متروک ایف سولہ کی خریداری پر بھی بھارت کو روڑ

پٹھانکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے بھارت کے اطمینان کیلئے اپنے تئیں پوری تن دہی سے تحقیقاتی عمل کا آغاز کیا اور پھر گوجرانوالہ میں اس حملے کی ایف آئی آر تک درج ہو گئی۔ بھارت نے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کسی حد تک تو اطمینان کا اظہار کیا لیکن وہ اس عرصہ میں بھی پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد آگے بڑھانے میں مصروف رہا۔ اس کی ایک مثال امریکہ کی پاکستان کو محض 8عدد ایف سولہ طیاروں کی فروخت ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے پاس فضائی قوت کئی گنا کم ہے لیکن بھارت پھر بھی اس قدر خائف ہے کہ اس نے ان طیاروں کی فروخت رکوانے کیلئے اپنی ساری قوت اور صلاحیتیں صرف کر ڈالی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو جو ایف سولہ طیارے فروخت کر رہا ہے ان کی قیمت پاکستان بہت عرصہ پہلے ادا کر چکا ہے اور آج کے دور میں ایف سولہ طیارے کی ٹیکنالوجی کافی پرانی بلکہ متروک ہو چکی ہے۔ ایف سولہ طیارے نے پہلی اڑان 20جنوری 1974ء میں بھری تھی اور اس کا دنیا کے سامنے باقاعدہ تعارف 17اگست 1978ء کو پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار ہزار سے زائد ایف سولہ طیارے زیراستعمال ہیں اور امریکہ کے علاوہ دنیا کے 25دیگر ممالک اسے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ نے جب لگ بھگ دو دہائیاں قبل ہم سے 60ایف سولہ طیاروں کی قیمت وصول کر کے بعد میں یہ طیارے روک لئے تھے تو اس کے بعد پاکستان کو شدید پریشانی کا سامنا ہوا تھا کیونکہ امریکہ نے اس پر ہی بس نہیں کی تھی بلکہ اس نے ان ایف سولہ طیاروں کے پرزے تک دینے سے انکار کر دیا تھا جو پاکستان کے زیراستعمال تھے۔ 2001ء میں جب پاکستان پر حملے کے لئے بھارت نے فوج ہماری سرحد پر لاکھڑی کی تھی تو اس وقت ہمارے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ سامنے آ کھڑا ہوا تھا کہ جنگ کی صورت میں کیا ہمارے ایف سولہ طیارے ہمارے کام بھی آ سکیں گے کہ نہیں۔ اس ملک پاکستان کے پاس سب سے بڑی فضائی قوت ہی ایف سولہ طیارے تھے جو امریکی اقدام کے بعد بے بس نظر آتے تھے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر پاکستان نے چین کی مدد سے جے ایف 17تھنڈر طیارہ بنانے کا پروگرام شروع کیا۔ جے ایف 17تھنڈر طیارہ ایف سولہ سے زیادہ بہتر ہے اور اب پاکستان یہ طیارہ دنیا کے دیگر ممالک کو فروخت کرنے کی بھی تیاریاں کر رہا ہے لیکن امریکہ اس وقت انتہائی احسان کر کے ہمیں محض 8طیارے فروخت کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس معاملے کو اس قدر تماشا بنا دیا گیا ہے کہ جیسے یہ پاکستان کی موت و حیات کا قضیہ ہو اور امریکہ ہماے اوپر اس قدر مہربان ہو رہا ہے کہ جیسے اس کی تاریخ میں مثال نہ ملے۔ دوسری طرف بھارت اپنا پورا زور لگا رہا ہے کہ پاکستان کو کسی قسم کی جدید ٹیکنالوجی نہ مل سکے حالانکہ یہی بھارت اس وقت دنیا بھر میں اسلحہ اور جنگی ٹیکنالوجی کے حصول و خرید میں پہلے نمبر پر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان دشمنی میں امریکہ بھی بھارت سے کسی طور کم نہیں ہے اگر کسی کو اس حوالے سے شک ہو تو وہ اس ہفتے کا بھارت میں متعین امریکی سفیر رچررڈ ورما کا بیان پڑھ لے جس میں سفیر نے پاکستان کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ایسے تمام گروپوں اور تنظیموں پر پابندیاں عائد کرے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرے جو بھارت مخالف ہیں۔ امریکہ نے تو بھارت نوازی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار سنبھالا ہوا ہے اور ہمارے کچھ لوگ اب بھی اس بھولپن کا شکار ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ بھارت اور امریکہ کو دوست اور ہمدرد ہی سمجھے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ پاکستان میں بھارت کے مظالم، دہشت گردی اور حقوق کے غصب ہونے پر بھی کوئی بات نہ کرے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں موجود تنظیمیں جو بھارت کے خلاف بیان دیتی تا تحریک چلاتی ہیں، ان کا بنیادی نکتہ ہمیشہ کشمیر رہتا ہے اور بھارت ہے کہ کشمیر پر کوئی بات نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتا اور آزاد کشمیر پر حملے اور قبضے کی باتیں کرتا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ تو کجا،سارا عالم ہی بھارت کے ساتھ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام ہر روز خون کے دریا پار کر رہے ہیں اپنے بیٹے ذبح کروا اور عصمتیں لٹوا رہے ہیں لیکن یہ سب کسی کو نظر نہیں آتا۔ الٹا بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ بیان داغ دیتا ہے کہ پاکستان لشکر طیبہ اور جیش محمد کی پشت پناہی کر رہا ہے بلکہ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کام پاکستان کے خفیہ ادارے اور پاک فوج کرتی ہے جسے روکنا ہو گا۔

بھارت نے کنٹرول لائن کو دنیا بلکہ تاریخ عالم کا سب سے زیادہ سخت اور زیادہ سکیورٹی والا علاقہ بنا دیا ہے، حالانکہ یہ سراسر غیرقانونی ہے کیونکہ مقبوضہ و آزاد کشمیر دونوں ایک ہی خطے کے دو حصے ہیں اور دونوں حصوں میں بسنے والے لوگ ایک ہی خطے کے باسی ہیں جنہیں جبراً جدا جدا کر دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے تو پاکستان نے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین بس سروس کے اجراء کے وقت کشمیریوں کے لئے ویزے کی پابندی قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور اسی وجہ سے چین اپنے ہاں آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے لوگوں کو بغیر ویزے کے داخلے کی اجازت دیتا ہے کہ کشمیر کا ایک حصہ ان کے پاس بھی ہے۔

بہرحال کنٹرول لائن پر اس قدر سکیورٹی، لاکھوں فوجیوں کی تعیناتی، دن رات کے قتل و خون کے باوجود بھارت پاکستان ہی کو موردالزام ٹھہرا کر اس کے خلاف خفیہ اور علانیہ وارداتوں میں مصروف ہے جو انتہائی پریشان کن اور تکلیف دہ امر ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے خواب دیکھنے والے حیران کن طور پر ایسے کسی معاملے پر کوئی بات نہیں کرتے اور پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور میڈیا پر بھی بھارت کی اس پاکستان مخالف مہم کا تذکرہ بہت کم ہی سننے کو ملتا ہے دوسری طرف بھارتی سیاسی محاذ سے لے کر عوامی اور میڈیا کے ہر محاذ تک سبھی لوگ یکسو ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح ان کا اپنا ملک اور ان کا قومی و ملی مفاد ہے جبکہ ہمارے ہاں صورتحال قطعی مختلف ہے۔ اس وقت اﷲ کے فضل سے پاکستان کئی عسکری محاذوں پر کامیابی کے ساتھ اپنے مشن تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کے بعد وہاں کے لوگوں کی واپسی شروع ہو چکی ہے۔ سوات والا معاملہ اور فساد تقریباً دم توڑ چکا بلکہ ختم ہو چکا ہے۔ بلوچستان کی نام نہاد شورش اور شرارت بھی آخری سانسوں پر ہے جس کے پیچھے اول دن سے بھارتی سازش کارفرما تھی۔ ان تمام محاذوں پر شکست دیکھ کر بھارت اب افغانستان میں داخلے کے لئے ایران کا راستہ اختیار کر رہا ہے تو دوسری طرف وہ امریکہ اور دیگر طاقتوں کے ذریعے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈلوانے میں مصروف ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی طرح زمینی راستے سے افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی دے دے، کیونکہ ایران چاہے بھارت کو جس قدر بھی سہولیات اور آسانیاں مہیا کرے، وہ راستہ بھارت کیلئے اختیار کرنا انتہائی مہنگا اور مشکل ہے۔ اس وقت اﷲ کے فضل سے پاک فوج اور عوام کے حوصلے بھی پہلے سے زیادہ بلند ہیں کہ دہشت گردی کے عفریت سے ہمیں نجات مل رہی ہے تو ان حالات میں اب بھارت کی بھی سخت بیخ کنی کی ضرورت ہے۔ بھارت سے جب تک ہم کسی ایک معاملے پر صاف طریقے سے دو دو ہاتھ نہیں کر لیتے، معاملہ درست نہیں ہوسکتا۔ ہمیں بھارت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کے لوگوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ دور کیوں جائیں؟سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی مدد کر کے بھارت کو کس طرح کی شکست اورشرمندگی ہوئی۔ اور تو اور، حال ہی میں زلزلہ زدہ نیپال کو بھارت نے کچلنے اور مکمل طفیلی ریاست بنانے کی کوشش کی حالانکہ نیپال کی حالت پہلے ہی سب کے سامنے ہے کہ وہ بھارت کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن جب اس نے بھارت کو انتہائی کمزور حالت میں بھی ایک دو جھٹکے دیئے تو بھارت نے خود ہی سرحد کھول کر نیپال کے مطالبات کے مطابق معاملات طے کر لئے۔ ہمیں بھارت کے ساتھ ایک بار صرف ایک بار بغیر لڑائی اور جنگ کے مضبوط قدموں کے ساتھ ٹھوس پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پھر اس دشمن کی حالت کیا ہوتی ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.