یہ ہماری قوم کی بد قسمتی رہی ہے کہ انھیں
قوم سے مخلص کوئی ایسا رہنما نہیں ملا جو اخلاص کے ساتھ خدمت کرسکے ۔ سیاست
کو اتنا بڑا جرم بنا دیا گیا ہے کہ جیسے تالاب میں کوئی گندی مچھلی۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تالاب کیسے گندہ ہوجاتا ہے ، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک
گندی مچھلی پورے تالاب کو کیسے گندہ کردیتی ہیں ۔ اس کی گندگی کی طاقت
دوسری مچھلیوں کی طاقت سے اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ ایک گندی مچھلی کو باہر
اٹھا کر باہر نہیں پھینکا جا سکتا ۔ ہمارے جمہوری نظام کی بھی یہی صورتحال
ہے کہ سیاست کے نام پر آنے والوں میں کچھ ایسے بھی آجاتے ہیں جو پوری سیاست
کو گندہ کردیتے ہیں ، لیکن اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست میں وہ گندی
مچھلی بھی اچھی مچھلیوں کے ساتھ رہتی ہے اور دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ
اچھی مچھلیاں بھی گندی مچھلیاں بن جاتی ہیں پھرتالاب گندہ ہو یا صاف اس سے
کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بلدیات ایک ایسا ادارہ ہے جو ملک کی شناخت کا ذریعہ بنتا ہے کیونکہ صاف
ستھرائی اور غلاظت سے پاک ہرا بھرا معاشرہ ہی سب سے پہلے آنکھوں کو بھاتا
ہے ، لیکن بلدیات نے جہاں اپنا بیڑا غرق کیا ہوا ہے وہاں علاقوں کا بھی
بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ خاص طور پر کراچی میں بلدیاتی
ادارے کا حال انتہائی قابل رحم ہے کیونکہ جس کا سربراہ چند مہینے ٹک نہ ٹک
پائے اور آئے روز وزیر تبدیل ہوتے رہیں تو وہ ادارہ اپنی منظم پالیسی کیسے
بنائے گا ۔ہر نیا آنے والا وزیر بلدیات کا پہلا زور غیر قانونی ہائیڈرینس
پر ہوتا ہے جو اس کے ہی تابع ادارے کی آشیر باد سے بنا ہوتا ہے پھر اس کی
توجہ کچرے پر جاتی ہے چونکہ ہزاروں ٹن کچرا کراچی جیسے شہر سے نکلتا تو ہے
لیکن مقررہ جگہ پر پہنچنے کے بجائے ایسے وہاں ہی جلا دیا جا تا ہے یا پھر
اس کا استعمال غیر قانونی زمینوں کے قبضے کیلئے کیا جاتا ہے۔ سندھ کے جتنے
بھی وزیر بلدیات کے کارنامے دیکھ لیں تو ہمیں یہ نظر آئے گا کہ موجودہ وزیر
بلدیات نے سب کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ، کیونکہ غلاظت و گندگی جو ان کی نوکر
شاہی میں کراچی والوں کو نصیب ہوئی ہے اس کی مثال کبھی کراچی میں نہیں ملے
گی ۔ کراچی پشاور کی طرح پھولوں کا شہر تو نہیں بن سکا لیکن بدبو اور غلاظت
میں دنیا میں اچھے نمبر ضرور لے جائے گا۔کراچی لاہور کی طرح سبزہ زار تو
نہیں بن سکا لیکن امید ہے کہ جس طرح بلدیاتی ادارے اور ان کے وزیر کام کر
رہے ہیں کچروں میں گل بکاولئی کے پھول ضرور سہانا منظر پیش کریں گے۔دراصل
ان وزیر با تدبیروں کو عوام کی تکالیف کا اندازہ نہیں ہے ۔ آپ کسی بھی
سرکاری ہسپتال چلیں جائیں تو وہاں سے اٹھنے والے تعفن سے کوئی اندھا بھی
سمجھنے میں غلطی نہیں کرے گا کہ وہ کسی سرکاری ہسپتال میں ہے۔ کسی سرکاری
اسکول چلیں جائیں تو کلاسوں اور میدانوں کی حالت زار دیکھ کر فوراََ اندازہ
ہوجاتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے زمین صاف ہوا کرتی تھی ۔ سڑکوں پر نکل
جائیں تو نکاسی آب کی پلاننگ بارش کے ہلکے قطرے ہی پول سے ہی کھل جاتے ہیں
کہ بلدیات نے کس مہارت سے کام کیا ہوگا ۔ سڑکوں کو دیکھیں تو کسی کبڑے عاشق
کی طرح نظر آئی گی جس کا ایک سہرا جنوب میں اٹھ رہا ہے تو ایک سرا شمال میں۔
بلدیات نہیں ہوا کہ خرافات ہوگیا ہے۔ انھیں اس بات سے کیا غرض کہ دھابیجی
میں کوئی گدھا مرا تھا یا انسان ۔ پانی میں کلورین کی مقدار کتنی ہے ، اور
شہریوں کو کتنا شفاف پانی مل رہا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار کسی عالمی
تنظیم نے کراچی کا پانی اپنی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کیلئے بھیجا تو ان کی
رپورٹ آئی کہ یہ پانی جانوروں کے لئے مضر صحت ہے۔
ہم وہ پانی پیتے ہیں جس سے کسی جانور کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔لیکن
جام پینے والے انجان بن کر ہاتھ میں جھاڑو لیکر دکھاواکرنے نکلتے ہیں کہ
شہر کو صاف ستھرا اور گرین بنا دیں گے ۔لیکن کیا کسی نے دیکھا کہ جس ہاتھ
میں وہ جاڑو جیسے صاف ستھرے ڈنڈے سے باندھا گیا تھا اس کے باوجود وزیر
موصوف کتنی بار وہ صابن استعمال کرتے ہونگے جو ایک جراثم کو بھی نہیں
چھوڑتا ۔ ہمارے نظام میں کرپشن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وزیر موصوف کے پاس سب
سے بڑا مظلوم ہتھیار یہی ہے کہ ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے ، تو بھائی
پرچیاں بھیجنا کم کردو نا ، کنٹریکٹ پر ایسے ملازمین کیوں رکھتے ہو جو آدھی
تنخواہ اپنی جیب میں اور آدھی تنخواہ افسر کی جیب میں ڈال کر پرائیوٹ
نوکریاں کرتے ہیں ۔دراصل بائیو میٹرک ایسے افسران اور وزیرو ں کا ہونا
چاہیے جن کے دماغ میں صرف گند ہی گند بھرا ہوا ہے۔ رشوت کا گند ، اقربا
پروری کا گند ، سفارش کا گند ، سیاسی مفادات کا گند ، نہ جانے پرفیوم چوک
سے کتنی پرفیوم لیکر خود پر لگاتے ہونگے کہ انھیں کچرے کی بو میں پیرس کی
خوشبو محسوس ہوتی ہے۔جب ان سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کا سارا زور
مخالف جماعتوں کی برائیوں پر پڑ جاتا ہے۔یہ وہی مخالف جماعتیں ہوتی ہیں جن
کے ساتھ کبھی و ہ شیر وشکر ہوتے ہیں تو کبھی سا س بہو کی طرح کچن کے برتن
غصے میں توڑ ڈالتے ہیں لیکن چالاک ہیں اس لئے بہو ، ساس کے گھر کے برتن
توڑتی ہے تو ساس، بہو کے لائے ہوئے برتن توڑ ڈالتی ہے۔ سب کو اجے دیوگن
بننے کا شوق ہوتا ہے ، سب جذبات میں کنوئیں کا پمپ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن سارے جذبات دھول کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ، سرکار کسی کی بھی ہو ، لیکن
نزلہ بچارے عوام پر ہی گرتا ہے کیونکہ اس کا قصور اسی کا ہوتا ہے کہ وہ
انھیں جا کر ووٹ دے کر منتخب کرتا ہے ان سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیتا
ہے ۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ جب آپ کسی پوش ایریا یا فوجی
ایریا میں جائیں تو وہاں ایک تنکا بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا ، عسکری
اداروں میں جائیں ، ان کے اسکولوں میں جائیں ، ان کے ہسپتالوں میں جائیں ،
بقول پیر پگاڑا مرحوم جب انھوں نے ایک نجی ہسپتال کا ماحول بہت اچھا دیکھا
تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ کاش پہلے یہیں آجاتا۔
بلدیاتی اداروں اور خاص طور پر وزیر بلدیات جام خان شورو سے عوام اپیل کرتی
ہے کہ خدارا ان کی حالت پر رحم کریں ، مہنگائی کی وجہ سے پرائیوٹ علاج بہت
مہنگا ہوگیا ہے سرکاری ہسپتالوں میں سرنج تک دستیاب نہیں ، یہ نامعقول
وائرس روز بہ روز مضبوط ہوتا جارہا ہے ، ان کی اتنی استطاعت نہیں کہ وہ
مہلک بیماریوں اوروبائی امراض کا علاج کراسکیں ، آپ کے لئے کہنا تو بہت
آسان ہے کہ یہ تو اﷲ کی مرضی تھی ۔ غذائی قلت سے اموات ہو رہی ہیں ، بچے
پلاننگ سے پیدا نہیں کئے جاتے ، اس لئے ایسا ہو رہا ہے ، ذرا اپنے بچوں کو
ان کچروں کے ڈھیروں کے پاس سے گذاریں تو یقیناََ ان کو خدا نخواستہ کوئی
انفکیشن ضرور ہوجائے گا ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جام خان شورو بھی کئی
ہفتوں کے مہمان ہیں کیونکہ واٹر بورڈ ، بلدیات اب منافع بخش وزرات نہیں رہی
ہے اس لئے ان کی دل چسپی بھی کم ہوجائے گی اور پی پی پی نے اپنے ادوار میں
جتنے بلدیاتی وزیر بدلے ہیں ان کو خود بھی یاد نہیں ہونگے۔ اب خوش قسمتی ہے
کہ بلدیاتی نظام آگیا ہے اس لئے بیانات کا سارا کچرا بھی ضلعی اور مقامی
حکومتوں پر ڈال سکتے ہیں کہ جی ہم نے تو اربوں روپے دیئے لیکن نا اہل ضلعی
حکومتیں ناکام ہو رہی ہیں ، ان کے ایڈمنسٹرز کو معطل کیا جائے گا ، کمشنرز
کی دوڑیں لگائی جائیں گی ، کونسلر خود کنڈی مین بن کر مین ہول صاف کرتا نظر
آئے گا ، چیئرمین اختیارات ہائے اختیارات کرتا نظر آئے گا ۔ اس لئے مفت
مشورہ تو یہی ہے کہ بلدیات دیکر جان چھڑائیں ، واٹر بورڈ میں سوائے اضافی
ملازمین کے رکھا ہوا بھی کیا ہے ۔بقلم خود وزیر بلدیات جام خان کاشور کہ
ملازمین کی تنخواہیں دیں کہ ترقیاتی کام کرائیں ، جناب آپ کچھ نہ کریں بس
وزیر با محکمہ بن کر حکومت سے مراعات حاصل کریں تبدیلی ہوا کیلئے باہر ملک
چلے جایا کریں ، کبھی ضرورت پڑے تو ہنگامی دورے کرکے کسی ایڈمنسٹر کو معطل
کردیا کریں ۔ ہاں میڈیا میں آنے کیلئے اسمبلیوں کے باہر کھڑے ہوکر بال
سنوارتے ہوئے بڑے بھاشن بھی دے دیا کریں ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
لیکن عوام اتنی تنگ نہ ہوجائے کہ اپنے علاقوں کا تمام کچرا اٹھا کر آپ کے
گھروں کے آگے نہ پھنکنا شروع کردے ، خدا کے واسطے لیاری کو پیرس بنانے کے
دعوے کرنے والوں کراچی کو کراچی ہی بنا دو یہی سب سے بڑا احسان ہوگا ۔ |