شکایات کی دھند میں ہونے والا سی سی آئے اجلاس
(Shafique Shakir, Hyderabad)
صوبے بار بار یہ شکایات کرتے نظر آتے ہیں کہ تمام تر اہم معاملات جو آئینی طور پر سی سی آئے کے اجلاس میں صوبوں کی مشاورت سے طے ہونے تھے،وفاقی حکومت نے آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے طے کرلئے۔اپنی آئینی ذمیداریوں کو محسوس کرتے ہوئے اگر وفاقی حکومت نے خود بخود یہ کام پہلے کرلیا ہوتا تو صوبوں اور مرکز کے درمیان محاذآرائی کی یہ کیفیت پیدا نہ ہوئی ہوتی۔بہرحال دیر آید درست آید۔لیکن اگر وفاقی حکومت نے صوبوں کو مکمل طور پر مطئمن کرنے کے بجائے کوئ ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کئے رکھا تو یہ چیز موجودہ نازک حالات میں کسی بھی طرح ملک اور قوم کے مفاد میں نہ ہوگی |
|
ایک طویل عرصے بعد مشترکہ مفادات کی
کائونسل (سی سی آئے) کا اجلاس آج 29 فروری کواسلام آباد میں ہو رہا
ہے۔وفاقی حکومت کا اگر بس چلتا تو اس قسم کے اجلاسوں سے ٹال مٹول کا سلسلہ
اسی طرح جاری رہتا مگر صوبوں کے طرف سے آہ و پکار،میڈیا کے مسلسل دباوَ اور
چیرمین سینیٹ کی اس معاملے میں دی گئی سخت رولنگ کے بعد وفاقی حکومت نے
بالآخر عافیت اسی میں سمجھی کہ یہ اجلاس کرکے کسی طرح جان چھڑائی جائے۔ِ "
جان چھڑانے" کی اصطلاح ہم نے اس لئے استعمال کی کہ ماضی میں چھوٹے صوبوں کی
شکایات و تحفظات کے حوالے سے وفاقی حکومت کا رویہ خاصہ سرد رہا ہے۔صوبے بار
بار یہ شکایات کرتے نظر آتے ہیں کہ تمام تر اہم معاملات جو آئینی طور پر سی
سی آئے کے اجلاس میں صوبوں کی مشاورت سے طے ہونے تھے،وفاقی حکومت نے آئین
کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے طے کرلئے۔اپنی آئینی ذمیداریوں
کو محسوس کرتے ہوئے اگر وفاقی حکومت نے خود بخود یہ کام پہلے کرلیا ہوتا تو
صوبوں اور مرکز کے درمیان محاذآرائی کی یہ کیفیت پیدا نہ ہوئی ہوتی۔بہرحال
دیر آید درست آید۔لیکن اگر وفاقی حکومت نے صوبوں کو مکمل طور پر مطئمن کرنے
کے بجائے کوئ ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کئے رکھا تو یہ چیز موجودہ نازک
حالات میں کسی بھی طرح ملک اور قوم کے مفاد میں نہ ہوگی۔دوسری طرف چھوٹے
صوبوں کے نمائندوں کو اپنا جائز موقف اجلاس میں پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ
نہیں کرنی چاہیے اور اپنے صوبوں کے عوام کی شکایات اور تحفظات کو بھرپور
طریقے سے پیش کرنا چاہیے۔یقیناً سندھ حکومت نے اس معاملے میں اپنا کیس
مضبوط دلائل اور حقائق کی روشنی میں تیار کیا ہوگا۔انہیں اپنی آنکھیں،کان
اور ذہن کھلا رکھنا ہوگا تاکہ کوئی اہم معاملہ کہیں الجھ کر نہ رہ جائے۔یہ
اجلاس اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے جو ایک تو یہ اجلاس کافی عرصے کے بعد
ہورہا ہے۔دوئم یہ کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے اپنے اختیارات
،وسائل کے استعمال اور تقسیم ،اداروں کی ڈوولیوشن اور وفاقی ترقیاتی
منصوبوں کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کو وفاق سے شدید شکایات ،اعتراضات اور
تحفظات ہیں جن کا اظہار وہ مسلسل کرتے آرہے ہیں۔پانی ،بجلی اور گئس کی
پیداوار اور تقسیم کا معاملہ بھی ایک اہم اشو ہے جو اس اجلاس کے بحث کا
موضوع بنے گا۔قدرتی وسائل پر رایلٹی کا معاملہ بھی اختلاف کا سبب بنا ہوا
ہے۔لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ آدمشماری کا ہے جو صوبوں کے سخت اصرار کے
بعد اجلاس کی ایجنڈا میں شامل کیا گیا ہے۔جس کے ٹائیم پیریڈ پر سندھ کا
موقف بلوچستان کے موقف کے بلکل متضاد ہے۔بلوچستان آدمشماری کو کم سے کم چھ
مہینے موخر کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور یہ بھی کہ بلوچستان کے اصل باشندے
جب تک واپس اپنے گھروں کو نہیں لوٹتے اور غیر ملکی پناہ گزینوں کو اپنے ملک
بدر نہیں کیا جاتا، بلوچستان حکومت آدمشماری پر راضی نہیں ہے۔ جبکہ سندھ کا
موقف یہ ہے کہ کسی بھی صورت آدمشماری ملتوی نہیں ہونی چاہیے۔تاہم غیرملکیوں
کو آدمشماری کے عمل سے باہر رکھنے کے حوالے سے دونوں صوبوں کے موقف میں
کامل ہم آہنگی ہے۔آدمشماری کے عمل میں فوج کی مدد لینے کے سوال پر عسکری
قیادت کی طرف سے ایک ہی وقت میں اتنی بڑی افرادی قوت فراہم کرنے سے لاچاری
ظاہر کرنے کے بعد ایک اور نئی الجھن پیدا ہوگئی ہے ،دیکھنا ہے کہ مرکز اور
صوبے اس معاملے کو کیسے سلجھاتے ہیں۔ایک اور اہم معاملہ وفاق کے قابل تقسیم
مالی پول سے صوبوں کو فنڈز کی فراہمی ہے۔پنجاب ہمیشہ یہ تقسیم آبادی کی
بنیاد پر کرنے کا حامی رہا ہے جبکہ دوسرے صوبے اس کے لئے پسماندگی اور
روینیو جنریشن جیسے عوامل کو بھی مد نظر رکھ کر فنڈز تقسیم کرنے کا مطالبہ
کرتے آئے ہیں۔اس اجلاس کی جو ایجنڈا صوبوں کو ارسال کی گئی تھی اس میں سی
سی آئے کے 18 مارچ 2015ع کے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر نظرثانی بھی شامل
ہے۔ان فیصلوں میں پاور پالیسی 2015ع،تیل اور گئس کے معاملات، اسلام آباد
اور پنڈی کو گئس کی فراہمی،کچھی کینال منصوبے میں مبینہ کرپشن،پبلک ڈیبٹ
مینیجمینٹ اینڈ سپرویئن پالیسی،توانائی کی اہلیت اور منتقلی کا بل
2014ع،ارسا کے 1992ع کے ایکٹ میں ترمیم اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق سے
صوبوں کو منتقل کئے گئے اداروں کے ملازمین کو صوبائی محکموں میں ضم کرنے
جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔سندھ حکومت کا آئل اینڈ گئس معاملے پر موقف ہے
کہ سندھ کے پاس اپنی قدرتی گئس وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود یہ گئس
دوسرے صوبوں کو سپلائی کرکے سندھ کو ایل این جی خریدنے پر مجبور کیا جا رہا
ہے اس لئے وہ ایل این جی برآمد منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے جبکہ وفاقی
حکومت صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر پہلے ہی قطر کے ساتھ ایسی ڈیل سائین
کرچکی ہے۔اسی طرح اٹھارہویں ترمیم کے مطابق جو ادارے سندھ حکومت کو منتقل
کئے گئے تھے ابھی تک ان کے مکمل وسائل اور اختیارات سندھ کے حوالے نہیں کئے
گئے۔سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور او اے بی آئے کے اختیارات اور وسائل بھی
سندھ حکومت کے سپرد نہیں ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کے جمع
کئے گئے تین ارب روپے کے فنڈ پرابھی تک وفاقی حکومت قبضہ کئے ہوئے ہے اور
سندھ حکومت کے کئے گئے بار بار مطالبوں کے باوجود معاملہ جوں کا توں
ہے۔بلوچستان حکومت پٹ فیڈر اور کھیرتھر کینالوں میں پانی کی شدید کمی ،پانی
کے لئے زیرزمین ڈرلنگ،حب ڈیم سے پانی کی متناسب تقسیم،آراو بی ڈی تھری
منصوبے اور بلوچستان میں گئس کی صحیح تقسیم اور صوبے کے دیہات کو گئس فراہم
کرنے جیسے اہم معاملات کو اس اجلاس میں اٹھائے گی۔اس کے علاوہ سندھ اور
خیبرپختونخواہ کو یہ شکایات ہیں کہ وفاقی حکومت تمام اہم فیصلے صوبوں کی
مشاورت سے سی سی آئے میں کرنے کے بجائے قومی اقتصادی کائونسل یا کیبنیٹ
کمیٹی میں کرتی رہی ہے ۔یہاں تک کہ ایسے فیصلوں کی دستاویز تک صوبوں کو
فراہم نہیں کی جاتیں۔ شکوہ شکایات،خدشات، تحفظات اور اعتراضات کی دھندھ میں
ہونے والے سی سی آئے کے اس اجلاس میں چھوٹے صوبوں کی عوام روشنی کی کوئی
کرن ڈونڈھ رہی ہے۔اس امید پر کہ ان کے صوبائی نمائندے سیاسی مفادات سے ہٹ
کر اپنے عوام کے جائز خدشات اور موقف کی ایک اہم آئینی ادارے کے سامنے
بھرپور ترجمانی کرینگے۔ |
|