ہر چیز کو فنا ہونا ہے سوائے رب ذوالجلال
کے جو ازل سے ہے اور ابد لآباد تک بلکہ اس کے بھی بعد تک رہے گا اس دنیا
میں جو بناہے اسے بالآخر بگڑنا ہے،جو آیا ہے اسے جانا ہے جو پیدا ہوا اسے
مرنا ہے،اور یہ ایسی قدر ہے جو ہر ایک جان دار و بے جان میں مشترک ہے کہ سب
نے ایک نہ ایک دن فنا ہونا ہے،اور جب وقت اجل آ جانا ہے تو کہیں پناہ نہیں
ملنی اور نہ ہی اس سے فرار ممکن ہے نہ ایک ساعت کی ہی کمی بیشی،خواہ کوئی
کتنا ہی بلند مرتبہ یا دولت میں قارون ،تکبر میں فرعون،ظلم میں ضماک ،تمر
میں نمرود،شہ زوری میں رستم،تن وتوش میں اسفند یار،خوبصورتی میں یوسفؑ،صبر
میں ایوب ؑدرازی عمر میں نوح و خضرؑ،بسالت میں موسےٰؑ،مصوری میں مانی،عشق
میں مجنوں،عدل میں عمرؓفتوحات و ملک گیری میں سکندر،دبدہ میں جمشید،عیاشی
میں محمد شاہ رنگیلا،بلندی اقبال میں اکبر،انصاف میں نوشیروان،حکمت میں
لقمان،تعمیر و ترقی میں شیر شاہ سوری،دانش میں ارسطو،سخاوت میں حاتم
طائی،غزوات میں محمود،طوالت و قامت میں ارم و عوج،موسیقی میں تان سین و
امیر خسرو،شاعری میں انوری و غالب و اقبال اورفردوسی، حکایات میں رومی سعدی
مردانگی میں محمد فاتح،مشقت و انتظار میں زکریاؑ ؑ،گریہ میں یعقوبؑ،رضا
جوئی میں ابراہیمؑ،جہالت میں ابو جہل،حیاداری میں عثمان ؓ،غربت میں
یحیٰؑ،ذہانت میں فیضی،ارادے کی پختگی میں علاؤالدین خلجی، خواب اور تڑپ میں
نورالدین زنگی تصوف اور حاضر جوابی میں بایزید بسطامی ؒ،حکمرانی حکومت و
سلطانی میں سلمانؑ،شجاعت میں علیؓ، سچائی میں صدیق اکبرؓ،سخاوت میں عثمانؓ
بن عفان،عدالت میں عمرؓو ہارون رشید، خونریزی میں چنگیز،فلسفہ اسلام میں
امام غزالیؒ،محسن کشی مین روحلیہ،غداری میں میر جعفر و میر صادق،فقہ میں
اما م اعظم ابو حنیفہؒ،کسب حلال میں سلطان ناصر الدین ملک،صدق و صداقت میں
ابوبکر صدیقؓ،خوش الحانی میں داؤدؑ،غلامی و فرمانبرداری میں بلال واویس
قرنی ؓ،سیاحت میں ابن بطوطہ،اور مرتبے اور رتبے میں امام حسین ؓ ہی کیوں نہ
ہو کسی کو بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں،یہ ایک پہلو ہے اب تھو ڑا ٓگے چلیں
،ہم جن کے نام اور ناموس پہ ہر وقت کٹ مرنے کو تیا ر ہیں ان ہادی برحق ﷺ نے
فرمایا کہ جنگ میں بھی جی ہاں حالت امن نہیں جنگ میں بھی کسی کے ساتھ
زیادتی نہ کرو،عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو،بوڑھوں کو چھوڑ دو،جو قتل ہو
جائیں ان کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرو،جانوروں کو مت قتل کرو،بیماروں کو
بھی بخش دو،جو قید ہو جائیں ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو،چرچ یا
مندروں کو مسمار مت کرو،لوگوں کی عمارتوں کو مسمار مت کرو،ہتھیار ہھینک
دینے والوں کو قتل مت کرو،بھاگنے والوں کو بھی قتل نہ کرو اور زبردستی کسی
سے اسلام بھی قبول مت کرواؤ،مگر اب ذرا اپنے ہاں دیکھیے کیا ہو رہا
ہے،ذراسا اقتدار جس کسی کو بھی ملتاہے بلکہ بلکہ اقتدار کو چھوڑیں ذرا سا
اختیار بھی مل جائے تو آپے سے باہر،اگر کبھی کسی کو اتفاق ہوا ہو کسی جلسے
جلوس کی سیکورٹی پہ کھڑے رضا کار کا رویہ دیکھنے کا تو آپ کو پوری قوم کی
نیچر کا پتہ چل جائے گا،وہ شخص جو صرف ایک دن بلکہ کچھ وقت کے لیے کسی گلی
کی نکڑ یا کونے میں کھڑا ہوتا ہے عام افراد کے لیے پورا جلاد بنا ہوا ہوتا
ہے،کوئی لاکھ منت ترلے کر لے وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا،اب آج کل بظاہر نیشنل
ایکشن پلان کی آڑ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کی کہیں تیاریا ں ہیں اور
کہیں ہو چکا کہیں جاری ہے،جہاں ہو چکا اس پہ سوال اٹھائے جا سکتے ہیں کہ کس
کس کو نوازا گیا کس کس کو رگڑا گیا اور کس کس کو چھوڑ دیا گیا سب کی الگ
الگ وجوہات ہیں ،تجاوز کیا ہے ہر وہ چیز جو غلط اور ناجائز طور پہ کہیں
رکھی ہے یا کسی نے کسی کی جگہ پر اپنا تسلط قائم کر رھا ہے تو وہ تجاوز
ہے،اور اس کو ہٹانے کا ریاست و حکومت کو حق و اختیار ہے،مگر کیا طریقہ یہی
ہے کہ اپنی قوم کو انڈیا کی قوم سمجھ کے روند کے رکھ دیا جائے،اول تو یہی
ادارے ذمہ دار ہیں کہ یہ تجاوز کرنے کیوں دیتے ہیں سالہا سال کہاں سوئے
رہتے ہیں،اور جب ہو جائے تو فی الفور ایکشن میں کیوں نہیں آتے اور جب آتے
ہیں تو خا ص و عام کی تمیز بھلا کیوں نہیں دیتے،ایم این ایز اور ایم پی ایز
اور وڈیروں کی طرف سے کیا گیا تجاوز کسی کو نظر نہیں آتا نہ ان کی مارکیٹوں
کو کوئی چھیڑنے کی جراء ت ہی کر سکتا ہے،مگر غریب افراد کی ریڑھیاں اور
ٹھیلے اٹھا اٹھا کر پھینکے جاتے ہیں اور بلدیہ کے کلاس فور ٹائپ کے اہلکار
بھی فرعون کی باقیا ت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں،غریب لوگ ان کے سامنے
گڑ گڑا رہے ہوتے ہیں مگر فرعون کی نسل مذاق اڑا رہی ہوتی ہے،کسی غریب کی دن
بھر کی کمائی کو اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے،یہ سوچے بنا کہ اس کے دل
پہ کیا گذرے گی اور شام کو جب یہ خالی ہاتھ واپس گھر لوٹے گا تو اس کے
معصوم بچے کیا کھائیں گے اور یہ ان کو کیا جواب دے گا،میں نے کئی دفعہ ایسے
اہلکاروں سے بات کر کے انہیں روکنے کی کوشش کی ادب کو ملحوظ کاطر رکھ
کرسمجھایا بھی مگر کبھی کسی نے ایک نہ سنی،گذارش بھی کی آپ کو تجاوز ہٹانے
کا اختیار ہے کسی کا نقصان کرنے کا ہر گز نہیں ،اسی طرح ان نچلے اہلکاروں
کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ موجود افسران کا رویہ اور بھی ناقابل برداشت اور
انتہائی ذلت آمیز ہوتا ہے،کوئی بھی ذی شعور ناجائز قبضے کی نہ تو حمایت کر
سکتا ہے نہ اس میں کسی کا ساتھ دے سکتا ہے کیوں کہ دونوں کام غلط ہیں مگر
ان کو ہٹانے کا بھی کم از کم کوئی طریقہ تو معقول ہونا چاہیئے،کچھ تاجروں
نے اپنی دکانوں کے سامنے اپنی ذاتی جگہ چھوڑ کے دھوپ اور بارش سے بچنے کے
لیے عارضی شیڈ اور چھتری نماکپڑے لگا رکھے ہیں تا کہ گرمی سردی سے گاہک اور
ملازمین کو بچت ہو مگریہاں پر چونکہ ان دکانداروں کا تعلق اس ملک کی ایلیٹ
کلا س کی بجائے عام افراد سے ہے سو فرعونیت ان کو بھی بخشنے کو تیار
نہیں،اور اس سب پہ کما ل حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا فورم نہیں جہاں اس
آپریشن اور ان نکے نکے فرعونوں کے خلاف اپنے نقصان اور اندھا دھند نقصان کی
شنوائی کے لیے رجوع کیا جا سکے،اب آپ جس بھی افسر سے بات کریں ایک ہی جواب
ملتا ہے کیا کریں جناب مجبوری یہ سب نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے ہم تو بے
بس ہیں ،کیا نیشنل ایکشن پلان والوں نے انہیں یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ
یہ بلا روک ٹوک جدھر چاہے چڑھ دوڑیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ کو ئی ایڈوانس
نو ٹس یا وارننگ بھی نہ دیں،کیا یہ گڈ گورننس ہے کیا آج کل کے آپریشن کو
بہترین حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ہرگز نہیں،کیا تجاوز صرف
وہی ہے جو تاجروں اور چھوٹے دکانداروں نے کیا ہوا ہے،کتنی ایسی اراضی ہے جو
پوری کی پوری لوگوں نے اپنے قبضہ میں لے رکھی ہے چالیس فٹ اگر روڈ ہے تو
موقع پر بیس فٹ سے بھی کم ہے اور یہ صورتحال ہر جگہ پہ ہے گاؤں دیہاتوں میں
تو صورتحال اور بھی بری ہے اس کے علاوہ شہر کی ہر گلی میں گھروں کے سامنے
پانچ سے سات فٹ تک ریمپ بنے ہوئے ہیں،اگر گلی بیس فٹ ہے تو ریمپ کی وجہ سے
آٹھ فٹ رہ جاتی ہے،وجہ کیا ہے کہ جب لوگ مکان بناتے ہیں تو گلی سے چھ فٹ
اونچا لے جاتے ہیں اور پھر گاڑی موٹر سائیکل کے لیے ریمپ بنا دیتے ہیں ،کیا
یہ سب کچھ تجاوز نہیں ہے اور اس تجاوز کو ہٹانے کے لیے کیا کوئی کرنل باجوہ
آئے گا،آپریشن بے شک کریں مگر بلا تفریق ہر جگہ کریں اور شخصیات کی تفریق
مٹا کر کریں،غریب لوگوں کے دانستہ نقصان سے اجتناب کریں اور اگر کوئی غلطی
سے ہو جائے تو اس کا ازالہ کریں،گورنمنٹ کی زمین ایک انچ چھوڑیں نہیں اور
کسی کی ذاتی ایک انچ کو چھیڑیں نہیں،سڑکوں بازاروں کے ساتھ ساتھ گلیوں کو
بھی ناجائز قابضین سے واگزار کرائیں اور بلدیہ کے نقشہ پاس کرنے والے آئندہ
جہاں ایک طرف ناجائزجگہ پر پلازے دکانوں کے نقشے پاس نہ کریں وہیں پر
رہائشی مکانوں کے نقشے پا س کرتے وقت گلی کی اونچائی کی مماثلت دیکھ کر اس
کے نقشے کو منظور کیا جائے،اور اگر ٹی ایم اے ایسا کوئی نقشہ پاس کرے تو اس
پر تعمیر غیر قانونی تعمیرات کو گراتے وقت جرمانہ ٹی ایم اے کو کیا جائے
اور ادائیگی مالکان کو کی جائے،کیوں کہ جتنا تعمیر کرنے والا قصور وار ہے ،اور
سرکاری ملازمین کو بھی اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری اور لگن سے ادا کرنی
چاہیے،کسی بھی غلط کو صحیح فرعونیت ور عونت کی بجائے اخلاق کا دامن چھوڑے
بغیر بھی بہتر اوراحسن طریقے سے کیاجا سکتا ہے،،،،،،اﷲ ہم سب پہ رحم کرے! |