سرکاری عیاشیاں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سردار اخترمینگل کا یہ بیان نیا نہیں کہ
حکمران بلوچستان سے ٹنوں کے حساب سے سونا نکال کر لے جارہے ہیں، وہ ہمارے
بچوں کو جوتے تو دیں۔یہ بیان ایک جملہ ایک علامت ہے، جس کا ذکر بلوچستان کے
سیاستدان کرتے رہتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے وسائل لے جاکر ہمیں اس
کے متبادل کچھ نہیں دیا جاتا۔ بلوچستان کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے،
جو وہ ہر حکومت سے کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ ایسے ہی وجود میں نہیں آگیا، یقینا
اس کے پیچھے حقائق اور سچائی بھی ہے، جس کے لئے کسی سروے یا تحقیق کی ضرورت
نہیں، ہر چیز بچشمِ سر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ معاشی ترقی کے سارے
سرچشمے ’اوپر‘ سے پھوٹتے ہیں، پانی بھی مشرق سے مغرب ہی سفر کرتا ہے،
پہاڑوں سے برف پگھل کر میدانوں سے ہوتی ہوئی سمندر میں گرتی ہے۔ یہی عالم
ترقیاتی منصوبوں کا بھی ہے کہ وہ اسلام آباد اور لاہور سے فرصت پائیں تو
کسی اور شہر یا علاقے کی طرف توجہ دیں۔ پورے ملک کی ترقی انہی دو شہروں میں
ہورہی ہے، جو فنڈز تقسیم ہو کر لاکھوں کا بھلا کیا جاسکتا تھا، وہ سارے فنڈ
یہی د وشہر کھا رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جب ان محروم علاقوں نے
کبھی اپنا حق مانگنے کی کوشش کی تو انہیں غدار قرار دے دیا گیا، یا دشمن کا
آلہ کار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، یا ملک دشمنی کا الزام تھوپ دیا گیا۔
کسی نے یہ تکلف نہ کیا کہ چلّانے والے کی تکلیف تو پوچھ لیں۔
محرومیوں کا مسئلہ مسلّم ہے، یہ کام جنوبی پنجاب سے ہی شروع ہوجاتا ہے، اور
مزید آگے سفر کرتے جائیں، ترقی کا نام ونشاں نہیں ملے گا۔ مگر اس دوڑ میں
پیچھے رہ جانے کی وجہ جہاں اپنے حکمران ہیں، جنہوں نے صرف اپنے مفاد کو
سامنے رکھ کر دارالحکومتوں کو ہی بنایا سنوارا ہے، اور دور دراز علاقوں کے
مسائل و معاملات سے آنکھیں بند ہی رکھی ہیں، وہیں غیر ترقی یافتہ علاقوں کے
لوگوں کی غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اپنا حق مانگنا اور بعض
اوقات دباؤ ڈال کر حق حاصل کرنا کوئی خامی یا غداری یا ملک دشمنی نہیں۔
اپنے ہاں یہ الزامات عموماً حکومت مخالف لوگوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں، سب
سے بڑی محب وطن پارٹی حکومتی پارٹی ہوتی ہے اور ملک کی سب سے مخلص جماعت
بھی وہی ہوتی ہے، اپوزیشن کی اکثر جماعتیں قابلِ گرفت ہوتی ہیں۔ محروم
علاقوں کے سیاسی قائدین کا قصور ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول میں کیوں ناکام
رہے۔ خاص طور پر اس وقت ان سے حق کون چھینتا ہے جب وہ خود کسی محروم صوبے
کے حکمران ہوتے ہیں؟ ستم تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت ہی اپنے سے پہلے جانے
والوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ وہ یہ بیان دے کر اپنا سارا ملبہ مرکزی
حکومت یا پنجاب حکومت یا پھر اپنی ہی سابق حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کے بارے میں مصدقہ ذرائع کی جانب
سے خبر آئی تھی کہ وہ اپنے سپیشل طیارے پر دبئی تشریف لے گئے، جہاں انہوں
نے پاکستان سپر لیگ کا فائنل میچ دیکھا۔ متعدد ارکان صوبائی اسمبلی اور
اعلیٰ سرکاری حکام کی بھی سرکاری خرچ پر میچ دیکھنے جانے کی اطلاعات ہیں۔
بلوچستان کے سابق (نصف دور کے) وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ایک سادہ انسان
تھے، ان کے دور میں کرپشن یا عیاشی تک کی کوئی خاص خبر سامنے نہیں آئی، وہ
عام لوگوں میں عام آدمی کی طرح ہی رہتے تھے۔ مگر موجودہ وزیراعلیٰ چونکہ
نواب ہیں، اس لئے وہ سادگی وغیرہ کے قائل نہیں ہیں۔اگر یہ لوگ اس قدر سادہ
ہوتے، یا اپنے عوام کے اتنے خیر خواہ ہوتے تو بلوچستان ترقی کیوں نہ کرچکا
ہوتا، یا کم سے کم اس قدر پسماندہ نہ ہوتا ۔ بلوچستان میں صرف دو طبقے ہی
رہتے ہیں، ایک نہایت امیر اور دوسرے نہایت غریب۔ امیروں کے پاس مال ودولت
اور مراعات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، دوسری طرف غریبوں کی زندگی حسرت اور
مجبوریوں میں ہی گزرتی ہے، وہ ترقی، تعلیم اور آسودگی کا خواب بھی نہیں
دیکھ سکتے۔ یہ ظلم صرف بلوچستان کے سردار اور سیاسی قائدین ہی نہیں ڈھاتے
کہ وہ اقتدار میں ہوتے ہیں مگر ان کے عوام ترقی اور خوشحالی سے محروم رہتے
ہیں۔ یہ کام ہر غریب اور پسماندہ علاقے میں ہوتا ہے، شاید وہ علاقے پسماندہ
بھی اسی وجہ سے رہتے ہیں کہ ان کی قیادت مخلص نہیں ہوتی۔ جہاں تک سرکاری
خرچ پر عیاشی کا معاملہ ہے، تو اس بہتی گنگا میں تمام حکمران اور ان کی
اولادیں بھی ہاتھ دھوتی ہیں، پنجاب میں وزیراعلیٰ کے ایم این اے صاحبزادے
بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پروٹوکول میں اپنی حدود سے ہمیشہ
تجاوز کرتے ہیں، کسی سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ |
|