تحریک انصاف کی پولیس میں تبدیلی کانعرہ

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ملک بھر کے پولیس سسٹم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ چاروں صوبوں میں پولیس فورس کی تعداد کم ہے۔ پولیس سے توقعات تو بہت رکھی جاتی ہے لیکن اس کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں ہوتا ۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے سایے میں پھلنے والے معاشرے میں پولیس کا کردار اور بھی اہم بن جاتا ہے جب ہر روز نامعلوم افراد کی جانب سے بھتے کی کال یا اغوابرائے تعاون کی وارداتوں سمیت راہزنی، چوری ڈاکے اور قتل وغارت عام ہو وہاں پر پولیس کی طرف سارااعتراض اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔پولیس کاکام صرف یہ نہیں کہ وہ حکمرانوں کو سکیو رٹی دے بلکہ احتجاج ، جلسے جلوس،بازاروں میں لڑائی جھگڑے،منشیات کے اڈے،جوا شراب خانوں،قتل وغارت سمیت معمول کے وارداتوں اور دہشت گرد کارروائیوں کو کنٹرول کرنا پولیس ہی کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجودپولیس کی نفری انتہائی کم ہے ، تنخواہیں بھی دوسری فورسز کے مقابلے میں بہت کم ہے جو سہولتیں نیوی، ایئرفورس ، بری فوج ،رینجرزاور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل رہی ہے وہ سہولتیں پولیس کو دستیاب نہیں ۔ حکومت نہ ان کی ٹر نینگ پر پیسہ خرچ کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی ان کی تنخواہیں دوسری فورس جتنی بڑھانے کیلئے تیار ہیں بلکہ جان بوجھ کر پولیس کی تنخواہ کو کم رکھا گیا ہے تاکہ پولیس والے رشوت لینا شروع کریں اور اپنی اخراجات عوام کے جیب سے پوری کریں۔ پھر ہم یہ توقع رکھیں کہ پولیس عوام کی خدمت کرے گی اور عوام کے مسائل حل کرے گی ۔اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پنجاب اور سند ھ میں بالعموم پولیس کے لوگ مجرموں سے ملے ہوئے ہیں یا پولیس کی اجازت سے جرائم ہوتے ہیں کہنے کو تو یہ بات حقیقت پر مبنی معلوم نہیں ہوتی کہ جرائم کے روک تھام والے کیسے جرائم میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پولیس کی پشت پناہی سے بہت سے جرائم نیچے سے لے کر اوپر تک ہورہے ہیں۔دوسرا اہم مسئلہ عوام کا پولیس پر سے اعتبار کا اٹھ جانا ہے، تھانے اور کچہری کے ڈرسے عام لوگ ایف آئی آر ہی درج نہیں کرواتے کہ اب پولیس کو شامل کرکے کیس مزید خراب ہوجاتا ہے۔پنجاب اور سندھ میں تو پولیس کی اپنی بادشاہت ہے یہی معاملہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی کچھ حد تک پایا جاتا ہے ۔بظاہر تو حکمران ملک سے جرائم کا خاتمہ اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو پولیس کا بجٹ پورے ملک میں بہت کم رکھا گیا ہے ۔پولیس کی نفری کم ہونا اپنی جگہ لیکن ان کی تنخواہ اور ٹر نینگ بھی نہ ہونے کے برابرہے مجبوراً پولیس والے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے رشوت لینا شروع کر دیتے ہیں ۔ ملک کے باقی حصوں کو چھوڑ کر کیپٹل اسلام آباد میں پولیس کو پیک اینڈ ڈراپ کی سہولت نہیں، پولیس والے سڑک پر کھڑے ہوکر پرائیویٹ گاڑیوں کو ہاتھ دیتے ہیں کہ کوئی خدا ترس چاہے تو گاڑی روک کر بیٹھا لیتا ہیں ورنہ وہ کھڑے رہتے ہیں ان حالات میں ہم ان سے توقع رکھیں کہ وہ لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنائیں گے اور عوام کے ساتھ اچھا سلوک اور برتاؤ رکھیں گے۔حکومت کے پاس تین سو ارب روپے تو میٹرو بس کو چلانے کے لئے موجود ہیں لیکن تین ارب خرچ کرکے پولیس کو گاڑیاں اور پک اینڈڈراپ کی سہولت نہیں دینگے۔

خیبر پختونخوا میں بھی پولیس کی معاشی اور دیگر سہولتوں کی پوزیشن ابتر ہے۔صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد توقع تھی کہ پولیس کی نفری میں کمی اور تنخواہ سمیت تھانوں کے حالات کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو اور عوام کی حقیقی معنوں میں خادم اور مدد گار بنے لیکن اب تک ان کو بنیادی سہولت بھی نہیں دی گئی۔عمران خان سمیت پارٹی کے رہنما اور حکومتی اہلکار نعرہ تو بہت بلند کر رہے ہیں کہ ہم نے پولیس کو حکومتی مداخلت سے پاک کیا ۔پولیس کو آزاد رکھا ، عوام کی سہولت کیلئے ایف آئی آر درج کرنے کو آسان بنایا جس میں بہت حد تک حقیقت بھی ہے لیکن کیا ان فیصلوں سے پولیس اور عوام کے مسائل حل ہوگئے ہیں ؟ تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کہ ڈھائی سال گزرنے کے باوجود پولیس کی نفری کو نہیں بڑھایا گیا ، ان کی ٹریننگ اور تھانوں کی ابتر صورت حال اب بھی ویسے ہی ہے جس طرح پہلے تھی ۔ پولیس کی تنخواہ کم ہونے اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پولیس بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں کرتی ۔ جو ایف آئی آر سالوں پہلے درج ہے جن میں ملزمان کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں ان کو پکڑنے اور ایف آئی آر پر کارروائی کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ۔ جن کے پیارے قتل ہوئے ہیں ان کے قاتل آج بھی دھندناتے پھررہے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابرہے۔ صوبے میں دہشت گردی اور لاء اینڈآرڈر کی بدتر صورت حال کی وجہ سے پولیس کا عوامی مسائل اور روز مرہ کے کام بالکل ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ پولیس آج بھی رشوت اور سفارش کے بغیر ایف آئی آر سمیت مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔ دوسروں کے دکھ درد کو چھوڑے ہمارے اپنے کزن کے قاتل پانچ سال سے دھندناتے پھر رہے ہیں لیکن پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔چوری اور ڈکیتی کی ایف آئی آر پولیس تھانوں میں فائلوں کی نذر ہے ۔عوام کی بداعتمادی آج بھی پولیس کے اوپر ویسے ہی ہے جس طرح پہلے تھی تو ان حالات میں یہ کہنا کہ ہم نے پولیس کو بہتر کیا پولیس کو سیاسی اثرو رسوخ سے پاک کیا سیاسی طور پر تو بہتر ہے لیکن عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔سچ تو یہ بھی ہے کہ عمران خان کو پولیس سمیت صوبے میں بہت سے فیصلوں اور کاموں کے بارے میں غلط بریف کیا جا تاہے ۔عوام کے پولیس سمیت بہت سے مسائل آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں جن کو حل کرنے کے لئے پولیس کے بجٹ میں ڈبل اضافہ کرنا پڑ ے گا ان کی نفری میں کمی کو پورا کرنے کیلئے فوری طور پر نئے جاب کا اعلان کیا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو روزگار بھی ملے اور عام لوگوں کے مسائل بھی حل ہوجائیں۔تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس میں بہتری اور تبدیلی کانعرہ پورا کیااور حکومت سڑکوں اور بسوں پر نہیں بلکہ عوام پر پیسہ خرچ کررہی ہے۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226110 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More