پاکستان کو قائم ہوئے 69 سال ہوچلے
ہیں ۔یہاں ایک سے بڑھ کر ایک لیٹرا قومی خزانے کو روپ بدل بدل کر لوٹتا ہے۔
احتساب ادارے ان کی ہوا کو بھی نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔
سیاسی لوگ تو جانتے ہیں لیکن عام لوگ اس سے بے بہرہ ہیں ۔یہاں سیاست کا نام
خدمت نہیں بلکہ لوٹ مار اور سودے بازی ہے ۔دس کروڑ لگا کر ایک ارب کمانے کے
چکرمیں لوگ الیکشن میں حصہ لیتے اور کامیاب ہوکر پوری قوم کے داماد بن جاتے
ہیں ۔ نہ حکومتی ادارے ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی میڈیا۔ اس کی وجہ
شاید یہ ہے کہ جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں ۔ اعلی
عہدوں پر فائز ان کے رشتے دار وردی پوش دور آمریت میں ان کا تحفظ کرتے ہیں
جبکہ خاندان کے آدھے لوگ برسراقتدار پارٹی میں تو باقی ماندہ اپوزیشن میں
ہوتے ہیں ۔حکومت کسی کی بھی ہو انہیں لوٹ مار سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ اگر
یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ پاکستان میں احتساب کا لفظ صرف بلیک میلنگ اور
سودے بازی کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ پہلے کسی کابے رحم اور حقیقت پر مبنی
احتساب ہوا ہے اور نہ ہی اب ہونے کی امید ہے ۔ ہم زیادہ پیچھے نہیں جاتے
صرف پرویز مشرف کی بات کرتے ہیں ۔ اس نے جیسے ہی اقتدار پر قبضہ کیا تو یہ
کہتے ہوئے احتساب کا ادارہ قائم کیا کہ بنکوں سے معاف کروائے جانے والے
اڑھائی سو ارب قرضوں سمیت ہر لیٹرے کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کی رقم نکلوائی
جائے گی۔ لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہوا ہر گز نہیں بلکہ مشرف نے نواز لیگ
کے جتنے لیٹرے اور کرپٹ لوگ تھے انہیں ایک جگہ اکٹھا کیا اور قاف لیگ بنا
کر اپنے آٹھ سالہ اقتدار کی راہ ہموار کرلی ۔ پھر آئین کو پس پردہ ڈال کر
ہر وہ کام کیا جو ان کے اقتدار کو طول دے سکتا تھا۔وہ کرپٹ لوگ جن کا
احتساب کا نعرہ انہوں نے لگایا تھا وہی مشرف کے اقتدار کی بیساکھیاں بن گئے
اور اقتدار کے مزے پھر لوٹنے لگے ۔ نہ عدلیہ ان کے عزائم کو روک سکی اور نہ
ہی کوئی ادارہ ۔ مراتب علی شیخ( مرحوم) جو 1969سے 1988 تک چیف منسٹر ہاؤس
اور گورنر ہاؤس میں بطورپی آراو تعینات رہے ایک نجی محفل میں احتساب کے
حوالے سے ایک خوبصورت واقعہ سنایا۔ ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا تو
پیپلز پارٹی کے کرپٹ افراد کی فائلوں سے پنجاب اسمبلی کے کئی کمرے بھر گئے
۔ابھی ان فائلوں پر تحقیقات اور مارشل لاء عدالتوں میں سماعت شروع ہونی تھی
کہ روزانہ وردی پوش آتے اور فائلوں کے ڈھیر سے اپنے اپنے عزیزوں کی فائلیں
تلاش کرکے لے جاتے ۔ چند دنوں کے بعد فائلوں سے بھرے ہوئے کمرے خالی ہوچکے
تھے ۔ اگر یہ کہاجائے کہ کرپشن اور لوٹ مار صرف جمہوریت میں ہی ہوتی ہے تو
بھی غلط ہے ۔ کیونکہ جب ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو پھر ایسے طاقتورافراد
لیٹروں کے روپ میں حرکت میں آتے ہیں جنہیں روکنے یا پکڑنے کی کسی میں جرات
بھی نہیں ہوتی ۔( مشرف کے خلاف قتل سمیت کتنے مقدمے بنائے گئے ہیں کسی ایک
میں بھی انہیں سزا ہوئی ہے کیا ۔ وہ ابھی قوم کے داماد بن کے شاہانہ زندگی
بسر کررہے ہیں اور سربراہان مملکت جیسی آسائشیں اور پروٹوکول انہیں حاصل
ہے۔)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقتدار میں آنے والے سارے لوگ کرپٹ یا
فرشتے ہوتے ہیں ۔اچھے اور برے ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن کرپٹ لوگوں کی
اگر فہرست بنائی جائے تو پیپلز پارٹی سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔ وہ خود
بھی لوٹتے ہیں اور اپنے ہرکاندوں کو بھی لوٹنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔جس
کی ایک مثال موجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ہیں جو ایک میٹرریڈر سے
کرپشن کا سہارا لے کر وزیراعظم کی گردن پر سوار ہوچکے ہیں ۔مجھے ان کاایک
انٹرویو پڑھنے کااتفاق ہوا تھا جس میں وہ خود اپنی کرپشن اور مددگاروں
کااعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولت ٗعہدے اور کروڑوں مالیت کے پلاٹ ان کے
پاس کھینچے چلے آتے تھے۔یہ بھی ہمارے احتساب ادارے کا کمال ہے کہ آج تک کسی
ایک لیٹرے کو بھی کرپشن کی وجہ سے سزا نہیں ہوسکی ۔ زرداری پرکرپشن کے بے
شمار الزامات تھے ٗ کبھی سرے محل تو کبھی غیرملکی بنکوں میں اربوں ڈالر کا
معاملہ ۔ لیکن وہ ٹھاٹ سے پانچ سال پورے کرکے چلتے بنے بلکہ اپنے ذاتی
مقدموں کی بھاری فیسیں بھی سرکاری خزانے سے ہی اداکرتے رہے ۔اب سندھ میں
احتساب کا ڈھونگ رچایا جارہاہے پہلے تمام لیٹروں کو دوبئی فرار ہونے کا
موقعہ فراہم کیاگیا بعد میں احتساب شروع ہوا ۔قاف لیگ کے کتنے لوگوں پر
کرپشن ثابت ہوئی اور کتنے کو سزا ہوئی ۔ افتخار چوہدری بھی ایڑی چوٹی کا
زور لگاچکے لیکن مونس الہی کا کوئی بال بھیکا نہیں کرسکا ۔اگر اب بھی موقعہ
ملا تو وہ پہلے سے زیادہ خونخوار ہوکر کرپشن کریں گے ۔اب احتساب کا رخ
بظاہر مسلم لیگ ن کی جانب ہوتا نظر آرہاہے ۔ ن لیگ میں بھی کرپٹ سے کرپٹ
اور نااہل لوگ بھرے ہوئے ہیں ۔اگر نواز اور شہباز کا دامن صاف بھی ہو تب
بھی ان کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اگر سیاست دان اور آمرکرپٹ ہیں تو بیوروکریسی میں بھی کئی بھیڑیے چھپے
بیٹھے ہیں جو کبھی قانون کے ہاتھ نہیں آتے کیونکہ قانون بنانے اور اس پر
عمل کرنا انہی کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔ جعلی ڈگریوں والے سیاست دان تو آج
کے دور میں پانچویں کا امتحان بھی پاس نہیں کرسکتے وہ انگریزی میں لکھی
ہوئی قانون کی کتابیں کیسے پڑھ سکتے ہیں۔حتی کہ خود نیب میں شامل افسر ٗ
احتساب کے نام پر بلیک میل کرکے رشوت مانگتے ہوئے سنے گئے ہیں۔ ان حالات
میں احتساب کا جو شور مچا ہوا ہے وہ ن لیگ کے چندایک افراد تک ہی محدود
ہوگا باقی لوگوں کو پھر دس بیس سال کے لیے کرپشن کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔
پاکستان میں بیس یا پچاس ہزار کی کرپشن والے لوگ تو گرفت میں آسکتے ہیں
اربوں کی کرپشن کرنے والے نہیں ۔ اس لیے یہ سب کچھ آنکھوں کا فریب دکھائی
دیتاہے اور کچھ نہیں ۔ |