سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس(ڈاکخانہ)

گل زیب انجم کے ایک طویل مضمون سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس آپ کہہ سکتے ہیں کے ڈاک خانہ ابھی گھر میں ہی ہے لیکن چهٹیاں لکهنے والے کم ہی رہ گے ہیں
آخر پهر سوا دو گز کے مکان میں چلے گئے.

وہ اپنے اپنے گهروں کی ہو گئی. .......اور میں ان کے گهر کی ہو گئی.

مکتب البرید گهر میں ہی تها.

ایک پٹ والی الماری تھی جس پر ڈاکخانہ لکها تها.

بیرنگ خطوں کو دیکھ کر کچھ رنگ آتا اور کچھ چلا جاتا.
چهٹیاں لکهنے والے کم ہی رہ گے ہیں.

حنیف ملک کی کوٹھی سے سیدھے سیری بازار کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب بلکل سڑک کنارے باوا عبدل بهٹی راجپوت کا مکان ہے یہ مکان انہوں نے کچھ ہی عرصہ پہلے بنوایا تھا پہلے وہ آبائی گھر میں رہتے تھے جہاں تین بهائیوں کی فیملیز ایک ساتھ رہتی تھی بچے جوان ہوئے تو جگہ کم ہوتی محسوس ہوئی تو دو بهائیوں نے منجلے بهائی کو اپنے مکان دے کر خود کاشت کاری رقبے پر مکان بنا لیے اسی سلسلہ میں باوا بھی یہاں آ بسے. سوچیں کیا ہوتی ہیں فیصلے کیا ہوتے ہیں کوئی تقدیر سے پوجهے، انہوں نے سوچا ہو گا کهلی جگہ رہنے سے صحت بهی ٹھیک رہے گی اور صفائی ستهرائی بھی بہتر رہے گی لیکن پہلی سوچ صرف سوچ تک ہی رہی کیوں کہ وہ یہاں آنے کے بعد تقریباً بیمار ہی رہے اور آخر یہی بیماری انہیں یہاں سے پهر سوا دو گز کے مکان میں لے گئی.

مصنف دو سال پہلے بعد صلوٰۃ فجر اپنے پدر گرامی کی مرقد رحمت پر حاضری دے رہا تها کہ چوتهی پانچویں قبر پر سے قرآن خوانی کی صوت سنائی دی چونکہ روشنی اسقدر نہ تهی کہ کوئی دور سے پہچانا جائے اس لیے وہاں چلا گیا جہاں سے آواز آ رہی تھی وہاں دیکها کے ایک جواں سالہ لڑکی قرآن خوانی کر رہی ہے اور سردی سے بچنے کے لیے پاوں کے ساتھ چادر لیپٹی ہوئی ہے ایک اجنبی آدمی کو دیکھ کر مذید چادر کو درست کرتے ہوئے سوالیہ نظروں سے دیکهنے لگی جیسے پوچھ رہی ہو تم کون اور کیوں آئے ہو.

مصنف نے سوالیہ انداز میں گهورتے دیکھ کر پوچھا بیٹی یہ قبر کس کی ہے اور تمہارا اہل قبر سے کیا رشتہ ہے کہنے لگی لغنے تساں وی اوپرے او (آپ بھی نئے لگتے ہیں) شاید آپ بابے عبدل کو جانتے ہوں گے .....جی ہاں ہاں کیوں نہیں..! تو یہ انہی کی قبر ہے .... قالو انا للہ خود ساختہ ہی زبان سے ادا ہوئی تو پھر پوچھا کہ بیٹا. ..... تم ......ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ اس نے کہا میں ان کی بہو ہوں ...... تو ان کی بیٹیاں بھی تهیں ...... جی تهیں لیکن وہ اپنے اپنے گهروں کی ہو گئی ہیں اور میں ان کے گهر کی ہو گئی ہوں .... تو کیا افضل گهر ہی ہوتا ہے؟ جی ہاں. .. افضل کا نام سن کر چونکتے ہوئے پوچها کیا آپ انہیں جانتے ہیں . جی میں جانتا ہوں ، لیکن وہ کیوں نہیں آیا . او جی بات یہ ہے کہ ایک تو گهر کوئی نہیں تها دوسرا سردی ...... بھی زیادہ تھی .......اس لیے میں آ گئی ہوں .... بابے کی بہو کا جواب سن کر بابے کی قسمت پر رشک بھی آیا اور ان کا دوران حیات گهر والوں سے برتاؤ بھی سامنے آیا واپس لوٹا تو بہت سارے سوالات جنم لے رہے تھے لیکن سردی کی لمبی " ی" پر ایک سوال یہ بھی تھا کہ ... کیا یہ فرمانبرداری سسر محروم کی تهی یا گهر والے کی تابعداری تهی.

سیری بازار کا آغاز ڈاکخانے سے ہوتا ہے یہ ڈاک خانہ یوُں تو بہت قدیم وقتوں کا ہے لیکن جہاں اب یہ واقع ہے یہاں اسے اتنا عرصہ نہیں ہوا یہ ڈاکخانہ پہلے صوفی بیرو(صوفی بیرولی) جو کہ ڈاکخانے کے بابو (پوسٹ ماسٹر)بھی تھے اُن کے گھر میں ہوا کرتا تھا اس کی نشانی یہ تھی کہ لکڑی کی ایک پٹ والی الماری تھی جس کے اوپر اُن کے فرزند ارجمند نے بڑی خوش خطی سے ڈاک خانہ لکھا ہوا تھا یہ الماری اُن کے گھر کے برآمدے میں ایک طرف پڑی رہتی تھی جس کے قریب ہی مرغیوں کا بڑا سا ڈربہ بھی تھا اور کچھ شریر طرز کی مرغیاں اپنے ڈربے سے بیزار ہو کر اسی کے اوپر بیٹھی رہتی تھیں۔ اب ایک پٹ والی الماری میں کچھ خط بے رنگ(بیرنگ اُن خطوں کو کہا جاتا تھا جو بغیر ٹکٹ کے ہوتے تھے)اور کچھ لفافے (پوسٹل کارڈ)کے بغیر ہوتے تھے لیکن بیرنگ خطوں کو دیکھ کر ڈاک والوں کے چہرے پر کچھ رنگ آجاتا تھا جب کے خط لینے والے کے چہرے کا رنگ اُڑ جاتا تھا وہ اس لیے کے بیرنگ خط کے خط لینے والے کو کچھ اضافی رقم دے کر خط وصول کرنا پڑتا تھا ،دوسری وجہ اس کی یہ سمجھی جاتی تھی کہ کوئی ایمرجنسی ہے ۔ اس لیے لینے اور دینے والوں کے چہرے رنگ بدلتے تھے لیکن اُن کی کفیت الگ ہوتی تھی ۔ اب جو خط بیرنگ ہوتا تھا وہ مطلوب علیہ تک جلد پونچتا تھا اور جو کچھ رنگ (ٹکٹ)لے کر آتا تھا وہ اُس وقت تک الماری میں ہی رہتا تھا جب تک مرغیاں اس کا رنگ بگاڑ نہ دیتیں، چهٹی رسان باضابطہ طور پر نہ ہونے کے باعث ڈاک ترسیلی کے فرائض باو جی کا بیٹا خالد یا نواسہ اشفاق سرانجام دیتے تھے وہ بهی جب سکول میں چهٹی ہوتی تو بهلے خط ڈاکخانے میں ہفتے کی صبح آ جاتا لیکن لیکن ڈسٹریبیوشن جمعہ کو ہی ہوتی. اشفاق جسمانی طور پر کافی کمزور سا تها اس لیے اسے اشفاق کہنے کی زحمت کسی نے نہیں کی بلکہ اس کا سوکها سڑا سا قد کاٹھ دیکهتے ہوئے ہر کوئی برجستہ ٹیڈی(اس وقت کی سب سے چهوٹی کرنسی) کہتا جب بلوغت میں مسیں بهیگنے لگی تو نانی اماں کو کچھ اس کی سادگی کا احساس ہوا تو پہولی کہنا شروع کر دیا لیکن جسامت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پہولا نہ کہہ سکیں. یوں بیچارے کی امپرومنٹ ہوئی کہ لڑکا ہو کر بھی نانی اماں کی مہربانی سے پہولا نہ بن سکا. بلکہ دیگر دادا پوترے یا مسئیر عمر کا لحاظ کرتے پهائ (بهائی) کا اضافہ کر دیتے آج موصوف نانا دادا بن چکے ہیں اس لیے صرف پہلے حروف میں کچھ تبدیلیاں آ گئی ہیں جیسا کہ مانواں پہولی چاچا پہولی نانا پہولی اور دادا پہولی وغیرہ.

سیری کے گردونواح کے لوگوں کو سیری کسی نہ کسی کام سے لازمی آنا ہوتا تھا کیونکہ سیری ہی اُن کا مرکز تھا اور ضروریات زندگی یہاں سے ہی میسر تھیں میاں عبدالحکیم جو راج گیری کے ساتھ ساتھ تعویذ بتی اور نکاح کے کام بھی سر انجام دیتے تھے وہ اور حکیم پیراں دتہ بھی صوفی بیرولی صاحب کے پڑوسی تھے سو بازار آنے والا پورے شیڈول اور مینو کے ساتھ آتا کہ میاں جی کو ختم شریف کا کہنا ہے حکیم صاحب سے فولادی شربت لینا ہے صوفی بیرو ہوراں کولوں خط کا پتہ کرنا ہے اور بشیر سے بال کترا کر صوفی صفدر سے گُڑ اور کھل باڑے بھی لانے ہیں. اب جو خط کا پوچهنے آتا تو صوفی جی ایک دو محلوں کی پینڈنگ ڈاک اسی کو تهما دیتے لیکن یہاں وہ اس بات کا ضرور خیال رکهتے کہ کون کس سمت جانے والا ہے یوں وہ ججوٹ بہادر جوگالپال اور جمیری کے خط ایک کو اور مانکشاہ منجواڑ اور مرہوٹہ کے خط ایک کو دے دیتے اب جس نے خطوں کا پوچھ لیا پھر اپنے محلے کی قاصدی کا انجام بھی اسی نیکوکار کو دینے پڑتے یوں رنگدار(ٹکٹ والا) خط اپنی منزل تک پہنچ جاتا۔ ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا کے خط لکھنے والا خط سے پہلے گھر پہنچ جاتا اور پھر وہی ایک پٹ والی الماری سے مرغیوں کے سنڈاس سے بھرا خط لے جاتا۔ وقت بدلہ لوگ بدلے جگہیں بدل گئی اب حکیم پیراں دتہ جی کا مکان حکیم ہوراں ناں کہنھار(کھنڈر) بن گیا اور اُن کے سپوتوں نے وہ جگہ فروخت کر کے پرانی یادوں سے چھٹکارا پالیا اور گھر بان کے اس پار بنا لیا۔ میاں عبدالحکیم جی کی جگہ ان کا پوتا تاج اور پڑپوتا سمیع الحق رہ رہے ہیں.

صوفی بیرو بہت عرصہ تک محکمہ برید سے وابستہ رہے لیکن مکتب گهر میں ہی رہا اور وہ بابو گیری کرتے رہے، ملازمت کے آخری ایام میں عمارت کے لیے جدوجہد کی آخر انہی کی نشاندہی سے ایک عمارت کا بطور ڈاک خانہ انتخاب ہوا لیکن منظور ہونے تک مدت ملازمت پوری ہو چکی تھی لہذا آپ گهر سے ریٹائرڈ ہو کر گهر میں ہی رہنے لگے .

صوفی بیرو درمیانے قد اور گندمی رنگت کے انتہائی ملنسار اور پر وقار شخصیت کے مالک تهے ہمیشہ لٹهے کا سفید شلوار اور ہائیصافی کی قمیض زیب تن کرتے جهاڑے کے دنوں میں میلخورا سا کوٹ جس پر مربہ شکل کے خانے بنے ہوتے پہن لیتے سر پر جناح کیپ بھی رکهتے جس کی مغزی (کناری) عرق شرافت سے کچھ کچھ بهیگی سی رہتی ساری زندگی فقیہ جعفریہ کی طرح کبھی سیاہ جوتے نہیں پہنے صرف براون کلر کی جوتے پہنتے جنهیں وہ غرگابی کہتے تھے پالش کا ذائقہ اس غرگابی نے قسمت سے کہیں چکها ہو گا البتہ جب کہیں جاتے تو ان کی چهوٹی بیٹی غرگابی پر پڑی مٹی کپڑے سے جهاڑتی اور آخر میں چکنائی والے ہاتھ مار کر غرگابی کو تهوڑا حسن بخش دیتی . انتہائی پهرتیلے ہونے کے باوجود بھی کبھی بس میں بس سٹاپ سے سوار نہیں ہوئے بلکہ بس میں سوار ہونے کیلئے پهاٹہ اور پڑاٹی محبوب جگہیں تهیں. علوم عقلیہ اور نقلیہ دونوں سے شغف تھا لیکن جب پڑهتے تو کوئی قسمت والا ہی سمجھ پاتا تها مہمان نوازی اور عفو و درگزر کا وصف آتم درجہ موجودہ تها غصے کا عنصر ان میں نہ ہونے کے برابر تها اگر کہیں آ بهی جاتا تو ماتهے پر ہاتھ کا ہالہ بناتے ہوئے گردن کچھ اور خم کر لیتے اور غصہ دلانے والے کو زبان سے صرف اتنا ہی کہتے مارو سوریو پہولیو ( یعنی اس کے اس عمل کو بهی سادگی سمجھ لیتے اور اس غصہ دلانے والی بات کو اس کی نادانی گردانتے) عسرت سے ان کی زندگی کا ساتھ دامن و چولی سا رہا لیکن کبهی ماتھے پر ناگواری کی شکن نہیں آنے دی صوم و صلوٰۃ ضرور کرتے لیکن ظہر عصر اور مغرب کچھ ایسے اوقات میں ادا فرماتے کہ دیکهنے والا یہ تمیز کرنے سے عاجز رہے کہ یہ ظہر کی ادائیگی ہے یا کہ عصر کی جس طرح پهواڑے کا پهل کوئی نہیں دیکھ سکا اسی طرح ان کی ادائیگی عشاء کوئی نہیں دیکھ پایا .

ایک کچی چهت کا مکان جس کے عین درمیان میں لکڑی کا بڑا سا دروازہ لیکن اصل شیشم کا پهر اس پر بیل بوٹے کشید کیے ہوئے لیکن دیواروں پر چٹی مٹی اور آنگن میں چوہے کیرے نی مٹی(وہ مٹی جو چوہے نے اپنا بل بنانے کی غرض سے نکالی ہوئی ہو) سے کی ہوئی لپائی ہمہ وقت نفیس نفوس کا پتہ دیتی. تین بیٹوں اور تین ہی بیٹیوں کے ماں باپ ہونے کے باوجود یہ دونوں میاں بیوی اپنے آپ کو امی ابو نہیں کہلا سکے اس میں کچھ صیغہ راز نہ تها بلکہ ان کی اولاد اہل محلہ کی طرح ان کو پہاوی (بهابهی) اور بہاجی ( بهائی جی) کہتی تھی اور انہوں نے بھی کبھی درستگی کی زحمت نہ فرمائی . یہ بھی نہیں تھا کہ ان کی اولاد ناخواندہ تهی بلکہ تینوں بیٹے ماشاءاللہ پڑهے لکهے اور سرکاری ملازم تهے اور بیٹیاں تو ماشاءاللہ ایک سے بڑھ کر ایک سگهڑ اور سلیقہ شعار تهیں بس زمانے کی بلائی یوں بولے کے پهر بدل نہ پائے. صوفی جی نے زندگی کے بہت نشیب و فراز دیکهے تینوں بیٹے باروزگار ہوئے تو گهر میں چہل پہل سی آ گئی اللہ نے وہ دن بهی دکهائے کے وہ ایک فورذڈ ویگن کے اونر بهی ہوئے. لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود صوفی جی اپنی سادہ مزاجی، اور ملنساری جیسے فطری اوصاف کی ڈگر پر آخری دم تک قائم رہ کر خاص و عام میں مقبول تهے. کاتب تقدیر نے یہی انکساری دیکهتے ہوئے زیارت حرمین الشریفین بهی عطا فرمائی اور یوں دونوں میاں بیوی حاجی اور حاجن کے رتبے پر بهی فائز ہوئے. حلقہ احباب بہت وسیع تھا اگر کوئی شخص اپنے گهر سے مل نہ پاتا تو فوراً صوفی جی کے گهر پتہ کرایا جاتا اور صد فیصد یہ پتہ درست ہی ہوتا کہ وہ انہی کی مجلس سے ملتا. صوفی جی کو جیسے کوئی نماز عشاء ادا کرتے نہیں دیکھ پایا اس طرح ان کی کوئی داڑھی مبارک بهی نہیں دیکھ سکا لیکن ان کے ہم عصر بزرگوں( چیرمین عزیز الدین چوہدری شیر محمد گرداور عبداللہ ماسٹر مہندی ماسٹر فیض محمد ماسٹر ولایت دیگر تمام ) کو صوفی کہتے ہی سنا گیا اس میں شک نہیں کہ آپ سیرت کے صوفی تهے، چونکہ رسم زمانہ ہے کہ داڑھی والے کو ہی صوفی کہا جاتا ہے لیکن یہ کنسپٹ(Concept) کہیں سے نہیں ملنا . حقیقت میں صوفی کا داڑھی سے کوئی تعلق نہیں.آپ داڑھی منڈواتے نہیں تهے لیکن اتنی رکهتے جتنی دو دن کی شیو چهوٹ گئی ہو، آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہاتھوں میں گھنٹوں چائے کی پیالی تهام کر اہل مجالس سے باتیں کرتے رہنا تھا. آپ کا شمار پرانے دور کے پڑهے لکهے لوگوں میں ہوتا تها پهر سرکاری ملازمت نے آپ کی شخصیت کو مذید نکهار دیا یہی وجہ تھی کہ آپ کو محلے برادری کی ہر سیاسی و غیر سیاسی محفل میں مدعو کیا جاتا لیکن حیران کن امر یہ تها کہ آپ کسی بات کا حتمی فیصلہ دے نہیں پاتے تهے اس کی کہیں وجوہات میں سے ایک وجہ دل شکنی بھی تهی جو وہ کر نہیں سکتے تھے. آپ کے جسم میں خدا ترس دل تها جو ہر کسی کا درد محسوس کرتا اسی محسوسیت کی وجہ سے وہ صرف تشفی کر دیتے انہی یونیک بنا پر آپ دنیا چهوڑ جانے کے بعد بھی دنیا میں مسکن بنائے ہوئے ہیں. آپ ہی کی کاوشوں کی بنا پر ڈاکخانہ الماری سے نکل کر دو منزلہ عمارت میں آگیا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام سیری ڈاکخانہ ہوگیا.

آج اس ڈاک خانے میں وہی خوش خط لکھاری(خالد ولد صوفی بیرولی) بابو(پوسٹ ماسٹر) ہے، آپ یُوں کہہ سکتے ہیں کے ڈاک خانہ ابھی تک گھر میں ہی ہے. اور چهٹیاں لکهنے والے کم ہی رہ گے ہیں.
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56169 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.