قومی بچت مراکز کے ناقص انتظام
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
برطانیہ کے دور حکومت 1873 میں متعارف کرائے جانے والے سرکاری بچت بینک جو اب قومی بچت مرکزکہلاتا ہے جہاں پاکستانیوں کے علاوہ دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد سرمایہ کاری کرتی ہے اس ادارے پر لوگوں کا اعتماد اس کا سرکاری ہونا ہے |
|
|
برطانیہ کے دور حکومت 1873 میں متعارف
کرائے جانے والے سرکاری بچت بینک جو اب قومی بچت مرکزکہلاتا ہے جہاں
پاکستانیوں کے علاوہ دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد سرمایہ
کاری کرتی ہے اس ادارے پر لوگوں کا اعتماد اس کا سرکاری ہونا ہے لوگ اپنے
سرمایہ کواس ادارے میں محفوظ سمجھتے ہیں ، یہ ادارہ سرمایہ کاری کے لیئے
کئی اسکیم متعارف کراتا ہے جس میں سب سے زیادہ ماہانہ منافع دینے والی
اسکیموں میں سے ایک پینشن بینیفٹ اسکیم اور دوسری بہود اسکیم ہے جس میں
ریٹائیرڈ ملازمین اور سینئیر شہری سرمایہ کاری کرتے ہیں اس میں کسی قسم کی
کوئی دوسری رائے نہیں کے اس ادارے سے زیادہ پاکستان کے کسی ادارے میں
اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی لیکن افسوس کے اس کے باوجود یہاں
سرمایہ کاری کرنے والوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے
زیادہ تر مراکز میں لوگ صبح سات بجے سے مرکزی دروازے پر لائن بنا کر کھڑے
ہوتے ہیں جہاں مراکز کھلنے سے پہلے ہی انہیں ٹوکن نمبر دیا جاتا ہے پھر
مراکز کے کھلنے کے بعد ایک لائن لگتی ہے اپنی پاس بک جمع کرانے کے لیئے اور
پھر مزید ایک لائن بنائی جاتی ہے منافع کے حصول کے لیئے غرض یہ کہ ایک فرد
تین مختلف لائنوں میں کھڑا ہوتا ہے تب جاکر اسے اس کی رقم ملتی ہے ۔ ان
مراکز میں ضعیف العمر خواتین اور حضرات کی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے جو کہنے
کو تو سرمایہ کار ہوتے ہیں اور اپنی جمع پونجی حکومت پاکستان کے حوالے کرتے
ہیں لیکن اپنے ہی پیسے پر ملنے والے منافع کے حصول کے لیئے بھکاریوں کی طرح
لائن میں کھڑے ہوتے ہیں ۔
ریکارڈ سرمایہ حاصل کرنے والا یہ ادارہ اس جدید دور میں بھی بڑے بڑے
رجسٹروں کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ کھاتے داروں کا ریکارڈ دیکھنے اور انٹری
کرنے میں خاصہ وقت لگ جاتا ہے بیشتر مراکز میں ٹوکن مشینیں ہی نہیں ہیں
ہاتھ سے لکھی پرچیاں ٹوکن کے لیئے استمال کی جاتی ہیں پاکستان میں بیکنگ کی
جدید ترین سہولیات ہونے کے باوجود اس ادراے کو آن لائن نہیں کیا گیا جس کی
وجہ سے ضعیف العمر لوگوں کوکئی کئی گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے
۔
ان سب کوتاہیوں کے باوجود لوگ اس ادارے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیوں کہ
ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں ۔ اگر اس اہم سرکاری ادار ے میں چند
بنیادی سہولیات میسر کردی جائیں تو کافی حد تک کھاتے داروں کی شکایات کا
ازالہ ممکن ہوسکے گا ۔
تمام کھاتوں کو کمپیوٹرائز کردیا جائے ، خودکار ٹوکن مشینوں کی تنصیب، اے
ٹی ایم کارڈ کی سہولت،کھاتے داروں کے چیک کی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی
سہولت، کھاتے داروں کے منافع کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی سہولت
اور حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق بزرگ شہریوں کے الگ کاؤنٹر ، یہ وہ
بنیادی سہولیات ہیں جو کھاتے داروں کو فراہم کرکے ان مراکز سے بے انتہا رش
کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کے رقم ان تک پہنچنے کے عمل کو تیز
تر اور محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ |
|