سیاسی جماعتوں کے اندر کی جمہوریت!

جمہوریت کی حقیقت کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا، اتنی گہرائی میں کوئی نہیں جاتا۔ ہمارے ہاں فوجی حکومتیں بھی خود کو جمہوری ہی کہتی رہیں، ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ہر فوجی اقتدار میں ایک نہ ایک مسلم لیگ موجود رہی، یا یوں جانئے کہ ہر فوجی حکمران نے یا تو نئی مسلم لیگ بنا لی یا کسی بنی بنائی پر دستِ شفقت رکھ دیا۔ دوسرا یہ ہوا کہ زیادہ تر بلدیاتی انتخابات بھی فوجی حکومتوں میں ہی ہوئے ، اگر ایوب خان ان کے بانی تھے تو مشرف دور میں بلدیاتی نظام بہترین طریقے سے چلتا رہا۔ (موجودہ جمہوری حکومت کو ہی دیکھئے کہ اول تو بلدیاتی الیکشن کروانے پر رضا مندی نہ دکھائی گئی، اور جب الیکشن کروایا تو نمائندے بے اختیار)۔ اس صورت میں کسی بھی فوجی حکومت کو ’غیر جمہوری‘ نہیں کہا جاسکتا۔ اور جب سیاسی یعنی جمہوری جماعتوں کی حکومت کی بات کی جاتی ہے، تو وہاں نہ تو بلدیاتی الیکشن دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی طلبہ یونین کے بارے میں کوئی جمہوری رویہ اپنایا جاتا ہے۔ مخالفین کو نیب کی گرفت میں لانے کا الزام بھی حکومتوں پر لگتا رہتا ہے۔ جمہوریت ایک بہت ہی مشکل طرزِ سیاست ہے، دوسرے کی رائے سننا اور بعض اوقات اسے تسلیم بھی کرنا پڑتا ہے، اس پر اضافہ یہ کہ اکثریت کی بات کو ماننا اور اس کا احترام کرنا ان لوگوں کے لئے خاص طور پر مسئلہ ہے، جو خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور دوسروں کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔

پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کو آزادی سے پنپنے نہیں دیا گیا، یہاں کم وبیش تیس برس تک فوجی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا۔ باقی وقت بھی سیاسی لوگ اگر حکومت میں آگئے تو خوفزدہ ہی رہے کہ نہ جانے کس وقت ان کو گھر بھیج دیا جائے۔ اسی خوف کی کیفیت میں وہ حکومت کر ہی رہے ہوتے تھے کہ ایک غیر فوجی ڈنڈا بھی ان کے سر پر لگ جاتا تھا، جسے ضیاء دور میں متعارف کرایا گیا اور عرفِ عام میں اسے ’اٹھاون ٹو بی‘ کا نام دیا گیا۔ اس بندوق کے ذریعے بھی بہت سے وزیراعظموں کو ان کی منتخب حکومتوں سے محروم کیا گیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آیا سیاسی جماعتیں خود جمہوریت پسند ہیں؟ کیا انہوں نے خود اپنے اندر جمہوری روایات کو فروغ دیا ہے، کیا ان کے اندر تسلسل کے ساتھ الیکشن ہوتے ہیں، اور ان کے نتیجے میں مرکز اور صوبائی عہدیدار منتخب ہوکر سامنے آتے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا ہر گز نہیں۔ گزشتہ قومی الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندرونی الیکشن کروانے کا پابند کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں تمام جماعتوں نے اپنے الیکشن کروائے، اور الیکشن کے نتائج اور اپنے منتخب عہدیداروں کے نام کمیشن کو بھجوائے۔

گزشتہ روز پلڈاٹ نے ایک سروے جاری کیا ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے اندرونی الیکشن کے بارے میں انکشافات کئے گئے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ کونسی پارٹی کس قدر جمہوریت پسند ہے ؟ اس میں جماعت اسلامی کو پہلا نمبر دیا گیا ہے، نیشنل پارٹی دوسرے، تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے، اس ضمن میں مسلم لیگ ن سب سے کم جمہوری پارٹی ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت ان کے لیڈروں کی مرہونِ منت ہے۔ اس سروے سے ایک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں شخصیت پرستی کی روایت عام ہے، اور مسلم لیگ ن کو تو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس پارٹی کا نام ہی پارٹی لیڈر کے نام پر رکھا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) یعنی نواز۔ یہی وجہ ہے کہ جس کے نام کی پارٹی ہے، وہ اسے اپنی مرضی سے ہی چلاتے ہیں، کیسے الیکشن؟ کونسے اجلاس؟ اور کیسی مشاورت؟ فردِ واحد کی مرضی کے مشیر۔ دوسری طرف جمعیت العلمائے اسلام اورایم کیوایم کا نمبر آخری سے پہلا ہے۔ جن پارٹیوں میں داخلی جمہوریت کمزور ہے، ستم دیکھئے کہ وہی عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہیں، جو لوگ خود دوسرے کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، اور مشورہ نہیں کرتے ، رائے نہیں لیتے، عوام انہی کو اپنا قائد منتخب کرتے ہیں، اس سے عوام کے جمہوری رویے کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ جو انسان خود اپنے اوپر کسی قانون اور قاعدہ کو لاگو نہیں کرتا ، وہ دوسروں کو اس پر عمل کرنے کے لئے کیسے کہتا ہے؟ پلڈاٹ کا یہ سروے عوام اور مقبولِ عام حکمرانوں دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، کسی فردِ واحد کی پارٹی میں رہ کر سیاست کرنا غلامی کی ایک جدید شکل ہے۔ اسی لئے ایسے حکمران بادشاہوں کی سی عادتیں اپنا لیتے ہیں، وہ خود کو بادشاہ کیوں نہ سمجھیں، پارٹی میں کسی کو معمولی سے اختلاف رائے کی بھی مجال نہیں۔ یہ سروے اپنی جمہوری سیاست کے چہرے پر بدنما داغ کی صورت سامنے آیا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.