صحت کی سہولیات ۔۔۔۔خوبصورت اعلانات تک محدود۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں
قومی صحت پروگرام شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں کی زندگی میں اب سکون
آنا چائیے ،پاکستان میں سب اچھا ہو گا ،غریب علاج کے لئے جائیدادیں نہیں
بیچیں گے اورغریبوں کی فلاح وبہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گیاور وہ
سیاست کو سیاست نہیں عبادت سمجھتے ہیں ،میاں محمد نواز شریف ہمیشہ ایسی
خوبصورت باتیں اور اعلانات کرتے ہیں مگر حقیقت میں عوام کو کیا ملتا ہے یہ
سب جانتے ہیں ، مسلم لیگ (ن) کی حکومت مرکز اور پنجاب کے ساتھ ساتھ
بلوچستان میں بھی ہے اور کئی مرتبہ برسر اقتدار آئی ہے مگر کوئی ایسی اسکیم
جو چلتی نظر آتی ہو جس کے ثمرات سے عوام کو فائدہ پہنچا ہو ،ایک لمبی فہرست
حکومت کے ناکام منصوبوں اور اسکیموں کی ہے ،یےلو کیب پہلے ہی بری طرح ناکام
ہوئی ،اب پھر شروع کر دی گئی ہے گرین رکشہ اور گرین پک اپ اور لوڈر شروع کر
دئیے گئے ،ماضی میں موبائل ہیلتھ یونٹ،سستی روٹی کا منصوبہ بھی بری طرح
ناکام ہوا،دانش اسکولز ناقص منصوبہ بندی کی ایک تصویر ہیں ،پہلے سے قائم
اسکولوں کی حالت ٹھیک کرنے کی بجائے نئے اسکولز بنانے کی کہاں کی دانش
مندی۔۔۔؟اورنج ٹرین نے پورے لاہور کاحلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ،ہائی کورٹ
کئی مرتبہ اس منصوبے پر اعتراض کر چکی ہے ،جلد بازی میں پل بنائے جارہے ہیں
کہ صرف چند برسوں میں زمین پر آرہے ہوں گئے ،کئی مرتبہ نواز شریف اور شہباز
شریف یہ اعلان کر چکے ہیں کہ غریبوں کا علاج ’’مفت‘‘ کریں گئے ،یہ کیسے
ممکن ہے۔۔۔؟جنرل مشرف کے دور میں سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے
زندگی بسر کر رہے تھے اب پاکستان کے انتہائی ’’قابل فخر‘‘وزیر خزانہ اسحاق
دار فرماتے ہیں کہ دس کروڑ افراد کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے
،یہیں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ترقی کا سفر کس قدر آگے جا رہا ہے ، 68برسوں
میں ہم نے یہ کمایا ہے کہ آج ساراملک قرضے کے اندر ڈوبا ہوا ہے ،چین ،ترکی
اور برطانیہ کئی دوسرے ممالک کی کئی کمپنیاں اس ملک میں کام کر رہی ہیں ،ہم
تو اپنے ملک میں سفائی کا نظام بھی درست کرنے کے لئے بھی ترکی کی کمپنی سے
مدد لے رہے ہیں ،پولیس کے نظام کو درست کرنے کے لئے بھی ترکی کی پولیس کی
مدد لے رہے ہیں ،چین بجلی گھر اور پتہ نہیں کیا کیا کام کر رہا ہے ،برطانیہ
سے اپنا تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے معاہدے کئے جارہے ہیں ،ہمارے ساتھ
ہم سے جدا ہونے والے مشرقی پاکستان ( اب بنگلہ دیش) نے ترقی کے زینے طے کر
لینے ہیں اور ہم ترکی اور چین والوں کو بلا کر ان کے ساتھ ایم او یو اور
دیگر معاہدے کر کے یوں تالیاں بجاتے ہیں جیسے ہم نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو
، صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے مگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہاورنج
ٹرین اور میٹرو بس ہی ترقی کا زینہ ہے حالانکہ یہ ایک ناقص سوچ ہے ،پاکستان
میں ہر سال لاکھوں افراد صحت کی سہولیات نہ ملنے پر خطرناک بیماریوں میں
مبتلا ہو رہے ہیں ،خطرناک بیماریوں میں سرطان’’Cancer‘شوگر،ہیپاٹائٹس شامل
ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ڈینگی بہت خطرناک اور جان لیو بیماری ہے اور یہ یہ
بھی مانا کہ پنجاب میں اس پر شہباز شریف اور خواجہ سلمان رفیق نے بہت کام
کیا اور اب پنجاب میں اس طرح ہیں کی خطرناک صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے
،پاکستان میں ہر سال کینسر کے پانچ لاکھ نئے مریض آرہے ہیں اور ساٹھ فیصد
لوگوں کو علاج کی سہولت میسر نہیں ،آج ہر کوئی جانتا ہے کہ سرطان کا علاج
کتنا مہنگا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے مکان ،گاڑیاں اور موٹر سائیکل تک
فوخت ہو گئیں ،متحرم میاں صاحب جائیدادیں تو آپ جیسے لوگوں کی ہوتی ہیں جو
شخص /مریض انمول یا سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لئے آرہا ہو اس بے چارے کے
پاس آخر جائیداد کیا ہو گی۔۔۔؟آپ کی حکومت کیا ان بے چاروں چار سے پانچ
لاکھ سرطان کے نئے مریضوں کا اور جو پہلے سے موجود مریض ہیں ان کا اعلاج
مفت کرائے گی۔۔۔؟آپ کے پاس سڑکیں اور گرین بس ،میٹرو ،اور اورنج ٹرین کے
لئے تو ضرور اربوں روپے ہوں گئے مگر غریبوں کے علاج کے لئے کچھ نہیں ،اور
تو اور گزشتہ68برسوں میں پورے ملک میں کینسر کے مریضوں کے لئے دو BCTاسکین
مشین آج تک نہیں لگا سکے اور حکمران کہتے ہیں کہ غریبوں کا مفت علاج مہیا
کریں گے، ذرا دیر کو سوچیں جو مریض کراچی ،پشاور ،کوئٹہ اور ڈی جی خان سے
آتے ہیں وہ کس طرح اور کس وقت آتے ہوں گے کب CT ,Bctبیٹ اسکین کراتے ہوں گے
اور اگر مشین منٹینس کی وجہ سے خراب یا بند ہو تو مریض رات بھر کہاں بسر
کرتے ہوں گے ۔۔۔؟ یہ مشین پبلک سکیٹر میں پورے پاکستان میں صرف اور صرف
لاہور میں ’’انمول‘‘ میں ہے ،بھلا ہو انمول والوں کا بڑے مشکل حالات میں
بھی یہ مشین چلا رہے ہیں ،اربوں روپے لوہا ،مٹی اور پتھروں پر جونک دینے
والے ’’چالیس کروڑ‘‘ روپے کی مشین تو آج تک خریدی نہ جاسکیں۔۔۔؟ کتنے دکھ
اور افسوس کی بات ہے کہ پرائیوٹ میڈیکل کالجوں میں کینسر اور دیگر خطرناک
بیماریوں کے باقاعدہ شعبے ہی نہیں ہیں حالانکہ پی ایم ڈی سی کے مطابق ہر
پرائیوٹ میڈیکل کالج میں لازمی طور پر20بستر سرطان کے مریضوں کے ہونے چائیں
،ہمارے ملک میں 47فیصد چھاتی کے سرطان،38فیسد منہ اور حلق کے سرطان،32فیصد
لوگ جگر ،24فیصد آنتوں ،21فیصد خون،20فیصد خواتین،17فیصد غدود کے سرطان میں
مبتلا ہوتے ہیں ،اس وقت ملک میں سرطان کے علاج کے لئے اسپتالوں اور ماہر
ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے ،دوسری طرف سرطان کے مریضوں میں دن بدن اضافہ ہوتا
جارہا ہے ،ملک میں تمباکو نوشی،پان ،گٹھا،چھالیہ،رنگ دار اشیاء کھانے والوں
کی تعداد بھی بڑتھی جا رہی ہے ،پاکستان میں انتہائی ناقص خوراک اور پینے کے
لئے انتہائی آلودہ پانی ہے جس سے بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں اور ’’حکومت‘‘
گھوڑے بیچ کے سوئی ہوئی ہے ،چاہے وہ پنجاب ہو ،کے پی کے،سندھ یا بلوچستان
ہو ۔۔۔ان عوامل سے سرطان سمیت خطرناک ترین بیماریاں بڑھ رہی ہیں عمران خان
سرطان کے لئے پشاور میں اسپتال بنا رہے ہیں خدا کرے کہ وہ مفت علاج کے وعدے
پے بھی قائم رہے ان کی کاوش لائق تحسین ہے ، دوسری جانب جگر اور گردوں کے
مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا
علاج کس قدر مہنگا ہے اس کا اندازہ وہی مریض لگا سکتا ہے جو اس مرض میں
مبتلا ہو جگر اور گردوں کی پیوند کاری ہر کوئی نہیں کرا سکتا ،جگر کی پیوند
کاری پر تیس سے چالیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ،گردوں کا کاروبار آج بھی ہو
رہا ہے اور اس میں کئی ڈاکٹر بھی ملوث ہیں پھر گردون کی پیوند کاری کے بعد
بھی مریض کو ہزاروں روپوں کی ماہانہ ادویات کھاناپرتی ہیں ،آپ مریض کا
آپریشن مفت بھی کر دیں بھی تو پھر فالو اپ اور مریض کو اپنی صحت برقرار
رکھنے کے لئے جو ہزاروں روپوں کی ادویات درکار ہوں گی تو وہ کہاں سے دیں
گے۔۔۔؟ اصل بات تو یہ ہے کہ مریض کو نا صرف صحت مند کریں بلکہ اس کو دوبارہ
کام کاج کے لئے بھی کار آمد بنائیں ایک طرف ملک میں امراض روز بروز برھ رہی
ہیں تو دوسری طرف عطائیت ،دو نمبر اور جعلی ڈاکٹروں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں
،پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز صرف دو لاکھ جبکہ عطائی دو گنا چار لاکھ ہیں
،کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف حکومتی ادارے جب عطائیوں اور دونمبر
ادویات بنانے والوں کے خلاف کاروئی کرتے ہیں تو دوسری طرف عدالتیں سے ریلیف
مل جاتا ہے ’’سٹے آرڈر‘‘ مل جانے پر یہ عطائی اور دو نمبر ادویات بنانے
والے اور شیر ہو جاتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عطائیوں کو ریلیف دینے
والے کیا پنا اور اپنے بچوں کا علاج ان سے کرائیں گئے ۔۔۔۔؟ یہ ظلم نہیں تو
اور کیا ہے کہ ایک بندہ ایم نی بی ایس نہیں تو کیا وہ الٹرا ساؤنڈ کرے اور
ادویات دے۔۔۔۔؟یہ کہاں کی دلیل ہے کہ ہومیوڈاکٹرز ،حکیموں اور ایل ایچ
وئیز،کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکل سٹاف بھی کسی ایم بی بی ایس یا کسی بھی الٹر
ساؤنڈ اسپشلسٹ کو تیس ہزار روپے دے اور مشین پر ٹیسٹ اور معائنہ کی تربیت
لے،راقم نے خود جا بجا جگہوں پر دیکھا ہے کہ ایسے بے شمار اشتہارات دیکھے
ہیں کہ تین ماہ میں الٹرا ساؤنڈ کورس کر لیں ،بد قسمتی سے اس ملک میں ایسے
سینکروں ایم بی بی ایس ہیں جو ہر بیماری کا علاج کر رہے ہیں ایک ڈاکٹر
مہارت کسی اور فلیڈ میں حاصل کرتا ہے اور علاج کسی اور بیماری کا شروع کر
دے ،یہ بھی عطائیت ہے ،بقول ڈاکٹر جاوید احمد گورائیہ ای ڈی او ہیلتھ کے
ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو اب عطائیت کے خلاف خود جہاد کرنا ہو گا ،راقم نے
ایک جگہ کال کی تو بتایا گیا کہ اگر آپ ایف اے یا میٹرک پاس ہیں تو آپ کو
الٹرا ساؤند کے ماہر بن سکتے ہیں ،بیماریوں کی تشخیص پھر اس پر علاج اور
ادویات کا تعین الٹرا ساؤنڈ اور دیگر کلینکل ٹیسٹوں کی رپورٹ کی روشنی میں
کیا جاتا ہے اور الٹر ساوئنڈ کرنے والا ہی جاہل اور غیر تربیت یافتہ ہو اور
اس کو جسم کی کیمسٹری کا کیا پتہ ہے ،بھلا کس طرح وہ جسم کے اندر گردوں
،جگر اور دیگر نظام کا معائنہ کر کے رپورٹ لکھ سکتا ہے ،جبکہ حکومت کہتی ہے
کہ جگر کے انراض بڑھ رہے ہیں ان ناہل ڈاکٹرز اور حکیموں ،نرسز اور ایل ایچ
وی کو الٹرا ساؤنڈ کی اجازت دی جائے ،اس طرح کی اجازت ملنے پر ہر بیماری کا
علاج غلط ہو جائے گا اور لاکھوں لوگ خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے
،حکومت کے لئے یہ بات کس قدر شرم اور افسوس کی ہے کہ سرکاری ہسپتال تو80سے
ایک سو کنال پر ہوتے ہیں مگر وہاں علاج کی سہولتیں نامناسب اور وہ نقصان
میں ہوتے ہیں جبکہ ایک سے دو کنال کا پرائیوٹ اسپتال سالانہ ڈیڑھ کروڑ سے
دو کروڑ صرف منافع کماتا ہے ۔۔۔۔؟سرکاری اسپتالوں کو برباد صرف اور صرف ان
سرکاری ڈاکٹروں اور پروفیسرز نے کیا ہے جو رات رات بھر پرائیوٹ اسپتالوں
میں نوٹ چھاپنے پر لگے رہتے ہیں ،مرحوم ضیاء الحق نے درست کہا تھا کہ
ڈاکٹرز بوریاں بھر کر نوتوں کی لے جاتے ہیں ،اگر ضیاء الحق کے زمانے میں
بوریاں بھر کر لے جاتے تھے تو اب تو ٹرک بھر کر لے جاتے ہوں گے ،اب مقامی
ادویات ساز ادارے ڈاکٹروں کے جہاز بھر کر دوسرے ممالک کی سیر کروانے لے
جاتے ہیں ۔۔۔۔راقم آپ کو اہم بات بتاتا ہے اس پر پر تفصیلی بعد میں بات ہو
گی کہ ہنگری ،یوگو سلاویہ اور پرتگال سے انٹیی بائیوٹیکس ادویات بنانے کا
خام پاؤڈر ڈھائی سو روپے کلو کے حساب سے آتا ہے جس سے چار ہزار گولیاں
بنائی جاتی ہیں ،ایک گولی پندرہ روپے کی فروخت کی جاتی ہے ،ڈھائی سو روپے
کے خام مال سے پاؤڈر سے پانچ لاکھ روپے کمائے جاتے ہیں ،اگر ادویات کے
کاروبار میں منافع نہ ہوتاتو ااج ملک میں 9ہزار مقامی کمپنیاں معرض وجود
میں نہیں آتیں۔۔۔۔؟ کل کے میڈیکل ریپ ،ناکام ڈاکٹرز اور چھوٹے چھوٹے
کاروبار کرنے والے آج بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اس لئے بن گئے ہیں کہ ادویات
کے کاروبار میں منافع کی شرح پانچ سو فیصد سے زیادہ ہیں ،اس بارے میں ہمارے
پاس بہت کچھ ہے اگر اور لکھا گیا تو اس ملک کے کئی بڑے ناراض ہو جائیں گے
۔۔۔معروف قانون دان و سیکرٹری بار چوہدری محمد اکرم ٹیپو کا کہنا ہے ڈرگ
ایکٹ میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔۔جب تک آپ کے پاس اچھے لوگ نہ ہوں گئے تو کچھ
نہ ہو گاخاص طو رپرد یہات میں قائم رورل ہیلتھ سنٹرز کا جہاں ڈاکٹروں ،
نرسوں،اور پیرامیڈیکل سٹاف کو کیا سہولیات دے رہے ہو پھر ان علاقوں میں
دوپہر کے بعد کوئی ڈاکٹر نہیں ملتابس روزانہ’’ میٹنگ پر میٹنگ ‘‘ہوتی ہے اس
میٹنگ میں موجود تمام افسران اور وزاراء سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کبھی
اپنا یا اپنے بچوں کا علاج سر کاری اسپتالوں میں کروایا ہے۔۔؟میاں صاحب آپ
خود ، آپ کی بیوروکریسی اور آپ کے وزاراء محترم جب تک اپنا اور اپنے بچوں
کا علاج سرکاری اسپتالوں سے نہیں کرواتے کبھی بھی’’ سرکاری اسپتالوں ‘‘کا
میعار بہتر نہیں ہو گا،خادم اعلی صاحب آپ یہ کیوں نہیں کرتے کے جو سب سے
سینئر ہو اس کو ادارے کا سربراہ بنا یا جائے یہ کیا۔۔۔۔؟ کہ سی ایم انٹرویو
کرے گا اور کسی کو لگایا جائے گا،سسٹم کہتا ہے کہ اور ’’گورا بہادر ‘‘بھی
کہ جو سینئر ہے اس کو ادارے کا سربراہ لگایا جائے سابق ادوار میں پی آئی سی
کو ایک معروف سرجن اور وہاں کے ایک ڈاکٹر نے تباہ کیا پرویز الہی نے اس کو
معطل کیا ،پھر وہاں کے معروف سرجن کے کہنے پر دو دن میں بحال کر دیا اور
گریڈ 21 میں ترقی دی اور ستارہ امتیاز دیا، قارئین پھر انہی دونوں ڈاکٹروں
کے زمانے میں جعلی ادویات سے پی آئی سی میں سینکڑوں دل کے مریض مر گئے
۔۔۔۔خدا رااب اس ادارے کا نظام کسی اچھے انسان کے سپرد کر دیں،کئی برس قبل
سرگودھا کی ایک خاتون’’ ایم پی اے ‘‘کا اکلوتابیٹا سروسز اسپتال کے ڈاکٹروں
کی نذر ہو گیا تھا پھر ایک’’ ایم پی اے‘‘ بھی سرکاری اسپتال میں وفات پا
گیا ،آپ کا کوئی بھی سرکاری اہسپتال ایسا نہیں ہے جس کا مقابلہ آپ کسی بھی
پرائیویٹ اسپتال سے کر سکے کہا جاتا ہے۔۔۔۔ کہ’’ محکمہ صحت ‘‘پر بڑا دباؤ
ہے ۔۔؟یہ علیحدہ بات ہے کہ خواجہ سلمان رفیق کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں مگر
میر ا خیال ہے کہ حکومت کو ہر’’ ڈویثرن‘‘ کا وزیر صحت اور سیکرٹری صحت مقرر
کر دینا چایئے تبھی کام ٹھیک ہو گا ، یقین کریں ہر محکمے میں رشوت کا بازار
گرم ہے کوئی احترام رمضان نہیں ہوتا ہے بلکہ’’ عیدی ‘‘کے نام پر ڈبل رشوت
لی جا رہی ہوتی ہے، میاں صاحب کبھی آپ بھی بھیس بدل کر ’’اے جی ‘‘آفس اور
دیگر محکموں کا چکر لگائیں تو پھر پتہ چلے گا کہ اس ملک کے عوام کس قدر بے
بس ہیں ان ’’رشوت خوروں ‘‘کے ہاتھوں۔۔۔۔بہرحال محکمہ صحت کے دو حصے کرنے سے
اب بے چارے ڈاکٹروں اور نرسوں اور پیرا میڈلکل سٹاف کو بھی دو دو جگہ پر
رشوت دینی پڑے گی اب ’’تو وائی ڈی اے‘‘ بھی ہے پہلے تو وائی ڈی اے نہیں تھی
اشاروں میں بات کی ہے سمجھنے والے سمجھ جائیں گئے ،خادم اعلی صاحب سرکاری
اسپتالوں کا نظام صرف سہولیات کو بڑھانے،ادویات کی فراہمی، ڈاکٹروں کی
موجودگی، اور رات کو اعلی آفسران کے روائنڈ سے بہتر ہو گا اگر حکومت ایم
ایس، ڈی ایچ او ، ای ڈی او یا پھر کوئی عہدہ بطور رشوت دے رہی ہے تو پھر ہم
کیا کہہ سکتے ہیں ۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال وزیر اعظم کی قومی صحت پروگرام ایک
اچھا قدم ہے اس میں غریب اور بے بسی کی تصویر لوگوں کو میرٹ کی بنیاد پر
صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اس میں سیاست کا عنصر نہیں ہونا
چائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول غالب۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ۔۔۔۔۔ کہتا
ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.