا ان اولیاء الله لا خوف علیھم ولاہم یحزنون ص294
مفرقات ص300
پند سود مند ص322
حاکم کی تابعداری ص326
شکریہ باری تعالی ص327
مقولہ ص332
پند ص334
احسان الہی ص 336
عرض دست بستہ ایاز ص338
موت سے پہلے مرنا ص350
فرض انسانی ص360
مناجات ص262
پنج بنا اسلام ص373
نکتہ ص374
الله والے کو فقیری دو قدم ص375
خواب کی قسمیں ص375
بر زبان تسبح در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبح کے درد اثر ص377
مسلم کی قیمت ص381
توبہ ص383
دیگر ص386
الله کی یاد سے اطمنان قلب ہو گا ص389
در بیان السلام علیکم و رحمتہ الله ص391
محبت مائی صاحب ص393
اشرف المخلوقات ص395
پابندی شریعت ص399
کامن ص400ت
تعریف شہر قصور ص403
حقیقت ص408
قطعہ تاریخ کتاب ابر رحمت
از قلم صداقت رقم جناب منشی محمد علی صاحب ارم نوارد قصور
ص414
|