کراچی دنیا کا وہ بد نصیب شہر ہے جس کی ایک
ایک شے ترقی کی جانب گامزن تھی لیکن آج المیہ یہ ہے کہ اس کی ایک ایک شے
پستی کی جانب رواں دواں ہے اور اس کی صورتحال ایک ایسی بیواہ خاتون کی طرح
ہے جس کا کوئی وارث نہیں جس کی کفالت کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں ہوتی
جبکہ یہ اربوں کی کفالت کرنے والا شہر ہے۔اس شہر میں مزدا کے ٹرک چیسیز سے
بنائی گئی کوچوں،منی بسوں کے سفر نے ہمیں کبڑا کر دیا اور اب ہمارے بچوں کی
باری تھی اس سے قبل کہ کراچی کبڑوں کا شہر کہلاتا وزیر اعظم پاکستان کو
لاہور،راولپنڈی کے بعد کراچی والوں کا بھی خیال آگیا کہ چلو اب ان کی بھی
کمر کو سیدھا کیا جائے اس خیال کے آتے ہی انھوں نے کراچی کے وسط میں واقع
ناظم آباد کے انو بھائی پارک میں گرین لائن بس منصوبے کی سنگ بنیاد رکھ دی
اور یہ نویدبھی سنائی کہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے نظام کو درست کرنے کی ابتدا
کر دی گئی ہے کراچی سرکلر ریلوے سمیت دیگر منصوبوں کو بھی مکمل کیا جائے گا۔
کراچی سرکلر ریلوے کا ذکر آتے ہی ہمارے دل سے آہ نکلتی ہے کراچی سرکلر
ریلوے کا آرام دہ اور پُر لطف سفر آج بھی یاد ہے جب ہم چھ آنے کا گتے کا
ٹکٹ لیکر ڈرگ روڈ اسٹیشن سے سفر کا آغاز کرتے تھے ،موجودہ گلستان جوہر،گلشن
اقبال،لیاقت آباد،ناظم آباد،شیر شاہ،منگو پیر، لیاری سے ہوتی ہوئی یہ ٹرین
سٹی اسٹیشن تک پہنچتی تھی سرکلر ریلوے کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ دفتری
اوقات میں بوگیاں کھچا کھچ بھری ہوتی تھیں اورمقررہ وقت پر منزل مقصود پر
پہنچاتی تھی وقت سے پہلے مسافر اپنے دفاتر میں موجود ہوتے تھے نہ تھکن کا
احساس نہ تاخیری کا دُکھ،
1969سے1990تک کامیابی کی ہر سیڑھی کو عبور کرتی ہوئی سرکلر ریلوے کو
ٹرانسپورٹ مافیا اور حکومتی سازشی اراکین نے زبوں حالی کا شکار کیا1970 سے
1980کے دوران کراچی سرکلر ریلوے کی توسط سے روزآنہ کی بنیاد پر 104ٹرینیں
چلائی جانے لگیں تھیں جن میں سے 25ٹرینیں لوکل سروس کے لئے چلائی جاتی تھیں
ایک اندازے کے مطابق اس سے سالانہ 60لاکھ افراد استفادہ حاصل کر تے تھے اور
آخر کار 1990کی دھائی میں کراچی سرکلر ریلوے کو نا اہل حکومتی ارکان اور
کرپشن نے نگل لیا اور ہمیں ٹرانسپورٹ مافیا کے سپرد کر دیا المیہ یہ ہے کہ
بڑے بڑے ادارے کو تباہ و برباد کرنے والوں کے ذمہ داروں کا آجتک نہ تو تعین
ہو سکا اور نہ ہی کسی کو ایسی عوام دشمن پالیسی اختیار کرنے کی سزا مل سکی
۔2005کے اوائل میں بھی ایک خوشخبری کی نوید ہماری سماعت سے ٹکرائی تھی کہ
کراچی سرکلر ریلوے پر سندھ حکومت اور جاپان کی کمپنی کے اشتراک سے اس
منصوبے کی بحالی پر کام ہوا ہی چاہتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح بروز
جمعہ26فروری کو وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف نے گرین لائن بس کے
منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی نوید سنائی ہے
لیکن کراچی والوں کے لئے وہ بہلاوا اور خوشخبری تک ہی محدود رہی جاپانیوں
نے واضح کر دیا تھا کہ سندھ حکومت سرکلر ریلوے منصوبے کے لئے سنجیدہ نہیں
ہے، صوبہ سند ھ اور خصوصاً کراچی کے کئی منصوبے دو اسٹیک ہولڈرز کی چپقلش
اور کمیشن مافیا کی نذر ہو گئے ہیں آج کراچی کے کھنڈرات اسمبلی میں بیٹھے
بے حس اراکین کو منہ چڑا رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی والوں میں بے یقینی
کی کیفیت موجود ہے اور اسی کیفیت میں ایک قطعہ کی آمد ہوئی ہے جو قارین کی
نذر کرنا چاہو ں گا۔
اگر بتی ، کہیں پھل جھڑی نہ ہو جائے
نوید شاد ، کہیں دُکھ بھری نہ ہو جائے
عجب کیفیت ہے کر اچی والوں کی
ہر ی بس کی جھنڈی ہری نہ ہو جائے |